مداخلت کار
فوج کو اس لحاظ سے ایک ’’بے زبان‘‘ ادارہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرنے سے گریز کرتی ہے
ابھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور تا اسلام آباد لانگ مارچ کا قصد بھی نہ کیا تھا کہ بعض خبروں، تجزیوں اور کالموں میں یہ مضامین باندھے جانے لگے کہ ان دونوں صاحبان کو اسٹیبلشمنٹ کی پُشت پناہی حاصل ہے۔ ''آزادی'' اور ''انقلاب'' مارچ کرنے والوں نے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا سجایا اور یہ تین ہفتوں کو محیط ہوتا گیا تو سیکیورٹی فورسز اور اس کی سینئر قیادت کے خلاف پروپیگنڈہ بازوں کی یہ لَے بھی تیز تر ہو گئی کہ احتجاج کنندگان کو فوج کی ہلہ شیری حاصل ہے۔
اس پروپیگنڈے نے فضا کو خاصا آلودہ کیا ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک ''باغی'' نے اپنی پریس کانفرنس میں فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے پی ٹی آئی کے چیئرمین پر جو تہمتیں لگائیں، اس کی بازگشت تو بہت شدت سے اور دور تک سنائی دی گئی۔ ایسے میں افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، کی طرف سے پُر زور الفاظ میں کہا گیا کہ فوج قطعی طور پر ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، پاکستان کی سلامتی کے لیے جانیں قربان کرنا اس کا شیوہ اور فرض ہے؛ چنانچہ ذہن صاف کر لیے جائیں کہ فوج سیاست میں ہر گز مداخلت کر رہی ہے نہ اس بارے میں یہ ادارہ کوئی خواہش ہی رکھتا ہے۔ اس اعلان کے باوصف بعض سرکاری بھونپو مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہنوذ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ 3 ستمبر 2014ء کو شایع ہونے والے ''ایکسپریس فورم'' میں بھی یہ بات کہی گئی کہ فوج پر بے جا تنقید درست اور مناسب نہیں ہے۔
فوج کو اس لحاظ سے ایک ''بے زبان'' ادارہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات اور اتہامات کی بار بار تردید کرنے سے بوجوہ گریز کرتی ہے۔ بعض سیاسی ادارے اور مقتدر سیاستدان اسے فوج کی کمزوری خیال کرتے ہوئے مزید شیر ہو جاتے ہیں۔ اس رویے پر تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران افواجِ پاکستان پر سیاستِ پاکستان میں مداخلت کے حوالے سے الزامات کی جو سنگباری کی گئی ہے، ان میں امریکی میڈیا نے بھی اپنا ایک قابلِ مذمت کردار ادا کیا ہے۔
حکومت میں موجود بعض سینئر مقتدرین نے ان امریکی خبروں اور امریکی حکومت کے بیانات کو اپنی حمایت سمجھتے ہوئے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے احتیاط اور تہذیب کا دامن نہیں تھاما۔ شمالی امریکا کے بعض اخبارات نے ہماری سیکیورٹی فورسز پر تجزیوں کے لبادے میں بدتمیزی کرتے ہوئے ہر حد ہی پار کر لی۔ مثال کے طور پر کینیڈین اخبار ''نیشنل پوسٹ'' نے 26 اگست 2014ء کو جوزف برین(Joseph Brean) کا جو نام نہاد تجزیہ شایع کیا، یہ بددیانتی اور جانبداری کی ایک زندہ مثال ہے۔
جوزف برین نے صاف الفاظ میں یہ بیہودہ الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ''افواجِ پاکستان کا ساتھ'' میسر ہے۔ تہمت بازی میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ 28 اگست 2014ء کو نیویارک سے شایع ہونے والے اخبار ''وال اسٹریٹ جرنل'' نے پوری کر دی جس کی سرخی ہی میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا: ''پاکستان آرمی چیف کی سیاسی بحران میں مداخلت کا آغاز ہو گیا۔'' امریکا اور مغربی ممالک، جن میں بھارت بھی شامل ہے، کی ہمیشہ سے یہ تمنا رہی ہے کہ افواجِ پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کو بے توقیر کیا جائے۔ یہ خواہش انشاء اللہ کبھی پوری نہ ہو گی لیکن اس کا کیا علاج کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہمارے ہی کئی دانشوروں اور مصنفوں نے، کتابوں کی شکل میں، توپوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔
ایک پاکستانی جو امریکی یونیورسٹی میں ٹیچر ہیں۔ ان کے کئی مضامین عالمی شہرت یافتہ امریکی جریدے FOREIGN AFFAIRS میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ جریدہ اکثر ان پاکستانی نژاد امریکیوں کے آرٹیکل بڑے اہتمام سے شایع کرتا ہے جو ہمارے عسکری اداروں کے خلاف لکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ان کا ایک مفصل آرٹیکل جو ''فارن افیئرز'' کے ایک گزشتہ شمارے میں شایع ہوا، اس میں دانستہ اس موضوع پر بحث کی گئی تھی کہ افواجِ پاکستان کو پاکستانی سیاست اور سویلین اداروں سے کیسے نکال باہر کیا جا سکتا ہے؟ انھی صاحب نے اپنی تازہ کتاب بعنوان THE ARMY AND DEMOCRACY: MILITARY POLITICS IN PAKISTAN میں ان سے جتنا ممکن ہو سکا ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف گند اچھالا ہے۔ اسی کتاب کے حوالے سے ان کا ایک انٹرویو پاکستان سے شایع ہونے والے ایک انگریزی ہفت روزہ جریدے (اشاعت 29 اگست تا 4 ستمبر 2014ء) میں شایع ہوا ہے۔
اس میں بھی موصوف نے افواجِ پاکستان کی سیاستِ پاکستان میں مبینہ مداخلت کے خلاف دل کی خوب بھڑاس نکالی ہے۔ سوالات کے جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ''اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں فوجی افسروں کو بین السطور تربیت دی جاتی ہے کہ سیاست میں ملفوف مداخلت کیسے کی جانی چاہیے۔۔۔ نیشنل سیکیورٹی کے زیرِ عنوان انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ سیاستدانوں پر کیسے نظر رکھی جائے تا کہ بوقتِ ضرورت ان کا ناطقہ بند کیا جا سکے۔۔۔ فوج کو پاکستانی سیاست سے نکالنے کے لیے ترکی کے موجودہ حکمرانوں کے اقدامات سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ ترکی نے فوجی جرنیلوں پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی کا تو بالکل خاتمہ کر دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل عرف DCC میں فوجی جرنیلوں کی شمولیت ایک غلطی ہے۔۔۔ پاکستانی سویلین حکمران برازیل سے بھی درس لے سکتے ہیں کہ جس نے دو عشرے لگا دیے اپنی سیاست میں فوجی مداخلت کے خاتمے میں۔۔۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ امریکا، افغانستان اور بھارت کے حوالے سے بننے والی پالیسیوں پر افواجِ پاکستان کی گرفت اب بھی مضبوط و مستحکم ہے۔'' یہ پاکستانی لکھاری اس سے آگے بڑھ کر یہ تہمت بھی عائد کرتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نجی ٹی وی چینلز میں اپنے بندے داخل کر کے منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور ناکام بنانے کی سازشیں بھی کرتی ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ''پاکستان تحریکِ انصاف'' اور ''پاکستان عوامی تحریک'' بیک وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف باہر نکلی ہیں۔ اس انٹرویو میں صاف عیاں ہو رہا ہے کہ موصوف افواجِ پاکستان کے خلاف طے شدہ امریکی پالیسی کو ''دانش و تجزیے'' کے نرم پردے میں لپیٹ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان ایسے تجزیوں پر بغلیں کیوں نہ بجائیں؟
ایک امریکی سیاسی مبصر جان واٹر بری (John Waterbury) نے ان کی افواجِ پاکستان کے خلاف لکھی گئی کتاب پر نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومتوں کو بہر صورت پاکستانی فوج کی ''آہنی گرفت سے آزاد ہونا'' ہو گا۔ جان واٹر بری نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر افواجِ پاکستان کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی، مغربی اور بھارتی پالیسی سازوں کو اصل دکھ اور پریشانی یہی ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے افواجِ پاکستان کی نگرانی میں کیوں ہیں؟ بھارت اور امریکیوں کا یہ دکھ جنرل ضیاء سے لے کر جنرل راحیل شریف تک مسلسل چلا آ رہا ہے۔
THE ARMY AND DEMOCRACY کے مصنف نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لکھی گئی اپنی کتاب میں امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ افواجِ پاکستان پر تسلسل سے اپنا دباؤ بڑھاتا رہے۔ مذکورہ کتاب میں ''آئی ایس آئی'' پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کئی ناقابلِ ذکر الزامات کی کالک بھی ملنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ستمبر 2014ء کے پہلے ہفتے کے دوران امریکا نے پاکستان کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے جو بیانات دیے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ کتاب میں دیے گئے مشوروں پر عمل پیرا ہونے لگا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی بیانات اور شہ پر ہی افواج پاکستان کی سینئر قیادت کے خلاف سنگین الزامات لگا کر پاکستان کی فضا کو نہ صرف مکدر کیا گیا ہے بلکہ سول ملٹری تعلقات کو زک اور گزند پہنچانے کی بھی سازش کی گئی ہے۔
اس پروپیگنڈے نے فضا کو خاصا آلودہ کیا ہے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک ''باغی'' نے اپنی پریس کانفرنس میں فوج کی سیاست میں مبینہ مداخلت کے حوالے سے پی ٹی آئی کے چیئرمین پر جو تہمتیں لگائیں، اس کی بازگشت تو بہت شدت سے اور دور تک سنائی دی گئی۔ ایسے میں افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، کی طرف سے پُر زور الفاظ میں کہا گیا کہ فوج قطعی طور پر ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، پاکستان کی سلامتی کے لیے جانیں قربان کرنا اس کا شیوہ اور فرض ہے؛ چنانچہ ذہن صاف کر لیے جائیں کہ فوج سیاست میں ہر گز مداخلت کر رہی ہے نہ اس بارے میں یہ ادارہ کوئی خواہش ہی رکھتا ہے۔ اس اعلان کے باوصف بعض سرکاری بھونپو مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہنوذ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ 3 ستمبر 2014ء کو شایع ہونے والے ''ایکسپریس فورم'' میں بھی یہ بات کہی گئی کہ فوج پر بے جا تنقید درست اور مناسب نہیں ہے۔
فوج کو اس لحاظ سے ایک ''بے زبان'' ادارہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات اور اتہامات کی بار بار تردید کرنے سے بوجوہ گریز کرتی ہے۔ بعض سیاسی ادارے اور مقتدر سیاستدان اسے فوج کی کمزوری خیال کرتے ہوئے مزید شیر ہو جاتے ہیں۔ اس رویے پر تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران افواجِ پاکستان پر سیاستِ پاکستان میں مداخلت کے حوالے سے الزامات کی جو سنگباری کی گئی ہے، ان میں امریکی میڈیا نے بھی اپنا ایک قابلِ مذمت کردار ادا کیا ہے۔
حکومت میں موجود بعض سینئر مقتدرین نے ان امریکی خبروں اور امریکی حکومت کے بیانات کو اپنی حمایت سمجھتے ہوئے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لب کشائی کرتے ہوئے احتیاط اور تہذیب کا دامن نہیں تھاما۔ شمالی امریکا کے بعض اخبارات نے ہماری سیکیورٹی فورسز پر تجزیوں کے لبادے میں بدتمیزی کرتے ہوئے ہر حد ہی پار کر لی۔ مثال کے طور پر کینیڈین اخبار ''نیشنل پوسٹ'' نے 26 اگست 2014ء کو جوزف برین(Joseph Brean) کا جو نام نہاد تجزیہ شایع کیا، یہ بددیانتی اور جانبداری کی ایک زندہ مثال ہے۔
جوزف برین نے صاف الفاظ میں یہ بیہودہ الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ''افواجِ پاکستان کا ساتھ'' میسر ہے۔ تہمت بازی میں جو کسر رہ گئی تھی، وہ 28 اگست 2014ء کو نیویارک سے شایع ہونے والے اخبار ''وال اسٹریٹ جرنل'' نے پوری کر دی جس کی سرخی ہی میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا: ''پاکستان آرمی چیف کی سیاسی بحران میں مداخلت کا آغاز ہو گیا۔'' امریکا اور مغربی ممالک، جن میں بھارت بھی شامل ہے، کی ہمیشہ سے یہ تمنا رہی ہے کہ افواجِ پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کو بے توقیر کیا جائے۔ یہ خواہش انشاء اللہ کبھی پوری نہ ہو گی لیکن اس کا کیا علاج کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے خلاف ہمارے ہی کئی دانشوروں اور مصنفوں نے، کتابوں کی شکل میں، توپوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔
ایک پاکستانی جو امریکی یونیورسٹی میں ٹیچر ہیں۔ ان کے کئی مضامین عالمی شہرت یافتہ امریکی جریدے FOREIGN AFFAIRS میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ مذکورہ جریدہ اکثر ان پاکستانی نژاد امریکیوں کے آرٹیکل بڑے اہتمام سے شایع کرتا ہے جو ہمارے عسکری اداروں کے خلاف لکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر ان کا ایک مفصل آرٹیکل جو ''فارن افیئرز'' کے ایک گزشتہ شمارے میں شایع ہوا، اس میں دانستہ اس موضوع پر بحث کی گئی تھی کہ افواجِ پاکستان کو پاکستانی سیاست اور سویلین اداروں سے کیسے نکال باہر کیا جا سکتا ہے؟ انھی صاحب نے اپنی تازہ کتاب بعنوان THE ARMY AND DEMOCRACY: MILITARY POLITICS IN PAKISTAN میں ان سے جتنا ممکن ہو سکا ہے، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف گند اچھالا ہے۔ اسی کتاب کے حوالے سے ان کا ایک انٹرویو پاکستان سے شایع ہونے والے ایک انگریزی ہفت روزہ جریدے (اشاعت 29 اگست تا 4 ستمبر 2014ء) میں شایع ہوا ہے۔
اس میں بھی موصوف نے افواجِ پاکستان کی سیاستِ پاکستان میں مبینہ مداخلت کے خلاف دل کی خوب بھڑاس نکالی ہے۔ سوالات کے جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ''اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں فوجی افسروں کو بین السطور تربیت دی جاتی ہے کہ سیاست میں ملفوف مداخلت کیسے کی جانی چاہیے۔۔۔ نیشنل سیکیورٹی کے زیرِ عنوان انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ سیاستدانوں پر کیسے نظر رکھی جائے تا کہ بوقتِ ضرورت ان کا ناطقہ بند کیا جا سکے۔۔۔ فوج کو پاکستانی سیاست سے نکالنے کے لیے ترکی کے موجودہ حکمرانوں کے اقدامات سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ ترکی نے فوجی جرنیلوں پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی کا تو بالکل خاتمہ کر دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل عرف DCC میں فوجی جرنیلوں کی شمولیت ایک غلطی ہے۔۔۔ پاکستانی سویلین حکمران برازیل سے بھی درس لے سکتے ہیں کہ جس نے دو عشرے لگا دیے اپنی سیاست میں فوجی مداخلت کے خاتمے میں۔۔۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ امریکا، افغانستان اور بھارت کے حوالے سے بننے والی پالیسیوں پر افواجِ پاکستان کی گرفت اب بھی مضبوط و مستحکم ہے۔'' یہ پاکستانی لکھاری اس سے آگے بڑھ کر یہ تہمت بھی عائد کرتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نجی ٹی وی چینلز میں اپنے بندے داخل کر کے منتخب حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے اور ناکام بنانے کی سازشیں بھی کرتی ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ''پاکستان تحریکِ انصاف'' اور ''پاکستان عوامی تحریک'' بیک وقت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف باہر نکلی ہیں۔ اس انٹرویو میں صاف عیاں ہو رہا ہے کہ موصوف افواجِ پاکستان کے خلاف طے شدہ امریکی پالیسی کو ''دانش و تجزیے'' کے نرم پردے میں لپیٹ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان ایسے تجزیوں پر بغلیں کیوں نہ بجائیں؟
ایک امریکی سیاسی مبصر جان واٹر بری (John Waterbury) نے ان کی افواجِ پاکستان کے خلاف لکھی گئی کتاب پر نہایت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومتوں کو بہر صورت پاکستانی فوج کی ''آہنی گرفت سے آزاد ہونا'' ہو گا۔ جان واٹر بری نے یہ بھی لکھا ہے کہ پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر افواجِ پاکستان کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے۔ امریکی، مغربی اور بھارتی پالیسی سازوں کو اصل دکھ اور پریشانی یہی ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے افواجِ پاکستان کی نگرانی میں کیوں ہیں؟ بھارت اور امریکیوں کا یہ دکھ جنرل ضیاء سے لے کر جنرل راحیل شریف تک مسلسل چلا آ رہا ہے۔
THE ARMY AND DEMOCRACY کے مصنف نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف لکھی گئی اپنی کتاب میں امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ افواجِ پاکستان پر تسلسل سے اپنا دباؤ بڑھاتا رہے۔ مذکورہ کتاب میں ''آئی ایس آئی'' پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کئی ناقابلِ ذکر الزامات کی کالک بھی ملنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ستمبر 2014ء کے پہلے ہفتے کے دوران امریکا نے پاکستان کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے جو بیانات دیے، محسوس یوں ہوتا ہے کہ کتاب میں دیے گئے مشوروں پر عمل پیرا ہونے لگا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی بیانات اور شہ پر ہی افواج پاکستان کی سینئر قیادت کے خلاف سنگین الزامات لگا کر پاکستان کی فضا کو نہ صرف مکدر کیا گیا ہے بلکہ سول ملٹری تعلقات کو زک اور گزند پہنچانے کی بھی سازش کی گئی ہے۔