ریڈ زون سے بلڈ زون تک

وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں کہا کہ فوج نے ثالثی کا کردار مانگا اور نہ ہی ہم نے ایسی کبھی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔


MJ Gohar September 04, 2014

SWAT: دور اندیش اور باتدبیر حکمرانوں کا یہ وصف ہی ان کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی پہچان ہوتا ہے کہ وہ حالات کے تقاضوں اور معاملات کی نزاکتوں کا کماحقہ ادراک رکھتے ہیں اور پیش آمدہ داخلی و خارجی بحرانوں کا بڑی دانشمندی، فہم و فراست اور حکمت کے ساتھ، غیر سیاسی قوتوں کو آواز دیے بغیر سیاسی حل تلاش کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً ملک میں نظام جمہوریت مستحکم ان کا اقتدار محفوظ اور آئین و قانون کی بالادستی کا بھرم قائم رہتا ہے۔

بدقسمتی سے ملک کی موجودہ برسر اقتدار قیادت اس وژن سے ناآشنا نظر آتی ہے جس کا بین ثبوت وفاقی دارالحکومت گزشتہ ماہ کے وسط سے جاری سیاسی بحران کے قابل قبول حل تلاش کرنے میں اس کی مبینہ ناکامی ہے، پورا میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ 14 اگست کو ''تخت لاہور'' سے شروع ہونے والا آزادی اور انقلاب مارچ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے تک مکمل طور پر پرامن تھا، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد 17 روز تک ریڈ زون میں پر امن طور پر احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے رہے اس عرصے میں پی ٹی آئی اور پی ٹی اے کے کارکنوں نے نہ کوئی گملا توڑا نہ کسی حساس عمارت کو نشانہ بنایا اور نہ ہی کسی سرکاری اہلکار سے الجھنے کی کوشش کی۔

تاہم جب طاہر القادری اور عمران خان نے حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث مذاکرات میں ناکامی اور ڈیڈ لاک پیدا ہونے کے بعد اپنے دھرنے کو وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کیا اور دھرنے کے شرکا جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان سب ہی شامل تھے، بڑے پر امن طریقے سے وزیر اعظم ہاؤس کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تو راستے میں حفاظتی حصار بنائے کھڑی پولیس کی بھاری نفری نے حکومتی احکامات کی تعمیل میں احتجاجی مظاہرین پر یلغار کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ریڈ زون کو ''بلڈ زون'' بنا دیا۔

میدان جنگ کا منظر پیش کرنے والے ریڈ زون میں پولیس نے ریاستی جبر و تشدد کے تمام ریکارڈ توڑ دیے دھرنے کے شرکا پر آنسو گیس کی ایسی بدترین و خوفناک شیلنگ کی گئی ان پر لاٹھیاں اور گولیاں برسائی گئیں۔ نتیجتاً 300 سے زائد افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں بری طرح زخمی ہوکر اسپتالوں میں پہنچ گئے جن میں بیشتر کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

شیلنگ سے (ق) لیگ کے چوہدری شجاعت حسین اور تحریک انصاف کے ابرار الحق بھی زخمی ہو گئے۔ بعض ذرایع سے ہلاکتوں کی بھی اطلاع ہے۔ یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ پولیس اسپتالوں میں جا کر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے زخمی کارکنوں کو زبردستی گرفتار کر رہی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کے لیے کھانے، پانی کی فراہمی کے راستے مسدود کیے جا رہے ہیں۔ تاہم عمران خان اور طاہر القادری کے حوصلے قائم ہیں وہ اپنے اس مطالبے پر جمے ہوئے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے مستعفی ہونے تک وہ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔

دونوں قائدین نے اپنے کارکنوں کو ''فتح آزادی انقلاب'' تک ثابت قدم رہنے کی تلقین کی ساتھ ہی وقفے وقفے سے ان کے خطاب کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پولیس نے نہ صرف احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ریاستی جبر کو بے نقاب کرنے والے میڈیاپرسنز کے کیمرے بھی توڑ دیے، گاڑیوں سے نکال کر مارا پیٹا جس پر پوری صحافتی برادری سراپا احتجاج ہے۔ ریڈ زون سانحے کے بعد پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مختلف سیاسی جماعتوں وتنظیموں کے کارکنان احتجاجی دھرنے دے رہے ہیں جس سے امن عامہ کی صورت حال مزید بگڑنے کے خدشات ہیں۔

ریڈ زون کے مذکورہ سانحے پر ملک کے تمام محب وطن طبقے اور سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقے گہری تشویش و فکرمندی کا اظہار اور حکومت کی ریاستی جبر کی پالیسی پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ وزیر اعظم اپنی مقبولیت اور اخلاقی حمایت کھو رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے اقتدار میں رہنے کا اخلاقی جواز کم ہو گیا ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے احتجاجی مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بادشاہت کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے واضح طور پر کہا کہ اگر طاقت کا مظاہرہ بند نہ ہوا تو متحدہ میدان میں ہو گی۔ انھوں نے وزیر اعظم کو رضاکارانہ طور پر مستعفی ہو جانے کا بھی مشورہ دیا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی ریڈ زون سانحے پر افسوس کا اظہار کیا۔ بعینہ ملک کے تمام قابل ذکر طبقوں کی جانب سے نواز حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

آپ دنیا کے مہذب و باشعور جمہوری معاشروں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ریاستی پالیسیوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آ کر پر امن احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اور ریاستی مشنری ان کے احتجاج میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتی یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس کے باہر امریکی صدور اور برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے سامنے بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ پرامن احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں لیکن کہیں خونی سانحہ رونما نہیں ہوتا ج لیکن ہمارے ہاں آئین و قانون کی پاسداری اور جمہوری اقدار کی حفاظت کرنا حکمرانوں نے شاید سیکھا ہی نہیں یہ سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انھیں آئین و قانون کی کتاب کا ایک ایک صفحہ ازبر ہوتا ہے لیکن جب اقتدار میں آتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور میاں صاحب کی کہہ مکرنیاں ریکارڈ پر موجود ہیں۔

بھاری مینڈیٹ کے زعم میں وہ تمام حدود عبور کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں جاری سیاسی بحران کے امکانی حل کے حوالے سے انھیں سابق صدر آصف علی زرداری، الطاف حسین، سراج الحق، اسفند یار ولی و دیگر سیاستدانوں نے جو بھی تجاویز و مشورے دیے سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضد پر قائم ہیں یہاں تک کہ آرمی چیف نے بھی وزیر اعظم کو گزشتہ ملاقاتوں کے دوران افہام و تفہیم اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے جاری سیاسی بحران حل کرنے کا مشورہ دیا۔ جنرل صاحب کی عمران خان اور مولانا طاہر القادری سے ملاقاتیں بھی بے نتیجہ رہیں۔ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں کہا کہ فوج نے ثالثی کا کردار مانگا اور نہ ہی ہم نے ایسی کبھی خواہش کا اظہار کیا ۔

جس سے ہر دو جانب کئی غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ تاہم آئی ایس پی آر نے وضاحت کر دی کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی جس پر جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور طاہرالقادری سے ملاقاتیں کیں۔ ادھر جی ایچ کیو میں آرمی چیف کی صدارت میں ہونے والی ہنگامی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے مطابق کانفرنس میں جاری سیاسی بحران پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مزید وقت ضایع کیے بغیر مسئلے کو سیاسی طور پر حل کیا جائے، تشدد اور طاقت کا استعمال معاملے کو مزید خراب کر دے گا۔ اعلامیے میں حکومت سے گویا کہا گیا ہے کہ وہ ''ریڈزون'' کو تشدد و طاقت کے ذریعے ''بلڈ زون'' بنانے سے گریز کرتے ہوئے بغیر وقت ضایع کیے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرے تا کہ بحران کا جلد از جلد خاتمہ ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔