پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوسرے دن بھی ارکان کی دھواں دھار تقاریر

تحریک انصاف کے ارکان کی آمد پر حکومتی ارکان نے جملے بازی کی تو اسپیکر نے انہیں روک دیا


ویب ڈیسک September 03, 2014
اسٹیبلشمنٹ کو 18ویں ترمیم ہضم نہیں ہورہی، سینیٹر زاہد خان فوٹو: فائل

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوسرے روز بھی سیاسی قائدین کی جانب سے دھواں دھار تقاریر کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے میں بیٹھی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کی سربراہی میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے، اس موقع پر تحریک انصاف کے ارکان بھی شریک ہوئے۔ تحریک انصاف کے ارکان کی آمد پر حکومتی ارکان کی جانب سے نعرے بازی کی گئی جس پر اسپیکر نے انہیں روکتے ہوئے رولنگ دی کہ یہ ڈی چوک نہیں، ایوان ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی کی جانب سے اظہار خیال کے بعد تمام ارکان واپس چلے گئے۔

موجودہ صورت حال پر اظہار خیال کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو 18ویں ترمیم ہضم نہیں ہورہی،اس ملک میں بیورو کریسی نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے، اگرآئین ختم کیا گیا توپاکستان کو دوسرا آئین دینے والا کوئی نہیں۔ سب سے زیادہ چوری والے انتخابات خیبر پختونخوا میں ہوئے، ہم جنازے اٹھاتے رہے اور وہ جلسے کرتے رہے۔ ہمارے ہاتھ باندھے گئے اور دوسری ٹیم کو کہا گیا کہ گول کرتے جاؤ، ملک کی کسی جماعت سے اس پر زبان نہیں کھولی، ہم اس ملک کو بچانا چاہتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کے بغیر یہ ملک نہیں چل سکتا۔ معاملات کے حل کےلئے پارلیمنٹ ہی بہترین فورم ہے لیکن انہیں بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 14 ماہ بعد مشترکہ اجلاس بلایا گیا، حکومت نے جمہوری رویہ نہیں اپنایا، ہم وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ کسی بھی صورت استعفیٰ نہ دیں کیونکہ پارلیمنٹ ان کے ساتھ ہے۔ وزیراعظم اپنے گرد سیاسی لوگوں کو بٹھائیں۔ صرف پنجاب کو پاکستان نہ سمجھا جائے۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ آج یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان بڑی مشکلات کا شکار ہے جو کسی بھی صورت ٹھیک نہیں، یہ ہمارا جمہوری رویہ ہے کہ ہم نے دھرنا دینے والوں کو آنے دیا اور وہ ہمارے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں، ہم نے حکومت کو مجبور کیاکہ وہ اسلام آباد آنے والوں کو نہ روکیں، ہم نے زندگی بھر صرف دھرنے اور لانگ مارچ ہی کئے ہیں لیکن انہوں نے اس قدر آرام دہ لانگ مارچ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ کہیں ناشتہ، کہیں ظہرانہ اور کہیں عشائیہ، لانگ مارچ اس طرح نہیں ہوتا. پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو خورشید شاہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے جنہوں نے منتیں کرکے انہیں اسلام آباد آنے کی اجازت دلوائی لیکن انہوں نے سیاسی جماعتوں کی عزت تار تار کردی۔ وہ کون سی گالی ہے جو انہوں نے سیاسی جماعتوں کو نہیں دی۔ اگر اس قدر تباہی مچانے کے بعد بھی کوئی یہ کہے کہ یہ آئین نہیں رہے گا تو درحقیقت وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نہیں رہے گا۔ ہمارا ماضی بہت تلخ ہے، اگر اب بھی پارلیمنٹ ہاؤس کو قبرستان بنانے کی بات کرنے والوں کی سیاست کو اسی پارلیمنٹ میں دفن کریں گے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پاکستان میں غیر جمہوری حکومت ہوگی تو اسے پہلے ملک کے دائیں بائیں ضروردیکھنا چاہیئے۔

قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ آج ہم پارلیمنٹ میں ایسے دروازوں سے آرہے ہیں جو ہم نے کئی برسوں میں دیکھے ہی نہیں تھے۔ یہاں موجود تمام ارکان حکومت کے ساتھ نہیں ، ایوان کے ارکان کی بڑی تعداد اپوزیشن میں اپنا کردار ادا کررہی ہے، موجودہ بحران بڑے اچھے طرقیے سے گزر جائے گا۔ ہماری اصل مصیبتیں آئی ڈی پیز اور دہشتگردوں کے خلاف جنگ ہے جو کہ پس پشت چلے گئے ہیں، ان مسائل کے حل کے بجائے آج پارلیمنٹ کے باہر ایک تماشا لگا ہوا ہے، افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ ان مسائل کا ایک مرتبہ بھی ذکر نہیں کرتے۔ جمہوریت ہمیں یہ سبق نہیں سکھاتی کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزرا نے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جمہوریت پر یلغار کرے۔ پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس شروع ہوا تو باہر دونوں بھائی اکٹھے ہوگئے،ان دونوں بھائیوں کا لندن میں گٹھ جوڑ ہوا تھا۔ نئے پاکستان کا اسکرپٹ لکھنے والا پرانے پاکستان کا ہی تھا جو یہ سمجھا تھا کہ ملک میں اب بھی 90 کی دہائی کی سیاست چل رہی ہے۔ دونوں بھائی یہ بات دل سے نکال دیں کہ انہیں وزیراعظم کا استعفیٰ ملے گا کیونکہ اب ان کے اپنے اختیار میں بھی استعفیٰ دینا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں