پاکستان میں ان دنوں سیاسی موسم پربرسات چھائی ہوئی ہے۔ حکومت ہویا 'دھرنا پارٹیاں' دونوں جانب سے گرج چمک جاری ہے۔ کبھی کبھی تو نوبت مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور حکومت کی طرف سے شیلنگ کی صورت میں ' ژالہ باری' تک جا پہنچتی ہے لیکن پھر سب کچھ 'نارمل' ہوجاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب دھما چوکڑی سے عام آدمی کو کیا فائدہ ہورہا ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عام آدمی کے توسب سے زیادہ مزے ہیں۔ جہاں چلے جائیں گلی محلے سے لے کر دفتروں تک سب ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ 'انقلاب کہاں تک پہنچا' یا 'نیا پاکستان بن گیا کیا؟'۔ تو جناب ایسے میں کس کوفرصت کے لوڈشیڈنگ کے دکھ یاد کرے یا مہنگائی کا رونا روئے۔ یہ کیا کم نعمت ہے کہ لوگ اپنے مسائل بھول گئے ہیں یہ تو بہت بڑی قومی خدمت ہے۔
اسلام آباد کے باسی ہوں یا پاکستان کے دوسرے شہروں ،گاؤ ں، دیہاتوں میں بسنے والے، شام ہوتے ہی ٹی وی کے سامنے جم کر بیٹھ جاتے ہیں اورقوم کے غم میں گھلنے والے لیڈران کے 'فائیو اسٹار کنٹینرز' سے طلوع ہونے والے جوشیلے خطاب کا انتظارکرنے لگتے ہیں۔
پھر ' خطاب ' بھی ہوتا ہے اور 'کنسرٹ' بھی ۔ سب اپنی اپنی پسند سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ ایسی ورائٹی بھلا پہلے کب تھی زندگی میں۔
اکثر جوشیلی تقریروں کا اختتام انقلاب کی آمد کے لئے دی گئی ڈیڈلائن میں توسیع پرہوتا ہے۔ بیچ بیچ میں روٹھے ہوؤں کومنانے کے لئے دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کی آمد کا تڑکہ بھی لگتا رہتا ہے ۔ ٹی وی کیمروں کی بھرپور توجہ اورمیڈیا کا رونق میلہ ایک ٹکٹ میں دومزے کرادیتا ہے۔
2 ستمبر 2014 کا دن پاکستا ن کے لئے تاریخی رہا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا اور اعتزاز احسن اور جاوید ہاشمی نے حکومت کو اس کی کارکردگی کا آئینہ دکھایا لیکن مثبت انداز میں۔۔جمہوریت کو بچانے کے لئے سب متفق نظر آئے ۔وزیراعظم سمیت حکومتی ارکان نے تقریریں سننی تو سہی لیکن اگر ان سے سبق لے لیں تو آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں۔
اب ذرا احتجاجی لیڈروں کی بھی سن لیں۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی تقریروں کو پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان نے دل پر لے لیا اور اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی ایوان میں جائیں گے اور شاہ محمود قریشی ان تما م 'الزامات' کا جواب دیں گے جو ایوان میں ان کی جماعت پر تابڑ توڑ عائد کئے گئے۔ خان صاحب جوش جذبات میں بھول گئے کہ وہ تو اس پارلیمنٹ کے وجود کو ہی نہیں مانتے اورپی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفی دینا کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔
رہی بات ڈاکٹر صاحب کی تو وہ فی الحال 'ملاقاتوں ' میں مصروف ہیں۔ کنٹینر سے نکلے تو 'عوام کے سمندر' سے خطاب کے لئے تھے لیکن ساؤنڈ سسٹم میں خرابی کی وجہ سے عمران خان سے ان کے 'کنٹینر' میں جاکر ملاقات پر اکتفا کرلیا۔
پاکستانی عوام جمہوریت کا ڈھونڈرا پیٹنے، انقلاب کی نوید سنانے والوں اورنئے پاکستان کا خواب دکھانے والوں سے بس یہی درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں بخش دیں اور پریشانیوں اورمسائل سے بھری ہی سہی ان کے معمولات زندگی واپس لوٹا دیں جو گذشتہ بیس دن سے بھی زیادہ معطل ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔