پاکستان ایک نظر میں کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی

جمہوریت کا تحفظ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت موجود ہو۔

جمہوریت کا تحفظ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت موجود ہو ۔ فوٹو اے ایف پی

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے والا ہے۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سے من و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کیشکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا!

اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائل نہیں کر سکتیں لیکن 'ان ' کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔

ہماری حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول بھی ان دھرنوں نے کھول کر رکھ دیا ہے ۔ سارے پنجاب کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں کھودنے تک حکومت نے اپنی حواس باختگی کے نہایت مضحکہ خیز نمونے جگہ جگہ بکھیر دیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کو ناتجربہ کاراور سیاسی نالغ ہونے کا طعنہ دینے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے تین دہائیوں پر پھیلے تجربے کا نچوڑ دیکھ کر قوم دنگ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ن لیگ کے اعصاب پر ابھی تک 12 اکتوبر 1999ء کا آسیب سوار ہے اور اس کے تمام فیصلے اسی کے زیرِ اثر کیے گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے افسروں اور جوانوں کو قربانی کا بکرا بنا کر حکومت نے خود اس سے جس طرح بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اس کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال اس حد تک گر جائے کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوکر حکومت کی احکامات سے روگردانی کرنے لگیں۔ دھرنے کے دوران پولیس افسران کی بار بار تبدیلی نے اس تاثر کو تقویت دی کہ حکومت کا کنٹرول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کمزور پڑ چکا ہے۔ فیصلہ سازی کے فقدان نے حکومت کی رٹ کو متاثر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ساری سیاسی جماعتوں نے جس طرح حکومت اور جمہوریت کے ساتھ جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کی بار بار مداخلت سے تنگ آ کر اس نکتے پر متحد ہو چکی ہیں کہ انہیں ہر حال میں جمہوریت کا تحفظ کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شاہ محمود قریشی کا خطاب بھی یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ پر یلغار کرنے کے اپنے فیصلے پر پشیمان ہے ۔حکومت کو اس موقع پر بڑنے پن کا ثبوت دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کو فیس سیونگ دینی ہو گی ورنہ حالات کو بگاڑنے والے ابھی بھی اس تاک میں بیٹھے ہیں ۔


دوسری جانب ایم کیو ایم کے قائد کا اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان بے وقت کی راگنی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی چال ہے۔اس امر کا تعین چند روز میں ہو جائے گا کہ الطاف حسین کا یہ فیصلہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ہے یا اس کے تانے بانے لندن میں عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں پچھلے دنوں ہونے گرفتاری سے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس اعصاب شکن بحران سے نکلنے کے بعد کچھ سبق سیکھتی ہے یا اپنی پرانی روش برقرار رکھتی ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کا سب سے بڑا اور موثر الزام یہ تھا کہ ن لیگ کی حکومت ایک خاندانی بادشاہت ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ تاہم نواز شریف ا ور ان کی جماعت پر یہ الزام نیا نہیں ان کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی اس کی صدائیں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن عمران خان اور طاہر القادری نے اس پرانے الزام میں جان ڈال دی ہے اور اب ہر شخص خواہ اس کی ہمدردیاں تحریکِ انصاف سے ہیں یا نہیں اس الزام کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔

نواز شریف اوران کی حکومت کے لیے 12 اکتوبر کا بحران موجودہ دھرنوں سے کہیں زیادہ شدید تھا جب انہیں حکومت سے ہاتھ دھو کر ملک بدر ہونا پڑا تھا اگر اس جماعت اور اس کی شاہی قیادت نے اُس مارشل لا سے کچھ نہیں سیکھا تو اب بھی یہ کچھ نہیں سیکھیں گے اور کسی نئے بحران کے انتظار میں خوش فعلیاں کرتے ہوئے وقت گزارتے رہیں گے۔ جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان کے جمہوری رویوں کابھی پردہ چاک ہو گیا ہے اور یہ تلخ حقیقت مزید عیاں ہوگئی ہے کہ ہماری پرانی و نئی تمام سیاسی جماعتیں بنیادی جمہوری قدروں سے عاری ہیں ۔ جمہوریت کا تحفظ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت موجود ہو ۔ جو اپنی جماعت میں برابری نہیں لا سکتے وہ جمہور کو کیا انصاف دیں گے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story