حکومت ٹریفک کے مسائل کو حل کرے

ترقی یافتہ ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔۔۔


ذوالقرنین زیدی September 04, 2014

ٹریفک کا نظام کسی بھی معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن اور اس کے نظم و نسق کا اندازہ اس کے ٹریفک نظام پر ایک نظر ڈالنے سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے، اگر کوئی فرد کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہو تو اسے پہلے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی منزل تک کب پہنچے گا، اس کے برعکس پاکستان میں آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پر بھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں یا پھر ٹریفک نظام کے۔ مسافروں کا مقررہ وقت تک منزل پر پہنچنا تو کجا، گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے جس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے۔

ٹریفک قوانین کا احترام مہذب قوموں کا شعار ہے، مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہوتے ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیداری کے لیے مختلف ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں، دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں ٹریفک کے مسائل بھی اسی طرح حل طلب ہیں جس طرح دوسرے بڑے اور سنگین مسائل۔

گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں کل 8 ہزار 885 ٹریفک حادثات رپورٹ کیے گئے، ان ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 4 ہزار 672 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور 9 ہزار 864 لوگ زخمی ہوئے۔

عالمی ادارہ صحت کی روڈ سیفٹی کے بارے میں گلوبل اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق موجودہ حالات و اقعات یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ٹریفک قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے موجودہ رجحانات 2030ء تک ناگہانی اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائیں گے۔

اوور لوڈنگ، سڑکوں کی خستہ حالی، ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، تیز رفتاری، ون وے کی خلاف ورزی، غلط اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، ون وہیلنگ، تیز لائٹس، ہیڈ لائٹس کا نہ ہونا، پریشر ہارن، بغیر ہیلمٹ یا بیلٹ کے سفر، ڈرائیونگ کے دوران سیل فون اور / یا نشہ آور اشیا کا استعمال، غلط پارکنگ وغیرہ جیسی ٹریفک کی خلاف ورزیاں اور اس کے علاوہ بریکوں کا فیل ہو جانا اور خراب / مدت پوری کر چکے ٹائروں کا استعمال معمول بن چکے ہیں جو ان حادثوں کی اہم وجوہات ہیں۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے باعث پولیس کی رٹ تو ویسے ہی ختم ہو چکی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ پولیس کی رٹ نہ ہونے کے باعث پاکستانی شہریوں کا امن غارت ہو چکا ہے۔ کچھ بھی کہہ لیں، بہر حال شہریوں کا پولیس پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔ سیاست، بدعنوانی اور رشوت ستانی کا شکار محکمہ پولیس جدید ٹیکنیک اور جدید ہتھیاروں سے لیس جرائم پیشہ عناصر کے آگے بے بسی کی مکمل تصویر نظر آتا ہے، محکمے میں کھلم کھلا سیاست، کرپشن اور رشوت نے جرائم کی شرح کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔

عام آدمی سے لے کر متعلقہ حکام، اراکین اسمبلی، وزرا، ججز، پولیس سربراہان، انسداد بدعنوانی کے محمکوں کے افسران تک کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں نہ صرف ذاتی کار، موٹر سائیکل وغیرہ بلکہ کوئی تجارتی گاڑی چاہے وہ بس ہو یا بھاری سامان اٹھانے والا ٹرک بلا لائسنس چلانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اسی طرح ڈرائیونگ لائسنس غیر قانونی طور پر یا اس کے حصول کے لیے درکار ٹیسٹ پاس کیے بغیر حاصل کرنا بھی کوئی قابل ذکر بات نہیں سمجھی جاتی، بلکہ درکار ٹیسٹ پاس کر کے قانونی طور پر بغیر رشوت کے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا کسی انہونی سے کم نہیں ہے۔

بیشتر ڈرائیوروں کو ٹریفک قوانین تو کیا ٹریفک کے اشارے بھی درست طور پر پڑھنے نہیں آتے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں لائسنس کی فراہمی کے لیے ڈرائیونگ سے آگہی کے لیے چھ گھنٹے کی ویڈیو کلاس کو ضروری قرار دیا جاتا ہے، اور ہمارے یہاں یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی کہ کسی کو گاڑی چلانا بھی آتی ہے یا نہیں۔

اسی طرح کسی گاڑیوں کی جسمانی فٹنس کو جانچنے کے لیے کوئی اصول موجود نہیں ہے بلکہ فٹنس ٹیسٹ کا مطلب بھی فقط انسپکٹرز کی جیب گرم کرنا ہے، وگرنہ 30 سال سے زائد پرانی بسیں اور ٹرک ہماری سڑکوں پر کس کی اجازت سے رواں دواں ہیں؟

ون وے کی خلاف ورزی تو جیسے فیشن بن گیا ہے، یو ٹرن اگرچہ چند گز کے فاصلے پر بھی موجود ہو تو کوئی وہاں تک جانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا بلکہ غلط سمت موٹرسائیکل یا گاڑی چلانے کو ترجیح دیتا ہے۔ علیٰ الصبح بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑیوں کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، بچوں سے کھچا کھچ بھری گاڑیاں سڑک پر غلط سمت میں ایسے دوڑائی جاتی ہیں جیسے موت کنوئیں میں چلائی جا رہی ہوں۔

سرکاری محکموں، نجی اداروں، بازاروں، مارکیٹوں، پارکوں، پلازوں وغیرہ میں پارکنگ کی سہولت نہ ہونے کے باعث لوگ جہاں جگہ ملے گاڑی پارک کر دیتے ہیں، ایک کے پیچھے ایک گاڑی پارک ہونے سے سڑک پر ٹریفک کے بہاؤ کے لیے گنجائش کم رہ جاتی ہے جس سے گاڑیوں کو گزرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ عوامی مراکز کے باہر بھتہ خور گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں کھڑی کرنے کی ''فیس'' وصول کرتے ہیں۔

صنعتی و تجارتی مال لیجانے والی گاڑیاں خصوصا پولٹری اور دودھ سپلائی کرنے والی گاڑیاں سڑکوں پر ایسی تیز رفتاری سے دوڑائی جاتی ہیں کہ جیسے کسی ریس کورس میدان میں مقابلہ ہو رہا ہو، قصابوں سے مرغیوں یا دیگر جانوروں کی آلائشیں لے جانے والی گاڑیاں بھی غیر معقول نظام نہ ہونے کے باعث بہت سی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ سیوریج کے پانی سے بھرے ٹینکرز میں غلیظ پانی دوران سفر ہی خارج کرنے کا رجحان بھی عام ہے جس سے تعفن کے ساتھ مہلک بیماریاں بھی پھیلتی ہیں، غلاظت کی چھینٹوں سے کپڑے بھی ناپاک ہو جاتے ہیں جب کہ گندے پانی کی چکناہٹ سے سڑکوں پر پھسلن کے باعث بہت سی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریت، بجری، مٹی اور دیگر اقسام کے ملبے سے لدے ٹرکوں پر بھی کوئی حفاظتی انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مٹی، ریت اور پتھروں کا راستے ہی میں گر جانا اور گرد و غبار اور ذرات کا بدن پر اور آنکھوں میں گرنا معمول ہے جو ان گنت چھوٹے بڑے حادثات کا موجب بنتا ہے۔

سڑکوں کو جگہ جگہ سے کھودنا بھی کوئی بری بات نہیں سمجھا جاتا جس کے نتیجے میں روزانہ ہزاروں گاڑیوں کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

ٹریفک قوانین پر عمل درآمد میں پولیس کی ناکامی کا خمیازہ ملک اور قوم کو جرائم کے فروغ کی صورت میں بھی بھگتنا پڑتا ہے، ٹریفک قوانین پر اگر سختی سے عمل کرایا جائے تو بہت سے بڑے چھوٹے جرائم کی شرح میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔

بغیر نمبر پلیٹس یا جعلی نمبر پلیٹس کے ساتھ گاڑیاں اور موٹر سائکلیں چلانے کا رواج عام ہے، بلکہ جرائم پیشہ عناصر اپنی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر پولیس کی نمبر پلیٹس لگانے کو زیادہ پسند کرتے ہیں، جسے وہ بلا خوف و خطر نہ صرف استعمال کرتے ہیں بلکہ قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں میں یہ ان کے لیے انتہائی محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ مقامی حکومتوں، ہائی کورٹس، وزارت داخلہ اور پریس کی نمبر پلیٹس والی موٹر سائکلیں سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں دوڑتی نظر آتی ہیں۔

اسی طرح ہیلمٹ کی چیکنگ کا دارومدار بھی کسی بڑے سرکاری عہدیدار کی ذاتی دلچسپی، کاروبار یا کاروبار میں پارٹنر شپ کے مرہون منت ہوتا ہے، کہ جیسے ہی کنٹینر امپورٹ ہوا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا، مال بک گیا تو سب بھول گئے۔

جرائم پیشہ خاص طور پر اسٹریٹ کرائمز میں ملوث گروہ موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس موٹر سائیکل کی سیٹ کے ساتھ دائیں یا بائیں لگاتے ہیں، جو نشست کے پچھلے حصے پر اسلحہ لے کر بیٹھنے والے ڈاکو ساتھی کی ٹانگ کے نیچے غائب ہو جاتی ہے، جب ڈاکو واردات کر کے فرار ہوتے ہیں تو متاثرہ شخص وہ نمبر پلیٹ نہیں دیکھ پاتا۔ اسی طرح موٹر سائیکلوں کی نمبر پلیٹس پر کپڑے کا ٹکڑا باندھنے، لٹکانے یا سیٹ کور کا کپڑا گرانے کا رجحان بھی ڈاکوؤں میں عام ہے تا کہ واردات کر کے فرار ہوتے وقت کوئی نمبر نہ پڑھ سکے۔ ایسے جرائم پیشہ عناصر کی بغیر مڈگارڈ اور بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں سڑکوں پر سرعام گھومتی نظر آتی ہیں۔

عوامی فلاح و بہبود سے غافل حکومتوں اور راشی پولیس کو کبھی خیال نہیں آیا کہ جرائم کے ارتکاب میں عام طور پر موٹر سائیکل اور کار وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ٹریفک کا نظام درست ہو اور موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر لگی نمبر پلیٹس کی سنجیدگی سے باقاعدہ اور بلا تفریق چیکنگ کا عمل گاہے بگاہے ہوتا رہے اور نمبر پلیٹس میں کوتاہی برتنے والے ڈرائیورز یا مالکان کی گاڑیاں بحق سرکار ضبط کر لی جائیں اور ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں جرائم کی شرح کم نہ کی جا سکے۔

اگر عام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر جرمانے 4 گنا جب کہ مسافر اور تجارتی گاڑیوں کی جانب سے خلاف ورزی پر جرمانے 10 سے 20 گنا بڑھا کر ٹریفک کا نظام مکمل طور پر رینجرز کے حوالے کر دیا جائے اور انسداد رشوت کے لیے بھی ٹھوس اقدام کر لیے جائیں تو نہ صرف ٹریفک کا نظام پٹڑی پر آ جائے گا بلکہ ملک سے بڑے جرائم کی شرح کم کرنے میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں