پرہیز علاج سے بہتر ہے
شہروں میں لوگوں کو ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ بلدیات یا واٹر بورڈ صاف پانی تو کیا صرف پانی بھی۔۔۔
ہمارے مرکزی بجٹ برائے 2014-15میں یہ خوشخبری دی گئی کہ امسال ملک کے ہر صوبے کے دارالحکومت میں ایک سرطان کا اسپتال کھولا جائے گا۔ مجھے اس خوشخبری پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں خدانخواستہ لوگوں کے لیے علاج معالجے کا مخالف ہوں۔ بلکہ مجھے اس بات کی فکر ہوئی کہ کیا ہم نے اس اعلان سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا کہ یہ بیماری ہمارے ملک میں اس قدر کیوں بڑھی بلکہ بڑھ رہی ہے کہ موجودہ سرکاری اسپتال کیوں ناکافی پڑ رہے ہیں کہ ہمیں نہ صرف سرطان کے لیے بلکہ دیگر بیماریوں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ اسپتالوں کی ضرورت پڑ رہی ہے۔
مانا کہ ہمارے ملک کی آبادی بھی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ میں کل ہی اخبار میں ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ افغان مہاجرین کی کیمپوں میں ہر سال 50,000 بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ میں گلزار خان کا قصہ تو از بانگ زبان ہے، جس کی 3 بیویاں اور 36 بچے ہیں اور اسے حسرت ہے کہ ایک عدد چوتھی بیوی بھی ہو جائے تو کیا کہنا۔ اس صاحب کی فتوحات کی جیتی جاگتی تصویر 5 شہزادوں کو اپنی بانہوں میں لے کر کھڑا ہونا تھی، جو اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہوئی، بمعہ اس کے انٹرویوز کے۔
میرا موضوع سخن پرہیز ہے۔ بیشک ملک میں بیماریوں کے علاج کا پورا پورا بندوبست ہونا چاہیے، لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا پرہیز کا کوئی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا، جس سے بیماریوں کو روکا جائے۔ اب سرطان کو ہی لے لیجیے، جو تمباکو نوشی، گٹکے، نسوار اور دیگر نشہ آور متعلقہ چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی میں پتے کی بیڑی، سگریٹ، سلفی اور دوسری ایسی چیزیں آ جاتی ہیں۔
گو کہ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ کیا ہم قرآن پاک میں لکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں کہ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھی ہوئی بات پر عمل کریں گے، جب کہ قرآن پاک میں بھی نشہ آور چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے قانون دان، جسٹس منیر، جو اپنے وقت کی فیڈرل کورٹ (جو اب سپریم کورٹ کہلاتی ہے) کے چیف جسٹس تھے، انھوں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ قرآن پاک میں شراب کی ممانعت نہیں ہے۔ بہرحال نشہ نشہ ہوتا ہے، جس چیز سے بھی چڑھے، قرآن پاک میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے (چاہے وہ اقتدار کا ہی ہو)۔
میں بیماریوں سے پرہیز کے بارے میں عرض کر رہا تھا۔ پاکستان پیڈیاٹرکس (بچوں سے متعلق) ایسوسی ایشن کے سروے کے موجب پاکستان میں روزانہ 6 سے 16 سال کی عمر کے 1000 سے 1200 بچے تمباکو نوشی اختیار کرتے ہیں۔ لگے دم، مٹے غم۔ اس طریقے سے میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً ہر دوسرا یا تیسرا آدمی گٹکا کھا رہا ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی آدمی سے بات کر لیں، وہ سیدھے منہ بات نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے گلے میں گٹکا پھنسا ہوا ہوتا ہے۔
گوکہ ہمارے ملک کے قانون (جو صرف کتابوں کی زینت ہوتا ہے، اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا) کے تحت گٹکے کی پیداوار، فروخت اور خرید پر پابندی ہے۔ آج اگر اس قانون پر صحیح طور پر عمل کیا جائے اور گٹکا دستیاب نا ہو تو 15 یا 20 ہزار نہیں بلکہ پورے ملک میں 5 کروڑ آدمی ملک کے ہر گاؤں اور شہر میں دھرنا دے کر بیٹھ جائینگے۔ مغربی ممالک میں ہر میڈیا پر سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی ہے جس سے وہ ممالک پتہ نہیں کتنے بلین ڈالرز کی آمدنی سے محروم ہیں۔ پیکٹوں پر مضر صحت ہونے کا مژدہ بھی لکھا گیا ہے، لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ لوگ ہیں کہ دم لگا کر، غم مٹا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی ایسی ہی پابندی لگا رکھی ہے، لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا۔ لوگ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
میرے خیال میں تو ایسے مریضوں کو سرکاری اسپتالوں سے علاج کی سہولت مہیا نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب سرکار کی طرف سے لوگوں کو تمباکو نوشی سے پیدا ہونیوالے امراض خصوصاً سرطان کے خطرات سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے اور پرہیز کا مشورہ بھی دیا جاتا رہتا ہے، تو ایسے لوگوں کو پبلک کے ٹیکس سے چلنے والی اسپتالوں سے علاج مہیا نہیں کرنا چاہیے۔ انسان کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورتیں ہیں، پینے کے لیے صاف پانی، جینے کے لیے خالص غذا اور بیماریوں سے بچنے لے لیے حفاظتی تدابیر۔ اب اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم نے گزشتہ 67 سالوں میں ان جہتوں میں کیا کیا ہے تو معلوم ہو گا کہ ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔
شہروں میں لوگوں کو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ بلدیات یا واٹر بورڈ صاف پانی تو کیا، صرف پانی بھی مہیا نہیں کر پاتیں۔ ان کی پائپ لائنیں تو مناسب مقدار میں پانی مہیا نہیں کر پاتیں، البتہ ٹینکروں کے ذریعے ہائیڈرنٹس سے پانی پہنچایا جا رہا ہے، جس کے صاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ پتہ نہیں ان ہائیڈرنٹس کو پانی کہاں سے مل رہا ہے۔ واٹر سپلائی کی ٹنکیوں میں کلورین نام کی ایک چیز، جو پانی کو صاف رکھتی ہے، ڈالنی چاہیے، لیکن ڈالی نہیں جا رہی ہے۔
ویسے کچھ دن پہلے اخبارات میں خبر آئی تھی کہ کلورین خریدی تو گئی تھی، لیکن کہاں گئی تھی، جب کہ اس کا اندراج تو کتابوں میں ہے، لیکن گئی کہاں اس کا پتہ نہیں۔ کم از کم ٹنکیوں میں تو نہیں ڈالی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ قرونِ اولیٰ یعنی جب تک انگریز کے زمانے کے لوگ ریٹائر نہیں ہوئے تھے، چھوٹے قصبات اور گاؤں میں واٹر سپلائی نہیں پہنچی تھی، وہاں کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔ ان میں ہر سال پوٹاشیم پرمیگنیٹ نامی ایک دوا ڈالی جاتی تھی، جو پانی کو جراثیم سے پاک کرتی تھی۔ اب بھی بہت سارے قصبات اور گاؤں میں کنوئیں تو ہیں، لیکن ان میں وہ دوا ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ گاؤں میں لوگ بارش کے جمع شدہ جوہڑوں سے خود بھی پانی پیتے ہیں اور ساتھ ساتھ جانور بھی انھیں جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ پانی کتنا صحت بخش ہو تا ہو گا۔
اب آئیے !خالص غذا پر آٹے، چاول، دالوں میں کنکر، کالی مرچ میں پپیتے کے بیج کے دانے، لال مرچوں میں بَھٹے کی سرخ اینٹوں کا برادہ، مردار جانوروں اور فوت شدہ گائے، بھینسوں، مرغیوں کا گوشت اور پتہ نہیں کس کس چیز میں کیا ملاوٹ اس ملک میں ہوتی ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا۔ ہمارے ملک میں ملاوٹ کی صنعت نے جتنی ترقی کی ہے، اتنی ترقی شاید ہی کسے اور صنعت میں نے کی ہو۔
ویسے ہم نے ان ملاوٹ شدہ چیزوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ کیا کہنے۔ ہماری بہت ساری برآمدات کی چیزیں درآمد کرنے والے ملکوں کی بندرگاہوں پر گل سڑ رہی ہیں، مثلاً کپاس کی گٹھڑیوں میں اینٹیں۔ حفظان صحت کے لیے اٹھائے ہوئے اقدامات کا کیا کہنا۔ قرون اولیٰ میں ہمارے اسکولوں میں ہر سال موسم سرما سے پہلے ہمیں ملیریا سے بچنے کے لیے کونین کی گولیاں کھلائی جاتی تھیں۔ اب تو ماشاء اللہ ہم نے کرکٹ میں نا سہی، پولیو میں تو دنیا میں پہلا نمبر حاصل کر لیا ہے اور اب بیرون ملک سفر کرنے پر اس کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور اس کا سرٹیفکیٹ بھی ہاتھ میں تھامے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔
اب تو وہ حضرات جن کی فقہ میں پولیو کے قطرے حرام ہیں، وہ بھی قطرے پی کر بیرون ملک تشریف لے جا رہے ہیں۔ اسی طرح خسرہ کا مرض بھی بہت سارے بچوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ویسے ہمارے کچھ لوگ پولیو کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کو بھی حرام قرار دیتے ہیں، تو اب پولیو کے قطرے نہ پلا کر اور خسرہ کے خلاف کوئی حفاظتی تدبیر نہ کرنے سے از خود خاندانی منصوبہ بندی بھی ہو جائے گی۔
کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اگر سگریٹ، گٹکے اور دیگر تمباکو نوشی پر واقعی پابندی لگا دی جائے تو ان کی دکانیں بند ہو جائے گی اور لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیں، ہم بتلائیں کیا۔
مانا کہ ہمارے ملک کی آبادی بھی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ میں کل ہی اخبار میں ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ افغان مہاجرین کی کیمپوں میں ہر سال 50,000 بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ میں گلزار خان کا قصہ تو از بانگ زبان ہے، جس کی 3 بیویاں اور 36 بچے ہیں اور اسے حسرت ہے کہ ایک عدد چوتھی بیوی بھی ہو جائے تو کیا کہنا۔ اس صاحب کی فتوحات کی جیتی جاگتی تصویر 5 شہزادوں کو اپنی بانہوں میں لے کر کھڑا ہونا تھی، جو اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہوئی، بمعہ اس کے انٹرویوز کے۔
میرا موضوع سخن پرہیز ہے۔ بیشک ملک میں بیماریوں کے علاج کا پورا پورا بندوبست ہونا چاہیے، لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا پرہیز کا کوئی نظام قائم نہیں کیا جا سکتا، جس سے بیماریوں کو روکا جائے۔ اب سرطان کو ہی لے لیجیے، جو تمباکو نوشی، گٹکے، نسوار اور دیگر نشہ آور متعلقہ چیزوں کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تمباکو نوشی میں پتے کی بیڑی، سگریٹ، سلفی اور دوسری ایسی چیزیں آ جاتی ہیں۔
گو کہ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔ کیا ہم قرآن پاک میں لکھی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں کہ سگریٹ کے پیکٹ پر لکھی ہوئی بات پر عمل کریں گے، جب کہ قرآن پاک میں بھی نشہ آور چیزوں سے منع کیا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے قانون دان، جسٹس منیر، جو اپنے وقت کی فیڈرل کورٹ (جو اب سپریم کورٹ کہلاتی ہے) کے چیف جسٹس تھے، انھوں نے اپنی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ قرآن پاک میں شراب کی ممانعت نہیں ہے۔ بہرحال نشہ نشہ ہوتا ہے، جس چیز سے بھی چڑھے، قرآن پاک میں اس کی ممانعت فرمائی گئی ہے (چاہے وہ اقتدار کا ہی ہو)۔
میں بیماریوں سے پرہیز کے بارے میں عرض کر رہا تھا۔ پاکستان پیڈیاٹرکس (بچوں سے متعلق) ایسوسی ایشن کے سروے کے موجب پاکستان میں روزانہ 6 سے 16 سال کی عمر کے 1000 سے 1200 بچے تمباکو نوشی اختیار کرتے ہیں۔ لگے دم، مٹے غم۔ اس طریقے سے میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً ہر دوسرا یا تیسرا آدمی گٹکا کھا رہا ہوتا ہے۔ آپ کسی بھی آدمی سے بات کر لیں، وہ سیدھے منہ بات نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے گلے میں گٹکا پھنسا ہوا ہوتا ہے۔
گوکہ ہمارے ملک کے قانون (جو صرف کتابوں کی زینت ہوتا ہے، اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا) کے تحت گٹکے کی پیداوار، فروخت اور خرید پر پابندی ہے۔ آج اگر اس قانون پر صحیح طور پر عمل کیا جائے اور گٹکا دستیاب نا ہو تو 15 یا 20 ہزار نہیں بلکہ پورے ملک میں 5 کروڑ آدمی ملک کے ہر گاؤں اور شہر میں دھرنا دے کر بیٹھ جائینگے۔ مغربی ممالک میں ہر میڈیا پر سگریٹ کے اشتہارات پر پابندی ہے جس سے وہ ممالک پتہ نہیں کتنے بلین ڈالرز کی آمدنی سے محروم ہیں۔ پیکٹوں پر مضر صحت ہونے کا مژدہ بھی لکھا گیا ہے، لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ لوگ ہیں کہ دم لگا کر، غم مٹا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی ایسی ہی پابندی لگا رکھی ہے، لیکن اس کا اثر نہیں ہوتا۔ لوگ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
میرے خیال میں تو ایسے مریضوں کو سرکاری اسپتالوں سے علاج کی سہولت مہیا نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب سرکار کی طرف سے لوگوں کو تمباکو نوشی سے پیدا ہونیوالے امراض خصوصاً سرطان کے خطرات سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے اور پرہیز کا مشورہ بھی دیا جاتا رہتا ہے، تو ایسے لوگوں کو پبلک کے ٹیکس سے چلنے والی اسپتالوں سے علاج مہیا نہیں کرنا چاہیے۔ انسان کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورتیں ہیں، پینے کے لیے صاف پانی، جینے کے لیے خالص غذا اور بیماریوں سے بچنے لے لیے حفاظتی تدابیر۔ اب اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم نے گزشتہ 67 سالوں میں ان جہتوں میں کیا کیا ہے تو معلوم ہو گا کہ ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔
شہروں میں لوگوں کو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ بلدیات یا واٹر بورڈ صاف پانی تو کیا، صرف پانی بھی مہیا نہیں کر پاتیں۔ ان کی پائپ لائنیں تو مناسب مقدار میں پانی مہیا نہیں کر پاتیں، البتہ ٹینکروں کے ذریعے ہائیڈرنٹس سے پانی پہنچایا جا رہا ہے، جس کے صاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ پتہ نہیں ان ہائیڈرنٹس کو پانی کہاں سے مل رہا ہے۔ واٹر سپلائی کی ٹنکیوں میں کلورین نام کی ایک چیز، جو پانی کو صاف رکھتی ہے، ڈالنی چاہیے، لیکن ڈالی نہیں جا رہی ہے۔
ویسے کچھ دن پہلے اخبارات میں خبر آئی تھی کہ کلورین خریدی تو گئی تھی، لیکن کہاں گئی تھی، جب کہ اس کا اندراج تو کتابوں میں ہے، لیکن گئی کہاں اس کا پتہ نہیں۔ کم از کم ٹنکیوں میں تو نہیں ڈالی گئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ قرونِ اولیٰ یعنی جب تک انگریز کے زمانے کے لوگ ریٹائر نہیں ہوئے تھے، چھوٹے قصبات اور گاؤں میں واٹر سپلائی نہیں پہنچی تھی، وہاں کنوؤں سے پانی نکالا جاتا تھا۔ ان میں ہر سال پوٹاشیم پرمیگنیٹ نامی ایک دوا ڈالی جاتی تھی، جو پانی کو جراثیم سے پاک کرتی تھی۔ اب بھی بہت سارے قصبات اور گاؤں میں کنوئیں تو ہیں، لیکن ان میں وہ دوا ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ گاؤں میں لوگ بارش کے جمع شدہ جوہڑوں سے خود بھی پانی پیتے ہیں اور ساتھ ساتھ جانور بھی انھیں جوہڑوں سے پانی پیتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ پانی کتنا صحت بخش ہو تا ہو گا۔
اب آئیے !خالص غذا پر آٹے، چاول، دالوں میں کنکر، کالی مرچ میں پپیتے کے بیج کے دانے، لال مرچوں میں بَھٹے کی سرخ اینٹوں کا برادہ، مردار جانوروں اور فوت شدہ گائے، بھینسوں، مرغیوں کا گوشت اور پتہ نہیں کس کس چیز میں کیا ملاوٹ اس ملک میں ہوتی ہے جو اسلام کے نام پر بنا تھا۔ ہمارے ملک میں ملاوٹ کی صنعت نے جتنی ترقی کی ہے، اتنی ترقی شاید ہی کسے اور صنعت میں نے کی ہو۔
ویسے ہم نے ان ملاوٹ شدہ چیزوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ کیا کہنے۔ ہماری بہت ساری برآمدات کی چیزیں درآمد کرنے والے ملکوں کی بندرگاہوں پر گل سڑ رہی ہیں، مثلاً کپاس کی گٹھڑیوں میں اینٹیں۔ حفظان صحت کے لیے اٹھائے ہوئے اقدامات کا کیا کہنا۔ قرون اولیٰ میں ہمارے اسکولوں میں ہر سال موسم سرما سے پہلے ہمیں ملیریا سے بچنے کے لیے کونین کی گولیاں کھلائی جاتی تھیں۔ اب تو ماشاء اللہ ہم نے کرکٹ میں نا سہی، پولیو میں تو دنیا میں پہلا نمبر حاصل کر لیا ہے اور اب بیرون ملک سفر کرنے پر اس کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور اس کا سرٹیفکیٹ بھی ہاتھ میں تھامے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔
اب تو وہ حضرات جن کی فقہ میں پولیو کے قطرے حرام ہیں، وہ بھی قطرے پی کر بیرون ملک تشریف لے جا رہے ہیں۔ اسی طرح خسرہ کا مرض بھی بہت سارے بچوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ویسے ہمارے کچھ لوگ پولیو کی طرح خاندانی منصوبہ بندی کو بھی حرام قرار دیتے ہیں، تو اب پولیو کے قطرے نہ پلا کر اور خسرہ کے خلاف کوئی حفاظتی تدبیر نہ کرنے سے از خود خاندانی منصوبہ بندی بھی ہو جائے گی۔
کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اگر سگریٹ، گٹکے اور دیگر تمباکو نوشی پر واقعی پابندی لگا دی جائے تو ان کی دکانیں بند ہو جائے گی اور لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیں، ہم بتلائیں کیا۔