موجودہ بحران کے حل کے لیے

اس طرح انا پرستی کو شکست دے کر ہی ہم اپنے قدم جما سکتے ہیں۔


احسان امروہوی September 03, 2014

HYDERABAD: کسی فرد، ادارے یا حکومت کی عظمت و قوت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ آزادی ضمیر، مساوات اور دیگر خوش کن نعروں کی آڑ میں تباہ کن اصولوں کو فروغ دے۔ اسی طرح آزادی جمہور کا مفہوم بھی نہ تو انتشار و نفاق پھیلانے کی کوشش کرنا ہے اور نہ ہی بے راہ روی و بے لگامی۔ اصل آزادی کا مطلب در اصل ایسے افراد و معاشرے کی عزت و ناموس کا تحفظ ہے جو قوانین کی مخلصانہ و مکمل پابندی کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہو۔

یعنی انسانی و معاشرتی وقار کا راز حقوق کے تعین و تحفظ اور فرائض کی مخلصانہ ادائیگی میں پوشیدہ ہے یہی وجہ ہے کہ مفکرین کی رائے میں حکومت کا کام محض جاہ و جلال کا حصول نہیں بلکہ نظم و ضبط، خلوص و محبت اور عوام سے لگاؤ کے ذریعے ان میں جذبہ حب الوطنی و جذبہ اطاعت کا پیدا کرنا، قانون کی یکساں بالا دستی، اشیا صرف کی قیمتوں میں مثبت استحکام و دیگر عوامی مسائل کے حل کے ذریعے ان کے دلوں میں تعظیم و تکریم کا جذبہ ابھارنا اور درست سمت میں ان کی مسلسل راہنمائی کرتے رہنا بھی فرمانروائی کے ساتھ ساتھ بے حد ضروری ہے ۔

یہ حقیقت بھی غور طلب ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے تمام شعبوں پر اپنی گرفت قائم کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان سے متعلق مخلص و دیانت دار ماہرین کا تعاون اسے حاصل نہ ہو جائے۔ خواہ یہ شعبے تجارتی، تکنیکی، علمی، معاشی و اقتصادی ہوں یا فوجی، سفارتی، خواہ شعبہ صحافت کا ہو یا سیاست کا ان کو ان سے منسلک رہنے والے ماہرین ہی بہتر طور پر منظم رکھ سکتے ہیں۔

یہ امر بھی واقعہ ہے کہ ''مملکتیں کفر میں تو چل سکتی ہیں مگر ظلم و نا انصافی میں ہر گز نہیں'' لہٰذا امور مملکت چلانے کا نظام خواہ کوئی بھی ہو مگر اس کی بنیاد انصاف کی ہر سطح تک بروقت فراہمی پر ہی رکھی ہونی چاہیے بہ صورت دیگر یا تو مملکتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں اور یا پھر عوام اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ایسی صورت میں بھی کھوکھلے نظام حکومت کی بنیادیں لرز اٹھتی ہیں یہی صورت حال آج ہماری مملکت جاں افزاء میں بھی در پیش ہے مگر اپنے حقوق کے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے عوام کے احساس محرومی کا تدارک کرنے کے بجائے مقتدر حلقے بعض افراد کی شخصی انا پرستی کے حصار میں قید نظر آتے ہیں۔

اسی روزنامے کی 3 اکتوبر 2000 کی اشاعت میں راقم الحروف سابق سفارت کار آغا شاہی کے ایک اہم ترین بیان اور انھی دنوں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی دو رپورٹوں کے حوالے سے لکھ چکا ہے۔ ان میں سے ایک رپورٹ امریکی صحافی رابرٹ ڈی کیسیلن کے دورہ پاکستان پر مشتمل وہ تجزیاتی رپورٹ ہے جس میں ہماری سماجی، سیاسی اور اقتصادی صورت حال کا ہولناک نقشہ کھینچتے ہوئے یہ قیاس آرائی کی گئی کہ مستقبل میں پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے جب کہ دوسری رپورٹ امریکی وزارت دفاع کے شعبہ پالیسی کے زیر اہتمام تھنک ٹینک کی مرتب کردہ ہے جس کے مطابق 2012 سے شروع ہونے والا عرصہ پاکستان کے لیے اس قدر کٹھن ہو گا کہ (خدانخواستہ) پاکستان 2020 میں دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا اور اس کی بنیادی وجہ بھارت اور امریکا کے بعض مشترکہ عالمی مفادات ہی ہوں گے اگرچہ مذکورہ بالا مطالعاتی رپورٹس کو تصوراتی جائزے سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس سے امریکا اور اس کے بعض حلیفوں کی سوچ اور مستقبل میں ایشیا کے بارے میں ان کی منصوبہ بندی کا عکاس ہوتی ہے۔

لہٰذا من حیث القوم ہماری ذمے داری ہے کہ ذاتی انا کے خول سے بلا کسی تاخیر باہر آئیں اور حکمرانی نسل در نسل منتقل کرنے کی خواہش ترک کرتے ہوئے عہد کریں کہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے معرض وجود میں آنے والی واحد نظریاتی مملکت میں اب اولیت انسانی حقوق کی فراہمی کو ہی دی جائے گی۔

اس طرح انا پرستی کو شکست دے کر ہی ہم اپنے قدم جما سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہم آج اس راہ پر بھی چل نکلے ہیں جو مہذب اقوام کا شعار ہوتی ہے یعنی حصول انصاف کے لیے پر امن احتجاج کے حق کا برملا استعمال، عوام کا یہی عمل مقتدر حلقوں اور معتبر اداروں کو بھی اس جانب متوجہ کرنا ہے کہ اب با شعور عوام کے ساتھ زندہ قوموں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک نہ ہوا تو وہ وقتی پسپائی اختیار کر بھی لیں تب بھی چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ماریں گے یا مر جائیں گے کی عوامی پالیسی مملکت خداداد کو کہیں امریکی تھنک ٹینک کی متذکرہ رپورٹ میں اخذ کردہ نتائج کی جانب نہ لے جائے۔

چنانچہ اب تمام فریقوں کو انا کے خول سے باہر آ کر میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ اہمیت در اصل اس چیز کی نہیں ہوتی کہ کسی ملک میں نظام حکومت کیا ہے بلکہ اہمیت ہوتی ہے اس ملک و قوم کے مفادات کی نگرانی کی اور یہ کام کوئی جعلی و فرسودہ روایات پر مبنی نظام حکومت قطعی طور پر نہیں کر سکتا خواہ وہ نظام بظاہر جمہوریت ہی کیوں نہ کہلاتا ہو۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ملک کے تمام اہم ستون اور تمام سیاسی پارٹیاں یکجا ہوکر ایک ایسا معاہدہ ترتیب دیں جس میں موجودہ حکومت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے کم و بیش ایک سال کی مدت فراہم کی جائے جس میں وہ PAT اور PTI کی جانب سے سامنے لائے جانے والے ان جائز مطالبات کو جو کہ بقول حکومتی ارکان منظور بھی کیے جا چکے ہیں قابل عمل بنائے اور انھیں بتدریج رائج کرنے کا معقول انتظام کرے۔ موجودہ نظام کی اوور ہالنگ کرنے کے لیے آئین میں مناسب ترامیم اور قانون سازی کرنے سمیت جو بھی اقدامات اٹھانا ضروری ہو اٹھائے۔

اس سلسلے میں حکومت کی مدد کے لیے عدلیہ، افواج پاکستان، بیورو کریسی اور صحافتی ادارے اپنا اپنا کردار متعین و ادا کریں حکومت کو اس طے شدہ دورانیے کے لیے خصوصی ٹاسک بھی دیا جائے مثلاً اگر حکومت ایک سال کے عرصے میں 70 فی صد اصلاحات نہ کر پائے تو مدت پوری ہونے پر یہ حکومت خود بخود ختم ہو جائے اور ایک عبوری حکومت اس کی جگہ لے کر نظام کی اوور ہالنگ اور ری فارمنگ کا کام ایک طے شدہ مدت میں انجام دے کر شفاف انتخابات کا انعقاد کرے۔ یہاں اس امر کا خیال رکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ انتخابات کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے عوام الناس میں شعور انتخاب بھی اجاگر کرنا ہو گا جس کے لیے حکومت کی پہلی ترجیح تعلیمی و نصابی اصلاحات کا کرنا بھی لازمی امر ہے تا کہ پریشر گروپس کی کوششوں کے ثمرات حاصل کیے جا سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں