میں مٹی ہوں جسے پوجا گیا…

یہ مٹی کی کہانی کب تک چلے گی؟ جس کی مرضی آتی ہے بت بنا کر پوجا کرنے لگتا ہے اور ایک کمرے میں قید کر دیتا ہے۔


انیس منصوری September 03, 2014
[email protected]

RAWALPINDI: اُٹھاؤ پتھر اور پھوڑ دو سر، کھینچ لو زبان اور نکال دو ناسور، کانوں میں گالیاں اتنی بھر دو کہ دماغ کچھ سوچ نہ پائے پیروں کی زنجیریں حب الوطنی کے نعروں میں اتنی سخت کر دو کے جنبش تک نہ ہو سکے اور پھر کر لو اپنی من مانی۔ سمجھ لو ایک زندہ لوگوں کا قبرستان ہے جہاں صرف تمھاری سلطنت ہے۔

جہاں کے تم بادشاہ ہو۔ شور کی مٹی تلے دبے یہ 20 کروڑ سانس لینے والے مُردوں کا ملک ہے۔ اس شور نے ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو اُن بتوں کی طرح بنا دیا ہے جن کی وقت آنے پر پوجا کی جا سکتی ہے اور سلطنت ملنے کے بعد انھیں پھر مٹی میں بدل دیا جاتا ہے۔

یہ ہی کیا مٹی کی قسمت ہے کہ جس نے دیکھا تھوڑی سی نم ہے تو اپنی فصل اگانے لگے۔ اس نے ایک فصل دی تو پھر اگلی فصل کے لیے بھی اسی کے سینے کو چیرتے رہے۔ آخر کب تک؟ نئی فصلیں اُگا کر اُسے منڈیوں میں بیچ کر دن تمھارے بدل جاتے ہیں لیکن اس مٹی کو کیا ملتا ہے؟ ہر بار ایک نیا زخم۔ ہر بار ایک نیا درد اور ہر بار ایک نئی امید، تم نے کبھی دیکھا ہے کہ کس طرح اپنی خواہشات کے لیے تم کس طرح ان کے سینے کو استعمال کرتے ہو۔ نہیں، کبھی نہیں ... اور پھر ہوتا کیا ہے جب تمھاری عیاشیوں کا سمندر ختم ہو جاتا ہے اس وقت تک اس جگہ کی مٹی اپنا حوصلہ کھو چکی ہوتی ہے۔

تم ایک نئی دنیا، نئی زمین اور نئی مٹی پر نکلتے ہو یہ کہہ کر یہاں کی مٹی تو خراب ہو چکی ہے اب نئی فصل نہیں اُگ سکتی۔ ہمارے سینے بھی ایسے ہی ہو چکے ہیں۔ جو آتا ہے، جب آتا ہے ہمیں ایک آزمائش میں ڈالتا ہے۔ ہم پر اپنی خواہشات کے ہل چلاتا ہے، اپنی ضرورتوں کا بیج بوتا ہے اور اپنی عیاشی کی فصل لے کر چلا جاتا ہے۔ مگر ہمیں کیا ملا ۔۔؟ پھر ایک نیا مالک، اُس کا ایک نیا منشی، اُس کا ایک نیا بیل اور اُس کا ایک نئی فصل کا دعوی۔ مگر کس کے لیے ۔۔؟ ہم پر چلائے گئے سارے ہل اور ساری فصلوں سے دیکھ لو ۔۔ کس کی خواہشات، کس کی ضرورت اور کس کی عیاشی پوری ہوئی ۔۔ نہ تو میری مٹی میں سے دودھ کی نہریں نکلی اور نہ ہی تپتی دھوپ میں کوئی سایا ملا؟

یہ مٹی کی کہانی کب تک چلے گی؟ جس کی مرضی آتی ہے بت بنا کر پوجا کرنے لگتا ہے اور ایک کمرے میں قید کر دیتا ہے۔ جب کوئی اور سر پھر آتا ہے تو خود کو بُت شکن کہتے ہوئے اس مٹی کو پیروں تلے روندنے لگتا ہے۔ جب کسی کا دل چاہتا ہے مار مار کر اپنی عیاشی کی فصل کھڑی کرتا ہے۔ آخر کب تک۔ کوئی ہمیں جمہوریت کے نام پر سروں پر بٹھاتا ہے ۔ کوئی انقلاب کی نوید سُنا کر ہمیں سنہرے خوابوں میں لے جاتا ہے۔

کوئی ہمیں مذہب کا نام دے کر11 سالوں تک ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ کوئی دہشت پھیلا کر ہمیں راہ حق دکھانا چاہتا ہے۔ کوئی ہمیں سب سے پہلے کا ڈنڈا تھما کر سپر مین بنانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہوا کیا؟ یہ ہوا کہ ہر غریب کے گھر میں اناج آ گیا؟ ہر بچہ اسکول جانے لگا۔

اسپتال سے مریض غائب ہو گئے اور دنیا بھر میں پاکستان کی واہ واہ ...ہو گئی؟ ہر رنگ والا اپنا ایک پلندہ لے کر آ جاتا ہے اور اپنا چورن بیچ کر چلا جاتا ہے ۔۔ مگر ہم 700 چکر لگا کر بھی وہیں کھڑے ہیں کہ جمہوریت بچائیں گے ۔۔ انقلاب آئے گا ۔۔ ایک نیا پاکستان بنے گا ۔۔ ایک نیا سورج نکلے گا ۔۔ ایک نیا لشکر آئے گا ۔۔ ایک نئی سپاہ ہو گی ۔۔ اب بہت ہو گیا نیا نیا ۔۔ سب نے اس نئے نئے کے نام پر پرانے پر ہی پیوند لگائے ہیں۔ جب سب نے قسمت آزما لی ہے تو آپ بھی آزما لیں، یہ لیجیے ہم نے راستے کھول دیے، اب جو چاہے آپ کیجیے، لیکن اک بات تو سمجھائیے ۔۔

اور وہ بات مجھ جیسے سارے جاہلوں کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ ہمارے گلی محلوں میں جب کچرا حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس کا ایک آسان سا حل نکالا جاتا ہے۔ آپ کا معلوم نہیں کہ آپ کبھی غریبوں کی بستی میں رہے ہیں یا نہیں اس لیے آپ کو پورا سمجھانا پڑے گا۔ اور وہ یہ کہ جب شکور بھائی اپنی دکان کا کچرا گلی میں پھینک دیتے ہیں اور جب غفار کی بیوی گھر کا سارا کوڑا اُس کے اوپر ڈال دیتی ہے تو دوسرے کے گناہوں کا بوجھ بھی اُس کے اوپر پڑنے لگ جاتا ہے اور پھر کوڑے اور کچرے کا ایک پہاڑ بن جاتا ہے۔

اگر ہلکی بارش ہو جائے یا کوئی گیلا کچرا پھینک دے تو پھر اس میں سے بدبو بھی آنے لگ جاتی ہے۔ سب پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر محلے کے اکلوتے جمعدار کو گالیاں بکنے لگ جاتے ہیں۔ ساری حکومت کو کچرے میں ڈال کر آگ لگا دیتے ہیں اور جب اُس کچرے میں آگ لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے؟ تھوڑی سی دیر میں سارا کچرا ہوا میں اڑا جاتا ہے۔ سب کے دل خوش ہو جاتے ہیں کہ چلو جان چھوٹی۔ مگر پھر اگلے دن سے کچرا جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر کچرے کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ یہ ہو رہا ہے اس ملک کے ساتھ۔

تیزابی بارش ہوتی ہے۔ کچرا زمین کے اوپر ہوتا ہے۔ اسے ہم سب کو دکھانے کے لیے جلایا جاتا ہے ۔۔ یہ دھواں بن کر ہوا میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر موسم بدلتا ہے۔ دھوپ میں شدت آ جاتی ہے۔ اور جب بارش ہوتی ہے تو پھر یہ ہی ہماری گندگی جو ہوا میں مل گئی ہوتی ہے وہ بارش کہ ساتھ زمین پر آتی ہے اور مٹی کو آلودہ کر دیتی ہے۔ آزادی کے دن کے بعد سے آج تک کیا ہو رہا ہے۔ بس ہر بار کچرے کے ڈھیر کو بنایا جاتا ہے۔ کبھی مخلتف اسکیموں کے نام پر کبھی پالیسی کے نام پر اور کبھی پراجیکٹ کے نام پر اور کبھی مصلحت کے نام پر ۔۔ پھر اُس کچرے کے ڈھیر کو ہمیشہ، کرپشن، دھاندلی، بدعنوانی، غداری کے نام پر جلایا جاتا ہے۔

پھر ایک کچرا جمع کیا جاتا ہے اور پھر انھیں ناموں سے اُس کو آگ لگائی جاتی ہے۔ آخر کب تک؟ اور اُس تیزابی کی بارش کے نتیجے میں ہوتا کیا ہے؟ جب وہ آسمان سے زمین پر گرتی ہے تو کیا ہوتا ہے اس مٹی کے ساتھ۔ کوئی صحت کے لیے دس روپے کی دوا کے لیے تڑپ رہا ہے۔ کوئی دو کتابوں کے لیے ہاتھ جوڑ جوڑ کر فریاد کر رہا ہے۔ کوئی اپنی لاشوں کو کاندھوں پر لیے قبر کی دو گز زمین ڈھونڈ ھ رہا ہے۔ کوئی اس امید پر پاگلوں کی طرح پھر رہا ہے کہ کچرے کے ڈھیر کو اب نہیں بننے دے گا۔

میں زمین کی مٹی کا ایک ذرہ ہوں میں اسی آگ میں جل رہا ہوں۔ جو ہر بار مجھ پر آسمان سے گرائی جاتی ہے۔ کوئی کالے اور کوئی گورے تو کوئی نیلے پیلے لباسوں میں ملبوس ہمیں جھوٹی تسلیاں دے رہا ہے۔ مجھے ایک بار پھر ڈر ہے کہ ایک کچرہ جلایا جائے گا۔ جس سے اٹھنے والا دھواں اس بار ہو سکتا ہے ہماری سانسوں کو بھی بند کر دے۔ میں مایوس نہیں لیکن خوفزدہ ضرور ہوں کہ ایک بار بھی پھر کچرا کی جگہ نیا کچرا نئی تھیلیوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں مٹی کا ایک ذرہ اس بار بُت بننے کے بعد جو ٹوٹ کر بکھروں گا تو کس کس کے پیروں تلے روندھا جاؤں گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔