جمہوریت اور آزادی صحافت

موجودہ حکومت نے بھی دل کھول کر خدائی دکھائی ہے۔۔۔


Pakiza Munir September 04, 2014

حکومت اور فرماں روائی جیسی بد بلا ہے ہر شخص اس کو جانتا ہے اس کے حاصل ہونے کا خیال آتے ہی انسان کے اندر لالچ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں۔ خواہشات نفسانی یہ چاہتی ہیں کہ زمین کے خزانے اور خلق خدا کی گردنیں اپنے ہاتھ میں آئیں تو دل کھول کر خدائی کی جائے حکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ان اختیارات کے ہاتھ میں آ جانے کے بعد خدا بننے سے بچنا اور بندہ خدا بن کر کام کرنا مشکل ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی دل کھول کر خدائی دکھائی ہے۔ احتجاجی دھرنوں میں حکومت کی طرف سے صحافیوں پر انتہا کا ظلم کیا گیا صحافت جو ریاست کا چوتھا ستون ہے اگر اس ستون کو توڑا گیا تو حکومت کا اپنا قائم رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دھرنوں کی وجہ سے ملک میں بہت انتشار پھیل چکا ہے، ہر ملک کے میڈیا کی نظر اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہے اس وقت پاکستان کو اربوں روپوں کا نقصان ہو چکا ہے اور ہمارے صاحبان اختیار آپس میں ہی لڑنے میں لگے ہوئے ہیں ہمارے حکمرانوں کو نہ ہی اربوں روپوں کا ہونے والے نقصان کی پرواہ ہے اور نہ انٹرنیشنل لیول پر ہونے والی پاکستان کی بدنامی کی پرواہ ہے فکر ہے تو بس ''کرسی'' کی۔

پاکستان ہے تو کرسی ہے پہلے پاکستان پھر بعد میں دوسری چیزیں۔ اس وقت بھارت سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اس کے سر پر جنگی جنون سوار ہے پاکستانی سرحدی علاقوں میں بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے مگر افسوس ہمارے حکمرانوں کو یہ چیز نظر نہیں آ رہی۔ اگر اسی طرح سیاسی انتشار ملک میں رہا تو خدا نہ کرے کوئی بھی اس چیز سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

ہماری فوج ویسے ہی دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ملک کے اندر ہماری فوج دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور دوسری طرف بھارت سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے ہماری فوج وہاں پر بھی مصروف ہے اس وقت پورے ملک کو فوج کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ ہم ہی لوگ فوج کو مشکل میں ڈال دیں مگر افسوس ہمارے حکمرانوں نے فوج کو اس وقت مشکل میں ڈال دیا ہے اسلام آباد میں کئی روز سے ہونے والے دھرنوں سے اس وقت ملک میں انتشار پھیل چکا ہے۔

حکومت کی طرف سے ان دھرنوں کو منتشر کرنے کے لیے تشدد کا راستہ اپنا لیا گیا ہے حکومت کی طرف سے عمران خان اور قادری صاحب سے مذاکرات ہوئے مگر سارے مذاکرات ناکام رہے۔ بات تشدد پر آ گئی ہے نہ صرف حکومت کی طرف سے عوام کو نشانہ بنایا گیا بلکہ صحافیوں پر بے انتہا تشدد کیا گیا ہے ۔

سماج میں بگاڑ ہی بگاڑ ہے یہ بگاڑ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں صحافیوں کے کیمرے توڑے گئے ان کی وین کو نشانہ بنایا گیا۔ صحافیوں کو ان کی گاڑی میں سے نکال کر ان کی خوب پٹائی کی گئی آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا؟ یہ چوتھا ستون تو بس اپنا فرض ادا کر رہا تھا، خبریں جمع کر رہا تھا اور حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی اور صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

پاکستان میں اس وقت جتنی خرابیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں ان کی جڑ دراصل حکومت کی خرابی ہے طاقت اور دولت حکومت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ قانون حکومت بناتی ہے۔ انتظام کے سارے اختیارات حکومت کے قبضے میں ہوتے ہیں پولیس اور فوج کی طاقت حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ لہٰذا جو خرابی بھی لوگوں کی زندگی میں پھیلتی ہے وہ یا تو خود حکومت کی پھیلائی ہوئی ہوتی ہے یا اس کی مدد سے پھیلتی ہے۔

عمران خان صاحب اور قادری صاحب کے دھرنوں کو مذاکرات سے حل کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے تھی نہ کہ تشدد پر اترتے اور میڈیا کے ساتھ بھی حکومت بھرپور تعاون کرتی نہ کہ سچ کی سزا میڈیا کو دی گئی جمہوری دور ہے نہ حکومت میڈیا کے لوگوں کو روک سکتی ہے نہ خبروں کی کوریج کرنے سے اس وقت پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہے اس کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے اصل و سلامتی کے ساتھ نہ کے تشدد کے ساتھ۔

اس وقت پاکستان کے تمام سیاسی حکمرانوں کو مل کر اس سیاسی بحران کا حل نکالنا چاہیے جتنی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ان تمام مسائل کو حل کرنے کیا اتنی ہی دوسرے قائدین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عمران خان اور قادری کو بھی جمہوریت کی بقا کے خاطر حکومت سے تعاون کرنا چاہیے عوام کے لیے اور پاکستان کے لیے ہمارے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے۔ اپنی ضد اور انا کو بیچ میں سے نکالنا ہو گا تبھی کوئی راستہ ان حکمرانوں کو نظر آئے گا۔

ورنہ یہ انا ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گی اس وقت ملک اور عوام دونوں ہی کو جمہوریت کے ختم ہونے کا خطرہ ہے اگر جمہوریت ختم ہو گئی اس کا بہت بڑا نقصان ہمارے ملک کو پہنچے گا۔ ہمارا ملک دوسرے ملکوں سے اور مزید پیچھے ہو جائے گا۔ ہمارے ملک کی ترقی کا سفر رک جائے گا اس کا ذمے دار آخر پھر کون ہو گا؟ آخر میں سب ہی ایک دوسروں کے اوپر اس کا الزام رکھتے رہیں گے ہمارے حکمرانوں کو کرسی کا نہیں اب ملک کا سوچنا چاہیے۔

حکومت عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ تعاون کرے اور عمران خان صاحب اور قادری صاحب حکومت کے ساتھ تعاون کریں صرف اور صرف جمہوریت کی خاطر ہی سہی مگر ان تمام مسائل کا حل پر امن ہو نہ کہ پر تشدد۔ اگر حکمران ان تمام مسائل کو حل نہ کر پائے تو ڈر ہے کہ جمہوریت کا یہ سلسلہ نہ رک جائے اور حکومت کو میڈیا پر تشدد سے گریز کرنا چاہیے اور دھرنوں میں شامل عوام پر تشدد سے گریز کریں۔

اختلاف کی ہوش مندانہ آواز کو عارضی طور پر ایک عشرے تک یا پھر ایک نسل تک تو خاموش کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے ہر گز ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی صحافت پر مختلف ادوار میں مختلف مصائب کا سامنا بہت ہمت اور بہادری سے ہمیشہ کیا ہے پاکستانی صحافت کو جتنا قید کرنے کی کوشش کی گئی سچ پھیلتا چلا گیا صحافت کی آزادی حکومت کا اہم فرض اور رعایا کا فطری حق ہے۔ اس حق کو کوئی حکمران اور نہ ہی حکومت روک سکتی ہے۔

امید پر دنیا قائم ہے اور مجھے بھی امید ہے کہ آزادی صحافت کا دور اور جمہوریت کا یہ سلسلہ جاری اور ساری رہے گا۔ خدا کرے ہمارے حکمران اس سیاسی بحران کو پر امن طریقے سے حل کرنے میں کامیاب رہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں