یاد رکھنا مشکل تو نہیں

یہ ایک عام سا واقعہ ہے جو ہمیں اپنی گلیوں محلوں اور شہروں سے لے کر بڑے بڑے ایوانوں تک میں دکھائی دیتا ہے۔۔۔


Shehla Aijaz September 02, 2014
[email protected]

لاہور: گیس اسٹیشن کے باہر دو قطاریں لگی تھیں، دونوں قطاروں میں گنی چنی گاڑیاں کھڑی تھیں، ایک گاڑی گیس فل کروانے کے بعد فارغ ہوئی تو دوسری مقررہ جگہ پر آگئی اس دوران سڑک پر کھڑی گاڑی کو سلوپ عبور کرکے آگے اس کی جگہ آنا تھا کہ دوسری قطار والے صاحب جو محو انتظار تھے اپنی باری کے نجانے کیا سوجھی جھٹ اپنی گاڑی دوسری قطار میں گھسیڑ دی اور پہلی گاڑی والے کو نظرانداز کردیا۔

ان صاحب سے ضبط کا دامن چھوٹ گیا اپنی گاڑی کھڑی کی اور ذرا جوش سے باہر نکلے بے ایمانی سے جگہ گھیرنے والے درمیانی عمر کے صاحب تھے جب کہ ان کی بے ایمانی کا نشانہ بننے والے نوجوان تھے، ''کیا پہلی بارگیس ڈلوانے آئے ہو؟'' انھوں نے خاصے غصے سے صاحب کو مخاطب کیا جسے انھوں نے ذرا نظر انداز کیا اور گاڑی کچھ اور بڑھائی ''ابے کیا پہلی بار آیا ہے؟'' اب کی بار نوجوان نے ادب آداب ایک جانب رکھ کر درشت لہجہ اختیار کیا، جس پر نہ صرف وہ صاحب متوجہ ہوئے بلکہ کچھ گھگھیائے ہوئے اسے چمکارنے بھی لگے۔ اسی اثنا میں ایک باریش بزرگ بھی آگئے اور انھوں نے معاملہ رفع دفع کروایا اسی اثنا میں مغرب کی اذان بھی ہوگئی اور ایک اچھا خاصا جھگڑا بنتے بنتے ختم ہوگیا۔

یہ ایک عام سا واقعہ ہے جو ہمیں اپنی گلیوں محلوں اور شہروں سے لے کر بڑے بڑے ایوانوں تک میں دکھائی دیتا ہے کیا پاکستان اور کیا ہندوستان۔ سب جگہ کچھ اسی قسم کے ملے جلے رجحانات نظر آتے ہیں۔ نہایت بے باکی اور بے شرمی سے دوسروں کے حق کو غصب کرتے ہیں اور پھر اس پر جھگڑے کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں اس طرح ہم معاشرتی اور معاشی طور پر ڈپریشن جیسے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔

جہاں ایک طرف ہمیں ہمارے اندرونی معاملات بگڑ بگڑ کر مختلف شکلوں میں ابھر رہے ہیں تو دوسری جانب بیرونی معاملات بھی گرانی کے باعث اذیت ناک حالت اختیار کرچکے ہیں۔ اضطرابی، بے چینی، بے خوابی اور شکوک و ابہام ہماری قومی بیماریاں بن چکے ہیں، ہم بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے بعد ان باتوں کا اثر کس حد تک ہوسکتا ہے نقصان دہ یا انتہائی خطرناک لیکن ہمارے جوش جذبے، ہمارے اندر کے بے چینی انسان کو ان تمام خطرات کی جانب دیکھنے نہیں دیتی اور نتیجتاً ہم الجھتے ہی جاتے ہیں۔

ہماری ایک ملنے والی جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں جب ان کے شوہر کا انتقال ہوا تھا اس وقت ان کی چھوٹی بیٹی سوا چھ مہینے کی بھی نہیں تھی اور بڑی بیٹی ڈیڑھ دو برس کی تھی ان تمام حالات کا ذمے دار وہ اپنے نصیبوں کو قرار دے کر پرسکون ہوجاتی ہیں، مجھے اکثر ان کے کھلے چہرے پر پھیلی شگفتگی دیکھ کر خدا تعالیٰ کی رحمت پر پیار آجاتا ہے کہ جس نے اس تن تنہا خاتون کو اس حوصلے سے نوازا آج ان کی بڑی بیٹی پہلی جماعت میں پڑھ رہی ہے جب کہ چھوٹی والی ابھی نرسری میں ہے۔

آج بھی وہ خاتون اپنی بچیوں کے ساتھ اسی گھر میں مقیم ہے جہاں وہ بیاہ کر آئی تھیں۔ برسہابرس سے ان کا سسرال اسی گھر میں رہتا آیا پڑوس میں جیٹھ جیٹھانی اور سامنے ایک نند کی رہائش ہے دیکھنے میں وہ ان تمام رشتے داروں کے بیچ بڑی پرسکون اور محفوظ نظر آتی تھیں لیکن اندر سے یہ رشتے برقرار رکھنے میں خود ان صاحبہ کا بڑا ہاتھ ہے جو اپنی تمام نندوں کو اسی چاہت اور لگاؤ سے اپنے گھر میں خوش آمدید کہتی ہیں ۔

جیسے ان کے شوہر اپنی زندگی میں کرتے تھے۔ ان کے نندوئی کی آنکھ کا آپریشن لاہور کے کسی اسپتال میں تھا تو نند صاحبہ نے انھیں فون کرکے اطلاع دی کہ اس سلسلے میں کچھ دن رہنا پڑے گا انھوں نے جھٹ ہاں کہہ دی ساس اور دو تین بچوں کے ہمراہ وہ میاں سمیت شاہدرہ سے لاہور آٹپکی اور یہ کچھ دن انیس بیس دن پر محیط ہوگئے، آپریشن کے بعد وہ اپنے گھر چلی گئی، عید پر ملنے پھر میکے آئی، اتفاقاً اسی اثنا میں میکے سے ان کے بھائی کا فون آگیا عید کے سلسلے میں ان کے یہاں بھی دعوتوں کا اہتمام ہر برس کی طرح ہوتا ہے لہٰذا انھوں نے سوچا کہ نند صاحبہ تو ابھی اپنی بہن کے گھر ہیں بھائی کے گھر سے ہو آؤں، وہ بچیوں کو لے کر چلی گئی، رات دیر سے آئی تو پتہ چلا کہ نند اور نندوئی جاچکے ہیں۔

انھوں نے بعد میں اخلاقاً فون کیا تو دوسری جانب سے فون اٹھایا نہیں گیا، آخر کئی روز بعد فون اٹھایا تو ناراضگی کا انداز۔ بہت پوچھنے پر بتایا کہ سامنے والی بہن نے کہا کہ تمہارے آنے کا پتہ چلا تو بھابھی گھر میں تالا ڈال کر چلی گئی ۔اس پر انھیں بہت دکھ ہوا انھوں نے کہا کہ جب تمہارے شوہر کے آپریشن کا پتہ چلا تو تم نے کسے فون کیا اور کیا میں نے تمہاری خدمت میں کوئی کمی کی تو نند ذرا شرمندہ ہوئی۔ اور خود ہی اس بہن کو برا بھلا کہا، اس فون کے بعد ہی ان کی ہنستی مسکراتی صورت بجھ سی گئی۔ دو تین روز ایسے ہی گزر گئے دل میں آیا کہ سامنے والی نند کی خبر لیں کہ تم نے ایسا کیوں کہا لیکن پھر خاموش رہی یوں ڈپریشن کا زہر انھیں اندر ہی اندر گھلانے لگا۔

جب ان کی اس حالت کا مجھے علم ہوا تو پتہ چلا کہ راتوں کو نیند بھی صحیح نہیں آتی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنا معاملہ خدا کے سپرد کیا، میرا بڑا دل دکھا ہے یقیناً ایسا ہی ہوا تھا۔ بہرحال میں نے انھیں نیند کی ایک گولی کھانے کو کہا جسے کھانے کے بعد وہ صبح اپنے آپ کو فریش محسوس کرنے لگی۔ کچھ دن نیند کی گولیاں کھانے کے بعد ان کا ڈپریشن جو انھیں سونے نہیں دیتا تھا، دم توڑنے لگا تھا وہ مجھے دعائیں دے رہی تھیں۔

ہم مسلمان بہت خوش نصیب ہیں کہ ہم رب العزت کے سب سے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کی امت سے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ہمارے کس عمل سے خدا خوش ہوتا ہے اور کس عمل سے ناراض۔ لیکن پھر بھی ہم جان بوجھ کر ایسے عمل کرجاتے ہیں کہ جس سے خدا کے بندے پریشانی کی اذیتوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں چاہے وہ ایک معمولی سی شرارت ہو یا زبان کی ہلکی سی جنبش۔ ہم کوئی معمولی ترین بدعمل کو مزے سے کرکے آگے نکل جائیں لیکن یاد نہیں رکھتے کہ ایک ہستی ایسی بھی ہے جو آسمانوں پر ہی نہیں ہمارے دلوں سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے جو سب یاد رکھتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں