یہ عوام لوگ اچھے لوگ نہیں ہیں
اتنا بھی بے چاروں کو ہوش نہیں ہوتا کہ کب کیا کرنا ہے۔۔۔
HARIPUR:
جس طرح بے چارے خاقانی کو پورے تیس سال میں پتہ چلا تھا کہ
پس از سی سال ایں نکتہ محقق شد بہ خاقانی
کہ ''بورانی'' ست بادنجان و ''بادنجان'' بورانی
یعنی تیس سال کے بعد اب کہیں جا کر پتہ چلا ہے کہ بورانی ... جو ہوتی ہے وہ اصل میں بینگن ہوتے ہیں اور بینگن ہی دراصل ''بورانی'' ہوتے ہیں، بورانی دراصل ایک ایرانی ڈش ہے جس میں بینگن کے گول قتلے کاٹ کر گھی میں تلے جاتے ہیں اور پھر اسے انتہائی ترش دہی کے ساتھ کھایا جاتا ہے، بے چارا خاقانی بھی شاید ہو بہو ہم پر گیا تھا بورانی کا نام سن کر اس کے تصور میں کوئی انتہائی زبردست ''پکوان'' پک رہا تھا لیکن جب ''بورانی'' کو دیکھا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا کہ پورے تیس سال میں مجھے یہ جان کاری حاصل ہوئی ہے کہ بورانی بینگن ہوتا ہے اور بینگن بورانی ہوتا ہے۔
ہمیں بھی لگ بھگ بیس سال میں یہ پتہ چلا تھا کہ ''ہاٹ ڈاگ'' کتا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کتا ہاٹ ڈاگ ہوتا ہے ''ہاٹ ڈاگ'' کیا ہوتا ہے یہ پتہ ابھی لگانا باقی ہے، لیکن اصل دریافت بلکہ تحقیق بلکہ دریافت اور کھوج ہم پر پورے ''اٹھاسٹھ'' سال میں منکشف ہوئی ہے وہ کچھ اور ہے جو نہ ہاٹ ہے نہ ڈاگ ہے نہ بورانی اور نہ بینگن، یا شاید ان سب کا مجموعہ ہے، آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ نہ ایک کم نہ ایک زیادہ بلکہ پورے اٹھاسٹھ سال میں ہمیں اب کہیں جا کر پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے عوام ''اچھے'' لوگ نہیں ہیں
منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراق
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں
پاکستانی عوام بے شک ہمارے دوست ہیں بھلے ہی وہ ہماری جگہ اپنے لیڈروں کو دوست سمجھتے ہوں اور اسی وجہ سے ہمیں بھی بڑا دکھ ہوا یہ جان کر کہ پاکستان کے لوگ بالکل بھی اچھے لوگ نہیں ہیںشبہ تو ہمیں بہت پہلے سے تھا لیکن اب یہ بمقام اسلام آباد ہمارے لیڈران کرام اور خادمان عظام پر جو یہ لوگ ''پیڑے پیڑے'' شک کر رہے ہیں اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ یہ لوگ اچھے لوگ نہیں ہیں اتنے پاکیزہ اتنے سچے اور اتنے اچھے مخلص خادمان قوم کے بارے میں ایسا ویسا کہنا سننا لکھنا بلکہ سوچنا بھی پرلے درجے کی احسان فراموشی ہے، ظلم ہے، زیادتی ہے اتیاچار ہے حالاں کہ اگر کہیں اور عوام ہوتے تو اپنے ان لیڈران کرام خادمان عظام اور رہبران عالی مقام کی بلائیں لیتے ان کے چرن دھو دھو کر پیتے اور ان کے دامن نچوڑ نچوڑ کر وضو کرتے
ہیں کتنے اچھے لوگ کہ جن کو اپنے غموں سے فرصت ہے
سب پوچھے ہیں احوال جو کوئی درد کا مارا مل جائے
بہت سارے ممالک کے بہت سارے عوام سے ہماری گپ شپ ہے وہ جب ہم سے یہ سنتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے بھی لیڈران کرام رہنمایان عظام خادمان صبح و شام پائے جاتے ہیں جو اپنے سارے کام کاج چھوڑ چھاڑ، سارے دھندے پھوڑ پھاڑ اور سارے رشتے توڑ تاڑ کر صرف ''عوام'' کے ہو جاتے ہیں تو وہ اتنا عش عش کرنے لگتے ہیں کہ بے چارے غش کھا جاتے ہیں اور ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے تمہاری ''سیاست'' بنائی
لیکن افسوس کہ پاکستان کے ناقدرے احسان فراموش خدمت فروش ''عوام'' ان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ان پر طرح طرح کے شک کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں ان خادمان قوم، رہبران ملک و ملت اور صاحبان خدمت میں کچھ تو ایسے ہیں جو نہ جانے کتنی پشتوں سے عوام کی خدمت کرتے چلے آرہے ہیں پچھلی نسل سے اگلی نسل اور اگلی نسل سے اگلی نسل اور زیادہ خدمت گزار ہوتی ہے اس لیے کہ فارسی کلیے کے مطابق بہت زیادہ خدمت سے مخدوم ہو جاتے ہیں
ہر کہ خدمت کرد اور مخدوم شد
لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو ''تازہ واردان بساط ہوائے دل'' ہوتے ہیں یعنی خدمت کر کے نئے نئے ''خاندان'' ڈال رہے ہیں اور اس کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے رہتے ہیں جلسے جلوس، دھرنے جھرنے، کرنے مرنے، پرنے شرنے سب کچھ کرتے ہیں تاکہ کسی طرح خادموں کے ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈال سکیں، لیکن اتنی بڑی ''نعمت'' اور سعادت دین و دنیا پا کر بھی پاکستان کے ناشکرے عوام اپنے ان خادمان کرام، لیڈران عظام اور رہبران عالی مقام کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور یہ بہت بلکہ بہت بہت بلکہ بہت بہت ہی بری بات ہے اور یہ ہماری برداشت سے باہر ہے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
یہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں ان کو کیا پتہ کہ ان کے خادمان عالی مقام ان کی خاطر کیا کیا کشٹ اٹھاتے ہیں کیا کیا دکھ بھوگتے ہیں اور کیا کٹھنائیاں برداشت کرتے ہیں کبھی جلسوں میں گلے کی رگیں پھلا پھلا کر منہ میں جھاگ بھر بھر کر اور اپنی آواز کو بٹھا بٹھا بولتے ہیں کبھی اپنا سارا آرام اور سکھ تیاگ کر سڑکوں پر ''دھرنے'' دیتے ہیں اور کبھی کام کے ساتھ قوم کا رنج اٹھاتے ہیں اور یہ بات تو کتابوں تک میں آئی ہے کہ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
اتنا بھی بے چاروں کو ہوش نہیں ہوتا کہ کب کیا کرنا ہے چنانچہ ناشتہ لنچ کے وقت کرتے ہیں اور لنچ ڈنر کے وقت، ڈنر کو صبح ناشتے تک کھینچ لیتے ہیں کیوں کہ یہ سونے کے وقت جاگے ہوئے ہوتے ہیں اور جاگنے کے وقت سوئے ہوئے ہوتے ہیں مطلب یہ کہ نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن، نہ لات دیکھتے ہیں نہ ۔۔۔۔ صرف اور صرف یہی کرتے ہیں کہ غم دل کو کھا رہا ہوتا ہے اور دل غم کو کھا رہا ہوتا ہے
ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
یہ عوام جو کالانعام بھی ہوتے ہیں آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ خادمان قوم قربانی ایثار اخلاص اور خدمت کے کتنے بڑے پیکر ہوتے ہیں اس دنیا میں کون ہے جو اپنا کام دھندہ چھوڑ کر خدمت اور صرف ''خدمت'' کے لیے خود کو وقف کر دے وہ بھی بالکل مفت ... اور ہمارے خادمان یہی کرتے ہیں آج کے زمانے میں جب کسی کو اپنا سر کھجانے کی فرصت نہیں ہے یہ لوگ دوسرے کا ''کھجاتے'' ہیں اور وہ بھی نہ جانے ''کہاں کہاں'' کھجاتے ہیں بلکہ جہاں کھجلی نہیں ہوتی وہاں بھی یہ بے چارے ''کھجانے'' کے لیے پہنچ جاتے ہیں یعنی چھوڑ چھاڑ کے ''اپنے'' سلیم کی گلی انار کلی ڈسکو چلی
سرمہ مفت نظر ہوں میری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا
سب سے بڑی غلطی جو یہ عوام کالانعام لوگ کرتے ہیں یہ ہے کہ یہ ان خادمان کرام، رہبران عظام کو ''اپنی طرح'' سمجھ کر ان پر جھوٹ کا آروپ لگاتے ہیں حالاں کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے ان خادمان عالی مقام نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے جب بھی بولے ہیں سچ ہی بولے ہیں اور سچ کے سوا کچھ بھی نہیں بولے ہیں اور یہ ہم ابھی اسی وقت دو اور دو چار کر کے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہمارے یہ محسن لوگ جھوٹ کبھی نہیں بولتے، آپ نہیں مان رہے ہیں ٹھیک ہے ابھی ثابت کیے دیتے ہیں چلیے صرف اتنا بتا دیجیے کہ یہ لوگ جو کچھ بولتے ہیں یہ کب سے بول رہے ہیں۔
عرصہ ''اٹھاسٹھ'' سال سے ... شاباش ... تو آپ کے بچے جیویں ... لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ پورے اٹھاسٹھ سال سے جو کچھ یہ مسلسل مسلسل متواتر، لگاتار، برابر بولے جا رہے ہیں وہ اب تک ''سچ'' نہیں ہو گیا ہو گا، یہ تو باقاعدہ جرمنی کا دریافت کردہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر ''جھوٹ'' مسلسل متواتر لگاتار بولا جائے تو وہ ''سچ'' بن جاتا ہے اور پھر ہمارے یہ لیڈران کرام خادمان عظام اور رہبران عالی مقام تو کبھی جھوٹ بولتے ہی نہیں ہیں اس لیے ان کا ''بولا ہوا'' تو سچ سے بھی زیادہ ''سچ'' بن چکا ہے اس سے زیادہ بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اب یہ خود اس پر یقین کرنے لگے ہیں یہ الگ بات ہے کہ بات تھوڑی سی رسوائی کی ہے لیکن سیاست میں تو رسوائی ہی اصل کمائی ہوتی ہے مطلب یہ کہ یہ لوگ ''جھوٹ کبھی نہیں بولتے'' سوائے ان آخری چار الفاظ کے۔