جمہور یت نے پیمانے توڑ دیے

یہ پارلیمنٹ جمہوریت کے نام پر عوام کو لوٹ رہی ہے اور جب عوام اپنا حق طلب کرتے ہیں۔۔۔


Anis Baqar September 04, 2014
[email protected]

پاکستان میں جمہوریت کی بد ترین شکل موجود ہے، جمہوریت کے جو پیمانے ہیں ان پر یہ کبھی پوری نہ اتری اسی لیے بار بار اس نام نہاد جمہوریت پر شب خون مارا گیا کیوں کہ جمہوریت نے اپنے پیمانے اور میزان خود توڑ دیے۔ انتخابات میں وہ عوام کے محلوں اور دروازوں تک تو اسمبلی کے انتخابات تک گئے مگر انتخابات کے بعد وہ اپنے منشور سے پوری طرح منحرف ہوگئے۔

لہٰذا اپنے وعدے سے مکرنے کی وجہ سے وہ خود اپنا مینڈیٹ کھوچکے، ایک دو وعدے نہیں بلکہ وہ ہر وعدے کو بھول گئے لہٰذا جن وعدوں کو وہ جان بوجھ کر چھوڑ بیٹھے تو پھر وہ کس طرح اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حق دار رہے جب کہ انتخابات کے نتائج این آر او کی روشنی میں تیار ہوئے۔ اگر کسی شخص نے بھی گزشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالے ہوںگے تو انتخابات کی حقیقت اس پر واضح ہوچکی ہوگی کیوں کہ جمہوریت تو مغربی طرز حکومت ضرور ہے مگر اس میں عوام اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہیں ہیں جب کہ پاکستان میں جمہوریت کا احوال یہ ہے کہ بھائی، بھتیجے، داماد، سسر اور دیگر لوگوں کا اجتماع ہی ملک میں جمہوریت کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اس لیے جمہور سے اب یہ کہا جاتا ہے اب انتخابات ختم ہوچکے ہیں۔ اے جمہور اب تیرا خاتمہ ہوچکا ہے تقریباً ایک روپیہ جمہور کے پٹرول پر کم کیا گیا مگر بجلی، چینی اور چائے کی پتی، چاول پر کس قدر اضافہ کیا گیا ہے۔

یہ پارلیمنٹ جمہوریت کے نام پر عوام کو لوٹ رہی ہے اور جب عوام اپنا حق طلب کرتے ہیں تو پھر ان کو لاٹھی مار کر پیچھے کردیا جاتا ہے اور واضح طور پر جمہور کو لاٹھی مار کے ہٹایا جاتا ہے کیا یہ ہے جمہوریت ؟ اس کو جمہوریت کہتے ہیں کیا حکمرانوں اور ان کے ساتھیوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ جمہوریت کے ستون جن ممالک کو کہا جاتا ہے وہاں پر بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کی ضامن حکومت خود ہے جو لوگ آج جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں۔در حقیقت وہ تمام کے تمام لوگ موجودہ حکومت سے فیض یاب ہورہے ہیں ۔

آخر یہ خاندانی جمہوریت کب تک زروجواہر بنانے والی جمہوریت کی آڑ میں کھیل کھیل رہے ہیں اور جو مختلف روزنوں سے شیریں بھی دکھارہے ہیں وہ جمہور کو اسمبلی کے راستے سے ہٹارہے ہیں۔ اگر آج جمہور اسمبلی توڑنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر عوام اس لوٹ مار سے بچ جائیں گے اسی لیے حکومت میں جو لوگ بیٹھ چکے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ عوام بیدار ہو اور عوام کے حقوق غصب کرنے والوں کا احتساب ہو۔ 3 ستمبر کو اپنے ایک پرانے ساتھی حاصل بزنجو کی تقریر سن رہا تھا تو وہ فرمارہے تھے کہ مارچ کی اجازت جو دی گئی مسٹر عمران خان کو اور طاہر القادری کو تو یہ حکومت کا احسان ہے۔

شاید آپ بھول گئے محترم بزنجو صاحب کو بھی جمہوریت کے دور میں غداری کیس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لہٰذا پاکستان میں جمہوریت کا کوئی بھی مثالی درخت نہیں جو عوام کو سکون کا سایہ بخشے۔ بزنجو صاحب آپ کس کی نمایندگی کررہے ہیں آپ کے علاقے سے تو 100 ووٹوں سے کم ووٹ حاصل کرنے والے الیکشن کے نمایندے منتخب ہوئے ۔ بزنجو صاحب آپ نے اگر ماؤزے تنگ جیسی شرٹ پہن لی تو آپ ہرگز انقلابی نہیں آپ نے غوث بخش بزنجو مرحوم کی روح کو شرمندہ کردیا۔

یہ حکومت اگر عوام کے حقوق کو یوں ہی روندتی رہی اور فریب کاری کرتی رہی تو آپ کو کچھ نہ ملے گا مگر اس وقت ہر شخص یہ جانتا ہے کہ حکومت کی تابع داری کرنے اصل میں حکومت کے Share Holder شیر ہولڈر ہیں۔ یہ اسمبلی کا ایوان نظر نہیں آتا یہ اسٹاک مارکیٹ کی شکل و صورت تھی۔ حاصل بزنجو صاحب! آپ سے یہ توقع نہ تھی آپ نے فرمایا کہ اگر لانگ مارچ کی اجازت نہ ملتی جناب لانگ مارچ کی اجازت کو پرویز مشرف کو دینی پڑگئی جناب عالی آپ یہ کیوں بھول گئے کہ آپ کی اسمبلی کا اجلاس فوج کی مہربانی کا نتیجہ ہے ورنہ آپ اسلام آباد نہ جاسکتے تھے۔ کیا آپ نے اپنے پرانے ساتھی حبیب جالب کا یہ مصرع نہیں سنا ہے:

کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
اور ساحر لدھیانوی کی یہ آواز
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے

حضور عالی! آپ ابھی 1970 میں ہی قیام کررہے ہیں مجھے فضل الرحمن صاحب سے کوئی شکایت نہیں گو کہ محترم مفتی محمود صاحب کے گھر کی چائے نصیب ہوئی اور مارشل لاء میں قید و بند بھی کئی بار ملی۔ سروں پر لاٹھی بھی کھائی مگر ایسے سیاسی رہنما نہ دیکھے جو آج دیکھ رہا ہوں ۔ جہاں تک محمود اچکزئی کی بات ہے تو یہ قابل رشک رہنما عبدالصمد اچکزئی کی باتیں بھی بھول گئے جنھوں نے جناح روڈ پر اپنے دوستوں کو تعلیم دی کہ پاکستان کے فرسودہ سسٹم کو پٹڑی سے اتار کر پھینک دیں ۔ یہ 1972 کی بات ہے ابھی تاریخ بھلائی نہیں جاسکتی۔

افسوس! نئی نسل نے مفتی محمود، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، خان عبدالغفار خان کے آدرشوں کو بھلادیا ، اب پرمٹ زمین اور زر گری کی سیاست باقی رہ گئی ہے اور سوشلسٹ خیال کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف اگر مضبوط ہوگئے تو کراچی سے بنگلہ دیش تک Ferryچھوٹے پانی کے جہاز چلیں گے۔ زبردست معاشی انقلاب آنے والا ہے مگر ان کو کیا معلوم کہ یہ بھارت پنڈت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی کی حکومت نہیں۔ ان لیڈروں نے پاکستان کے اثاثے تقسیم کرنے کی حمایت کی تھی اور مہاتما گاندھی نے تو مرن برت کا اعلان کردیا تھا یعنی تادم مرگ بھوک ہڑتال یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ جلد ہی دونوں جناب کی لیڈر شپ نہ رہی اور تعلقات شانتی کا سفر نہ کرسکے مگر بھارت کی موجودہ لیڈر شپ اس کے ہاتھ ہے جس نے مسلم کش فسادات میں مثال قائم کی تھی۔

یقینا بھارت سے تعلقات ہر ذی فہم بہتر چاہتا ہے مگر مصنوعی تجارتی تعلقات ہم بھی کراچی تا ممبئی فیری کی آمد و رفت کے خواہاں ہیں مگر ایسا نہیں دست نگر، یا زیردست بن کر اس مسئلے کو ن لیگ ہوا دیتی ہے۔ شاعر و ادیب دانشور سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی آڑ میں اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کیا معنی۔ موجودہ اسمبلی غربت بڑھاؤ کا ایک ادارہ ہے مفاد پرست طبقہ زبان کی کشتی چلا رہا ہے ۔ اگر اسمبلی میں کوئی تھوڑی بہت بامعنی تقریر کی ہے تو وہ اعتزاز احسن کی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب پی پی پی اور سندھ پی پی پی کے درمیان ایک تھوڑی سی دوری ہے چوں کہ پنجاب پی پی پی کو ن لیگ سے نظر انداز اور نقص امن کا خطرہ رہتا ہے اب اگر کوئی موجودہ گھیراؤ کو غیر جمہوری کہتا ہے تو ابھی سال بھر بھی نہ ہوا کہ یوکرین کی حکومت بالکل اسی طرح گھر چلی گئی اور امریکا، برطانیہ نے اس کی پذیرائی کی مگر پاکستان کے لیے فارمولا الگ ہے کیوں کہ موجودہ حکومت این آر او کی پیداوار ہے یہ جمہوریت غیر ملکی پیداوار ہے۔

ظاہر ہے اس کے مفادات بھی ملکی نہیں ہیں، اس وقت سوئس بینک کے ایک افسر کا یہ کہنا کتنا درست ہے جس کے بقول پاکستان ایک امیر ملک ہے جس کے اربوں ڈالر سوئس بینک میں جمع ہیں۔ جمہوریت کے معنی پاکستانی حکمرانوں کو بتانے ہوں گے۔ عوام کو حکومت کو ایک لسٹ دینی ہوگی اور اس کے لیڈر سے کم از کم بنیادی ضروریات کے ریٹ لسٹ پر دستخط لینے ہوں گے جس میں گندم، آٹا، خوردنی تیل، دالیں، دودھ، گیس، بجلی، چینی وغیرہ اور اگر حکومت اس سے انحراف کرے تو حکومت کا گھیراؤ ضروری ہے۔

طاہر القادری اور عمران خان نے جو روایت شروع کی ہے گو کہ یہ خود ان کے لیے ایک طوق ہے پھر بھی انھوں نے پہننا قبول کیا ہے یہ بات بالکل قابل یقین ہے کہ اگر طاہر القادری اور عمران خان تصادم کا اشارہ کردیتے تو لاشیں ضرور گرتیں مگر نظام حکومت نئے سرے سے تعمیر ہوتا۔ لہٰذا ان لیڈروں نے صبر کا دامن تھام رکھا اور ملک کو خونریز انقلاب سے دور رکھا۔ چند خاندانوں اور چند لیڈروں کے گھروں کی سیاست کا دور گیا۔ جاوید ہاشمی صاحب کو عمران خان کے ساتھ پلان کیا گیا تھا یہ ایک نہایت قدیم عمل ہے جیسا کہ انھوں نے ثابت کیا اور اپنی سیاست کی جڑوں کو زہر آلود کردیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے شاہ محمود قریشی کا انداز بھی تشویشناک ہے کیوں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو اسی حالت میں رکھنے کی قائل نظر آتے ہیں اور بقول الطاف حسین کے اسمبلی میں بیٹھے لوگ تقریروں کے جوہر دکھارہے ہیں۔ بھلا ان کو عوامی حقوق سے کیا سروکار ۔ لہٰذا جمہور کو ہٹانے والے حکمراں جمہور ِہٹ طرز حکمرانی کو زیادہ دیر نہ چلاسکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں