تجربوں کا وقت نہیں

ملک اس وقت غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں ہر شخص پریشان کہ آگے کیا ہو گا کوئی بوٹوں کی آوازیں سن رہا ہے


فاطمہ نقوی September 03, 2014
[email protected]

PERTH: الفاظ کے گورکھ دھندے اعداد و شمار کے ہتھکنڈے ایسی چیزیں ہیں جو کہ عوام کو شکوک و شبہات کے جال میں مقید کر لیتے ہیں، انسان ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں کو حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے مسخ کر دیا جاتا ہے اس لیے صحیح صورتحال سامنے آ جانے کے باوجود یقین کی کشتی ڈگمگاتی رہتی ہے، موجودہ صورتحال میں بھی یہی جلوے کارفرما ہیں کہیں کسی چینل پر کوئی وزیر باتدبیر یہ کہہ کر اپنی قیادت کو خوش کر رہا ہے کہ مجمع چند ہزار بھی نہیں تھا کرسیاں خالی پڑی تھیں تو کہیں کوئی انقلابی یا احتجاجی سینہ کوبی کر رہا ہے کہ ماریں گے اور مر جائیں گے مگر انقلاب لائیں گے، کروڑوں عوام ہمارے ساتھ ہیں اس طرح کی صورتحال انارکی کی طرف جاتی نظر آتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا معاملہ تو یہ ہے کہ 'میں نہ مانوں' کی تعبیر بنے بیٹھے ہیں، حیرت صرف یہ ہے کہ کروڑوں کے مینڈیٹ والی حکومت پر یہ برا وقت آیا تو کیوں آیا۔ ابھی حکومت کو قائم ہوئے بمشکل ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی ہوا ہے یہ اتنا کم عرصہ تو خیر نہیں ہے جس میں ملک کا نظام چلانے میں دشواری نہیں آئے مگر حکومت دو بجٹ پیش کر چکی ہے اور متواتر ایسے اقدامات کر چکی ہے جس سے ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اس کی بقا کے لیے کوئی اقدامات نہیں بلکہ غریبوں کو مارنے کے لیے مختلف اسکیمیں اور پروجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیںتاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

ملک اس وقت غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں ہر شخص پریشان کہ آگے کیا ہو گا کوئی بوٹوں کی آوازیں سن رہا ہے تو کسی کو اس بات پر غصہ ہے کہ لوگ تبدیلی کے لیے نکلے کیوں؟ لیکن ان دانشوروں، تھنک ٹینکوں کو یہ بات نظر نہیں آ رہی ہے کہ لوگ اس نام نہاد جمہوریت سے بیزار آ چکے ہیں۔ مگر ڈکٹیٹرشپ بھی کسی کو پسند نہیں۔ جمہوریت عوام کے حقوق سلب کرنے کا نام نہیں بلکہ عوام کے حقوق کو دینے کا نام ہے مگر اس وقت ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے مگر عوام کے حال کی کسی کو خبر نہیں ہے۔

ان کے مسائل پر نہ دھرنے ہو رہے ہیں نہ تقریریں مگر عوام کو صرف یہ امید ہے کہ شاید ایسی تبدیلی آ جائے جو عام آدمی کے مسائل کو کم کر دے 35 پنکچر سے شروع ہونے والی بات اب وزیر اعظم کے استعفے تک جا پہنچی ہے اگر شروع میں ہی 4 حلقوں پر دوبارہ ووٹنگ کروا دی جاتی تو ان مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور رہی سہی کسر ماڈل ٹاؤن کے واقعے نے پوری کر دی اگر اسی وقت ایف آئی آر درج کر کے شفاف تحقیقات کروا دی جاتیں تو قیامت نہیں آ جاتی بلکہ حکومت کا بھرم رہ جاتا۔ بھلا ہو ان وزیروں مشیروں کا جنھوں نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے فریقین کو ایسے مشوروں سے نوازا کہ دما دم مست قلندر کی نوبت آ گئی۔ اب یہ حال ہے کہ آگے بڑھنا بھی مشکل اور پیچھے ہٹنے میں بھی رسوائی دامن گیر ہے۔

میڈیا اس بات کا شاہد ہے کہ دھرنے کے شرکا جس میں خواتین، بچے، بوڑھے سب شامل ہیں بڑی یکسوئی اور پرامن طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں جو کہ ان کا جمہوری حق تھا مگر کچھ پر تشدد اور پوشیدہ ہاتھوں نے اس پر امن ماحول کو جنگ میں تبدیل کر دیا۔ سیکڑوں زخمی اور چند ایک ہلاک بھی ہوئے ساتھ ساتھ صحافیوں پر بھی جس طرح سے اٹیک ہوا اور چن چن کر مختلف چینلز کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس نے سارے معاملے کی قلعی کھول دی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ متعدد اعلیٰ پولیس افسران نے اسلام آباد کا چارج سنبھالنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے معاملات اور گمبھیر ہو گئے ہیں مگر اب بھی وقت کی لگام حکومت کے ہاتھوں میں ہے اکثریت ان کے ساتھ ہے مگر اسی طرح کے اقدامات ہوتے رہے تو آہستہ آہستہ لوگ عمران خان یا قادری کے ساتھ ہوتے جائیں گے۔

وزیر اعظم کو چاہیے کہ ایسے مشیروں سے مشورہ لیں جو کہ حکومت اور عوام دونوں کے حمایتی ہوں اور ایسے اقدامات کریں جس سے حکومت کی ساکھ متاثر نہ ہو کیونکہ ان دھرنوں اور احتجاج کا مقصد ہی حکومت کو ایسے اقدامات کے لیے مجبور کرنا ہے کہ جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو۔ اس لیے حکومت کا فرض ہے کہ ریاستی اداروں کو بچانے کے لیے ایسے مشوروں پر قطعی عمل نہ کرے جس سے فریق مخالف کا بھلا ہو جس طرح کا بیان چوہدری نثار نے دیا وہ ایسے وقت میں مناسب نہ تھا جب ایک رپورٹر نے سوال کیا کہ شیلنگ اور فائرنگ کے اقدامات سے خواتین اور بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں تو وزیر داخلہ نے صاف کہا کہ ان کو ہم نہیں لائے تھے یہ ہماری ذمے داری نہیں ہیں۔

ایسی سوچ ایسی حکمت عملی سے آپ کے اپنے بھی آپ سے دور ہو جائیں گے آپ پورے ملک کے وزیر داخلہ ہیں نہ کہ اپنی مخصوص پارٹی کے۔ ہر شخص کی خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو جان و مال کی ذمے داری آپ کے سر ہے اس لیے آپ اپنی ذمے داری کو اچھے سے پورا کریں نہ کہ ایسے بیانات دے کر معاملے کو اتنا گمبھیر بنا دیں کہ بنائے نہ بنے بات۔

ایم کیو ایم کا کردار بڑا متوازن رہا ہے، ثالثی کے کردار کے لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو استعمال کیا جا سکتا ہے مگر اگر ایسے اقدامات کیے جس سے لوگوں کو نقصانات پہنچتا رہا تو پھر یہ جماعتیں بھی آپ کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی۔ اس لیے ابھی وقت ہے خدارا ایسے فیصلے کریں جس سے آگ مزید نہ بھڑکے بلکہ بجھ جائے کیونکہ آپ کی حکومت میں جمہوریت ایک نئے انداز سے جلوہ گر ہوئی ہے جس سے بدترین آمریت کا تاثر منظر عام پر آ رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ عوام کے مسائل مصائب کی ترجمانی کرنے والا کوئی نہیں رہا سب لوگ حالات کو سدھارنے کی بجائے ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ پروا ہی نہیں ہے کہ اس سے ملکی سالمیت ریاست کی پاسداری متاثر ہو رہی ہے یہ حقیقت تسلیم کر لیں کہ اب تجربوں کا وقت نہیں بلکہ عمل کا وقت ہے۔ لگائی گئی آگ کو اب بجھانا بھی سیاست دانوں کا کام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں