تعمیری ذہن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے تیار ہیں شاہ محمود قریشی

ہمارے حکومت سے 100 اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن جمہوریت، آئین اور ملک کی تقری پر ہمارا کوئی اختلاف نہیں، شاہ محمود قریشی

عمران خان ان کے قائد اور لیڈر ہیں مگر ان کی تربیت میں بینظیر بھٹو کا کردار ہے، شاہ محمود قریشی فوٹو: فائل

DHAKA:
پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کے مستقبل کی نئی ابتدا کی ہے، ہم تعمیری ذہن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے تیار ہیں۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کے دوران شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان کا دفاع کرنا ہمارا فرض ہے۔ دوسرے اراکین کی طرح یہ ایوان ہمیں بھی عزیز ہے، اس معزز ایوان میں کہی جانے والی ہر بات کا اپنا تقدس ہوتا ہے، ہمیں ایوان سے اختلاف نہیں۔ ایک طبقہ ہے جو جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے، ہم اس گھرکو جلانے نہیں ،بچانے آئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی موڑ ہے جس میں ہم بھٹک بھی سکتے ہیں، ہم سب کو سنجیدہ کردار ادا کرنا چاہئیے۔ عمران خان ان کے قائد اور لیڈر ہیں مگر ان کی تربیت میں بینظیر بھٹو کا کردار ہے۔ آج مختلف اقسام کے اشاروں کے حوالے دیئے جارہے ہیں،ایک تاثر دیا جارہا ہے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر بن جاتے ہیں اور نظروں سے گر بھی جاتے ہیں۔ اصغرخان کیس میں بہت سے پردہ نشین بے نقاب ہوجائیں گے۔ تحریک انصاف کسی بڑے منصوبے کا حصہ نہیں۔ تیسرے فریق کو دعوت ہم نے نہیں دی، تاریخ بتائے گی کہ کس نے کس کو ثالثی کی دعوت دی۔ ہم ایسے کسی منصوبے کا حصہ رہے نہ رہیں گے جس سے جمہوریت کو نقصان ہو۔


شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا، ہم نے صرف 4 حلقے دیے تاکہ مستقبل میں شفاف انتخابات کی بنیاد رکھی جائے لیکن ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لئے عمران خان سڑکوں پر نکلے ہیں، عمران خان نے نکلتے وقت اپنے کارکنوں سے حلف لیا کہ کوئی کسی بھی عمارت میں داخل نہیں ہوگا۔ گوجرانوالہ میں ہم پر حملہ ہوا، ہمیں جوتے اور پتھر مارے گئے، 10 دن ریڈ زون میں بیٹھے رہے لیکن ایک گملا نہیں ٹوٹا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جب پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب جانے کا فیصلہ کیا تو وہ خود ان کے کنٹینر میں پہنچے اور انہیں قائل کیا کہ وہ یہ کال واپس لیں، گڑ بڑ ہوئی تو جیتی بازی ہار جائیں گے، جمہوریت کی بساط لپٹنے والے فائدہ اٹھائیں گے۔ جس پر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ جو وہ کر سکتے تھے انہوں نے کیا وہ مجمعے کو نہیں روک سکتے۔ ہم نے طاہر القادری کے کارکنوں کو کہا کہ پارلیمنٹ ان کا کعبہ ہے پارلیمنٹ کی طرف نہ بڑھنا۔ بےنظیر بھٹو کی وطن واپسی کے موقع پر وہ کراچی میں ان کے ہمراہ تھے، انہیں معلوم ہے کہ جب لاشیں سڑکوں پر موجود ہوں تو کارکنوں کے جذبات کیا ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں بھی یہی ہوا۔ ان کا کھانا اور پانی بند کیا گیا، کھانا لانے والوں کو بھی پکڑلیا جاتا تھا، ایسی صورت حال میں کوئی کیا کرسکتا ہے وہ جانتے ہیں۔ وہ اسلام آباد تک آنے دینے کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن جو لاشیں ہم نے اٹھائی ہیں اس کا پرسہ کس کو دیں، پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب آنے والے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں جس کا واضح ثبوت ڈاکٹروں کی رپورٹ ہے۔ اچھے برے واقعات کی کوریج میڈیا کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے لیکن اپنی ذمہ ادارون کی ادائیگی کے دوران پنجاب اور اسلام آباد پولیس نے انہیں بھی نہیں چھوڑا۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ ملک کی جمہوریت اور اس کا مستقبل دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ان کی حکومتی ٹیم سے 5 نشستیں ہوئیں، جن میں ہمارا کردار تعمیری تھا۔ ہم نے انہیں 6 میں سے ساڑھے 5 پرپہنچایا۔ ہمارے حکومت سے 100 اختلاف ہوسکتے ہیں لیکن جمہوریت، آئین اور ملک کی تقری پر ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ ہم نے 7 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز پیش کی جس پر اسحاق ڈار نے انہیں اسے ناقابل اطلاق قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ مسئلہ حکومت کا نہیں رہا کیونکہ اب پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظورکی ہے۔ 1970 کے انتخابات کے بعد ہر الیکشن پر دھاندلی کے الزام لگتے رہے ہیں۔ انتخابات ہم چاہتے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے پاکستان میں ایسا نظام رائج کرایا جائے جس سے صاف ، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے۔ 2013 کے انتخابات پر صرف عمران خان نے نہیں بلکہ ہر جماعت نے سوالات اٹھائے۔ ملک کے عوام نے ان انتخابات کو مسترد کردیا ہے۔ اب ایک نیا پاکستان بن ریا ہے اس وقت ہمیں اپنی انا کی قربانی دینا ہوگی۔ اس وقت ملک کو درپیش اندرونی چیلنجز بیرونی خطرات سے زیادہ بڑے ہیں۔ ہم پرانے مردے نہیں نکالنا چاہتے۔ وہ تعمیری ذہن سے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
Load Next Story