پاکستان ایک نظر میں گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے

میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں عالمی میڈیا کی رپورٹس پرمنفی تاثر نہیں لینے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چائیے۔

بحثیت ایک پاکستانی مجھے اِن سب واقعات میں افسوس بھی ہے اور خواہش بھی کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو تاکہ ریاست کے سارے معاملات کام کرنا شروع کردیں اور احتجاج کی وجہ سے رکا ہوا معیشت کا پیہ بھی چل پڑے۔ فوٹو: فائل

KOTKAI:
مطالبات، شکایات اور پھر اُس کے لیے احتجاج کسی ایک ملک کی حد میں محدود نہیں ہوا کرتی ہیں،ہر ملک کے اندر سیاسی میدان میں سیاسی نشیب وفراز کا سفر جاری رہتا ہے۔ مخالف پارٹیوں کی جانب سے حکومت پر الزامات بھی لگائے جاتے ہیں،اور مطالبات بھی پیش کئے جاتے ہیں۔

یہ ہی منظرنامہ آج پاکستان میں بھی ہے۔ جہاں حکومت کے خلاف دھرنے بھی دیے جارہے ہیں اور کچھ واقعات میں یہ احتجاج پرتشدد بھی ہوا۔ جس کے حل کے لیے ایک طرف حکومت اپنی رٹ کی بحالی کے لیے کوششیں بھی کررہی ہے اور کہیں مذاکرات کے ذریعے بھی معاملات کو حل کرنے کےلیے کوششیں کی جارہی ہے۔

بحثیت ایک پاکستانی مجھے اِن سب واقعات میں افسوس بھی ہے اور خواہش بھی کہ یہ معاملہ جلد از جلد حل ہو تاکہ ریاست کے سارے معاملات کام کرنا شروع کردیں اور احتجاج کی وجہ سے رکا ہوا معیشت کا پیہ بھی چل پڑے۔ لیکن میری وطن سے محبت مجھے یہ بار بار احساس دلاتی ہے کہ نہیں نہیں یہ تو کچھ بھی مسئلہ نہیں ہے۔ بس 20 دن سے ہی تو معاملات رکے ہوئے ہیں۔ لوگ صرف ریڈ زون میں ہی تو بیٹھے ہیں، لوگوں نے صرف پارلیمنٹ کا گیٹ ہی تو توڑا ہے اور لوگوں نے پی ٹی وی کی نشریات محض آدھے گھنٹے کے لیے ہی تو بند کی ہے۔

مگر کچھ دیر کے لیے جب میں یہی معاملہ کسی اور ملک کے لیے سوچوں کو خیال آتا ہے کہ وہ ملک تو تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر یہی واقعات بھارت یا امریکہ میں ہورہے ہوتے تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی۔ اگر کچھ ہزار مظاہرین دلی پر چڑھ دوڑتے یا پھر وائٹ ہاوس پر قبضہ کرلیتے تو کوئی اور کہے نہ کہے میں تو ضرور یہ بات کہتا کہ یہ ہوئی نہ بات، بس بھارت و امریکہ تو اب ختم ہوگئے۔ جس حکومت سے چند ہزار لوگ نہیں سنبھلتے وہ بھلا ہمارا کیا مقابلہ کرسکیں گے۔ یہ وہ گھمنڈ اور تکبر ہوتا جو مجھے زمین سے آسمان تک پہنچا دیتا۔


لیکن افسوس یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے اور میں نہیں جانتا کہ ہمیں اِس کا احساس بھی ہے کہ نہیں کہ دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھ رہی ہوگی۔ یہ سب کچھ اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی میڈیا کی بھی زینت بن رہا ہے اور اس بات کو موضوع بنایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں مظاہرین کا پاکستان ٹیلی ویژن اور وزیراعظم ہاوس تک پہنچنا اتنا آسان ہے کہ یہ مظاہرین ان عمارات میں داخل ہو کر بھاری نقصان بھی باسانی پہنچا سکتے ہیں؟۔ بین الا قوامی میڈیا پی ٹی وی پر حملے اورپی ٹی وی کی نشریات کو بند کروانے پر حکومت کے مستقبل کو تاریک قرار دے رہاہے۔ جب کسی بھی ملک میں سرکاری ٹی وی چینل پر قبضہ کر لیا جاتا ہے تو اسے حکومت کی کمزوری اور نااہلی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی سرکاری ٹی وی چینل پر حملہ پاکستان کے اندر ناقص سکیورٹی کا ایک اندیہ ہے۔ جہاں سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں مظاہرین سرکاری ٹی وی کو اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں اور کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا کر آرام سے باعزت طریقے سے اپنے مقام پر واپس پہنچ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بین الاقوامی میڈیا کی انگلیاں ہم پر نہ اٹھیں تو اورکیا ہو؟۔ ہم پر بین الاقوامی میڈیا پر ہونے والی باتوں کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ یوں پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر طاہر القادری کے پروکاروں کا حملہ کرنے سے نواز شریف اور حکومت کی رٹ کمزور دیکھائی دیتی ہے۔اگر پی ٹی وی پر حملے کے بعد اب بھی حکومت نے اپنی رٹ قائم نہ کر سکی اور ان سرکاری عمارات کی حفاظت نہ کر سکی تو وزیراعظم کی کمانڈنگ پوزیشن پر پھر سوال اٹھنا شروع ہو جائیں گئے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں انڑنیشنل میڈیا کی رپورٹس پرمنفی تاثر نہیں لینا چایئے بلکہ اپنی اصلاح کرنی چائیے۔ جب بھی کسی سرکاری عمارت پر مظاہرین حملہ کرتے ہیں اس کے بعد ملک کی صورت حال بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہے،اور یہ موجودہ حکومت کی ایک نا اہلی ہوتی ہے اوراگر ہم نے اِس کا احساس نہ کیا تو شاید شرمندگی مزید بڑھ سکتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story