حکومتیں کیوں گرتی ہیں
ریاستیں ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لیے مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور اس کا ثبوت نہ صرف دو عالمی جنگیں بھی ہیں
مجھے یاد ہے جس وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا اس وقت مجھے کرکٹ سے محبت جنون کی حد تک تھی، پاکستانی ٹیم کی جیت پر جس قدر خوشی ہوتی تھی اس کا اظہار لفظوں میں ممکن نہیں۔ میانداد اور عمران خان اس وقت کے مشہور کرکٹر تھے اور میرے آئیڈیل تھے۔
ایک ٹیسٹ میچ میں عمران خان پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے، مجھے یاد ہے اس میچ میں نتیجہ نکلنے کے حوالے سے قطعی دلچسپی نہ تھی بلکہ صرف میانداد کی دو کے بعد تیسری سنچری بننے اور ورلڈ ریکارڈ قائم ہونے کی امید ہی سب کی دلچسپی کا باعث تھی، قریب تھا کہ میانداد سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کر لیتے کہ اچانک کپتان عمران خان نے میدان سے پاکستانی ٹیم کو واپس بلا لیا اور پاکستانی ٹیم کی اننگز ختم کر کے مخالف ٹیم کو بیٹنگ کرنے کی دعوت دی یوں نہ ہی میانداد سب سے زیادہ رنز بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کر سکے نہ ہی پاکستانی ٹیم میچ جیت سکی۔ عمران خان کے اس عمل پر سارے کرکٹ شائقین حیران تھے کہ یہ کیا ہوا؟ بھارتی ٹیم کے کپتان سنیل گواسکر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی جگہ بھارت کی ٹیم ہوتی اور ان کا کوئی کھلاڑی اس طرح ورلڈ ریکارڈ بنانے جا رہا ہوتا تو وہ ساری توجہ ریکارڈ بنانے پر دیتے اور اگر میچ میں شکست بھی قبول کرنا پڑتی تو کر لیتے مگر بھارت کا نام روشن کرا دیتے۔
اس وقت نہ صرف مجھے بلکہ سارے پاکستانیوں کو عمران خان کے اس رد عمل پر حیرت ہوئی اور سخت افسوس ہوا کہ اس نے ایسا کیوں کیا، بعد میں معلوم ہوا کہ عمران خان میانداد کا ریکارڈ بنتا دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے انھوں نے پاکستان کا بھی ریکارڈ نہ بننے دیا اور پاکستانی ٹیم کو ڈیکلیئر کر دیا۔
اس مہینے جب عمران خان اسلام آباد میں محض نواز شریف کی مخالفت میں پورے جمہوری نظام کو داؤ پر لگا بیٹھے تو مجھے میانداد کے ریکارڈ والا واقعہ یاد آ گیا اور کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ ایسے شخص سے بھلا اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان میں ابھی سیاسی بصیرت نہیں آئی ان کی سیاسی بصیرت پر ان کی فطرت حاوی سی نظر آتی ہے۔
٭ حالیہ دھرنوں کی ضرورت کیوں پڑی اور حکومت گرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ ابھی نئی حکومت کوڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا۔ نیز ماضی میں بھی کیوں حکومتیں گرائی جاتی ہیں اور عوام احتجاج میں کیوں شریک ہوئے اور اگر ہوئے تو پھر عوامی فلاح و بہبود کے وہ مقاصد ہمیشہ کیوں حاصل نہ ہوئے جس کے دعوے ہمیشہ کسی بھی حکومت کو گراتے ہوئے کیے گئے تھے؟ یہ ایک بڑا اہم سوال ہے یہی سوال مجھ سے چند ایک روز قبل ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان نے بھی کیا تھا۔
اس سوال کا جواب اگر ہم ماضی کے پس منظر اور عالمی تناظر میں دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اندرونی و بیرونی خطرات اور سازشوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
ریاستیں ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے لیے مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور اس کا ثبوت نہ صرف دو عالمی جنگیں بھی ہیں بلکہ ماضی کے دو نظریاتی سپر پاور قوتیں بھی ہیں۔ مزدور دوست یعنی کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کی حامل سپر پاور امریکا اور روس ماضی میں اپنے نظریات کے فروغ کے لیے دنیا کے دیگر ممالک میں اپنے ہم خیال جماعتوں کی بھرپور حمایت و مدد (در پردہ بھی اور کھل کر بھی) کرتی رہی ہیں اور تیسری دنیا کے ممالک میں بشمول پاکستان میں یہ نعرے ان قوتوں کی مدد سے ہی لگائے گئے کہ ایشیا سرخ ہے یا ایشیا سبز ہے۔
بات صرف یہاں تک محدود نہ تھی کہ کسی بھی جماعت کے انتخابات کے موقعے پر اس لیے مدد کی جائے کہ وہ حکومت میں آکر کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ نظریات کو فروغ دے بلکہ مخالفت نظریات کی حکومتوں کو کسی بھی طریقے سے گرانے کے لیے بھی یہی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی تھیں اور ایسے گروہوں اور جماعتوں کی بھرپور خفیہ مدد کی جاتی تھی کہ وہ عوام کو سڑکوں پر لا کر احتجاج کریں اور حکومت گرا سکیں۔
چنانچہ آپ پاکستان اور بنگلہ دیش میں سیاسی حالات کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ جس طرح ون ڈے کرکٹ میچ میں کھلاڑی آؤٹ ہوئے ہیں اسی تیزی سے یہاں حکومتیں باہر ہوتی رہی ہیں۔ راقم کے ا سی تجزیے کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ دائیں بازو کی پذیرائی کے لیے نسیم حجازی کی پذیرائی امریکا میں ہوتی ہے اور فیض احمد فیضؔ کو ایوارڈ روس کی طرف سے ملتا ہے اور پھر جب فیض صاحب دیکھتے ہیں کہ 1971 میں بنگلہ دیش بنانے میں روس کی مدد بھی شامل ہے تو وہ اپنا اعزاز احتجاجاً واپس کر دیتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کسی بھی ریاست یا حکومت کو محض ان دو نظریاتی قوتوں سے ہی نہیں بلکہ اور بھی بیرونی قوتوں سے خطرہ ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کے گروہوں اور جماعتوں میں اپنے ایجنٹ یا حمایت یافتہ افراد رکھتے ہیں، ریاست کے دشمن ان ہی کرداروں کے ذریعے ریاست کو کمزور کرتے ہیں اور وہ کسی بھی ایسے شخص کو حکمران بننے سے روکتے ہیں جو ریاست کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی اچھا منصوبہ یا نظریہ رکھتا ہو یا کہ خود اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور وژن رکھتا ہو۔
آپ دیکھیے کہ یہی بات ہمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو میں دکھائی دیتی تھی یعنی وہ اپنا ایک وژن رکھتے تھے، بھٹو ایک اسلامی بلاک بنانے کی طرف سرگرم عمل تھے لہٰذا نہ صرف بھٹو بلکہ شاہ فیصل کو بھی جلد اس دنیا سے فارغ کر دیا گیا۔ بے نظیر بھی ایک اپنا مخصوص وژن رکھتی تھیں ان کی ایک بہت بڑی خوبی کسی سے ڈکٹیٹ نہ لینا تھی اور یہی خوبی راقم کی نزدیک ان کی شہادت کی ایک بڑی وجہ تھی۔ آج نواز شریف بھی اپنا ایک سول حکومت چلانے کا ویژن رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب بھٹو خاندان کو نہیں چھوڑا گیا تو ان کو کس طرح پانچ سال آزادی سے ان کے وژن پر کام کرنے دیا جا سکتا تھا۔
چند روز قبل میرے ایک طالب علم نے مجھ سے بڑے جذباتی انداز میں سوال کیا کہ سر جب دو رہنما اسلام آباد میں سر دھڑ کی بازی لگا کر انقلاب لانے کی کوششیں کر رہے ہیں تو اس ملک کی بڑی جماعتیں اور لوگ ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ کیا عوام کو اپنی قسمت بدلنے کا حق نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا کہ محترم نہ جانے کتنی تحریکیں چلیں ہیں جن میں عوام نے اپنا خون بہایا مگر انھیں آج تک روٹی، کپڑا، مکان نہ مل سکا، اب تو پانی بجلی بھی نہیں ملتی تو بھلا نواز شریف کی جگہ کوئی اور ''مائی کا لال'' آ گیا تو کون سا فرق پڑے گا؟ دودھ اور شہد کی نہریں کوئی کھود کر نہیں دیگا۔
12 مئی کو کراچی میں پرویز مشرف کے دور میں جو ہلاکتیں ہوئیں اس کا سارا ملبہ ایم کیو ایم پر ڈال دیا گیا، راقم نے اپنے مضمون میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ایم کیو ایم پر یہ الزام غلط ہے مگر اس وقت عمران خان پورے ملک میں متحدہ کے خلاف زہر اگل رہے تھے اور الطاف حسین کو گرفتار کرانے کی باتیں کر رہے تھے لندن میں مقدمات قائم کرنے کی بات کر رہے تھے مگر عمران خان آج متحدہ ہی کی مدد کے خوب مزے لے رہے ہیں۔ آج جو سیاسی جماعتیں نواز حکومت کے خلاف احتجاج کو انجوائے کر رہی ہیں اس سے مستقبل میں خود انھیں بہت نقصان پہنچے گا، عوام کو انقلاب کے ثمرات ملنا تو دور کی بات ہے۔ ماورائے آئین اور پر تشدد طریقوں سے گریز کرتے ہوئے جمہوری انداز میں تبدیلی کی بات ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔