دھرتی
نہانے کے بعد واپسی پر کیکر اورکنڈی کے سایہ دار درختوں کے نیچے سانس لیتے۔۔۔
زیادہ دور نہیں جاتے ، کوئی ستر اسی کی دہائیوں کی بات ہے ، جو میرے بچپن کے دن بھی تھے ۔ میرے گاؤں کی گلیاں کشادہ،گھر ایک دوسرے سے دور دور تک تھے ، ان گھروں کے درمیاں میں سے کچھ ایسے راستے ہوتے تھے جوگھروں سے نکل کر جھاڑیوں کی طرف جاتے تھے ، جب ساون کی برساتیں پڑتیں تو ان کا پانی ان ہی راستوں سے نکل کر جھاڑیوں کی طرف بڑھ جاتا، تب گاؤں کی آبادی بھی اتنی نہ تھی۔ یہ پانی جھاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے جوہڑوں کی شکل میں جمع ہوجاتا درخت، پودے اور جنگلی پھول کھل اٹھتے ، پانی میں موجود مچھلی، مگرمچھ، کچھوے بھی خوشیاں مناتے ، جانوروں اور پرندوں کی ایک بڑی دنیا آباد ہوتی، تیتر، فاختائیں، کوئل، طوطے چہچہاتے ۔
گیدڑ، خرگوش، جنگلی بلے ادھر سے ادھر دوڑتے رہتے ، یوں اس جھاڑیوں والے جنگل میں رونق رہتی۔ اسی جنگل کے قریب ایک نہر بہتی جس کا تازہ پانی جوھڑوں میں جاکر آبی زندگی کو ایک نیا روپ دیتا، ہم لوگ کبھی کبھی اس نہر پر نہانے کے لیے ان ہی جھاڑیوں سے گزرتے تو ان میں موجود گھونسلوں میں موجود انڈوں کو دیکھتے ہی بچگانہ شرارت میں توڑتے اور بعد میں پچھتاوا ہوتا کہ ان معصوموں کے انڈے کیوں توڑے ۔ قریب میں موجود نہر کے کنارے سوراخوں میں موجود فاختائیں اڑاتے اور نہر میں سے پانی کے گھونٹ بھرتے کوؤں کا شور سنتے ۔
نہانے کے بعد واپسی پر کیکر اورکنڈی کے سایہ دار درختوں کے نیچے سانس لیتے ۔ جب ساون کی سخت گرمی میں شمال مشرق سے سفید اور کالے بادل اٹھتے تو ہر طرف شور مچ جاتا، عورتیں جلانے کی لکڑیوں کو گیلا ہونے سے بچانے کے لیے گھروں میں اندر رکھتیں، مرد مال مویشی کے گھاس کو کسی محفوظ جگہ رکھتے ، جب کہ کوئل کوکو کرتی ایک درخت سے دوسرے درخت بیٹھتی مٹی اور تنکوں کے بنے ہوئے گھروں کی چھتوں کو چکنی مٹی سے بند کیا جاتا تا کہ برسات کا پانی اندر گھروں میں نہ آسکے ۔ پھر اچانک آسمان پرگرج چمک ظاہر ہوتی تو نظارا ہی تبدیل ہوجاتا، ہم لوگ اس ننگے جسم برسات میں نہاتے،کھیلتے کھودتے پھر بارش تھم جاتی تو ہرطرف مٹی سے صاف ہرے پودے اور درخت اور ان پر بیٹھے ہوئے ، خاموش پرندے نظر آتے، درختوں پر موجود اڑنے سے قاصر پرندوں کو مٹی کے گولے مارتے اور بچارے پرندے کسی اور قریبی درخت پر جا بیٹھتے یا پھر نیچے گرجاتے اور ہم ان حلال پرندوں کو ہنڈیوں کی رونق بناتے ۔ صبح سویرے اٹھتے تو دل کش مناظر دیکھنے کو ملتے ۔
گاؤں کی عورتیں، مٹکے سروں اور بغل پر رکھ کر قطار میں ہرے بھرے کھیتوں سے گذرکر نہر سے پانی بھر کر لاتیں اور اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے نیم کے درختوں کے نیچے رکھتیں۔ کئی لوگ بھینسوں اور بکریوں کو چرانے نہر پار والے جنگل میں لے جاتے اور شام کو سورج کی سرخ روشنی میں واپس لے آتے ۔کبھی کبھی رس بھری لذیذ شہد بھی جھاڑیوں سے اتار کر لے آتے ، جب کہ ملازمت پیشہ اور زمیندارا کرنیوالے لوگ شام کو مختلف مقامی کھیل کھیلتے ، لوگوں کے سامنے اپنی پہلوانی کا لوہا منواتے اور رات کو ہر گھر کے چولہے پر ان کی پہلوانی کی باتیں لوگوں کی زبان پر ہوتیں۔ نہر کے ساتھ ساتھ انگریز دور کے شیشم، کیکر وغیرہ کے درخت لہراتے اور ہم لوگ کبھی کبھی ان درختوں پر چڑھنے کا مقابلہ بھی کرتے ، پھر نہر کے پانی میں ڈبکیاں لگاتے اور تیرتے ۔
سردیوں کی لمبی راتوں میں بوڑھے اور بوڑھیاں چولہے کی آگ پر بیٹھ کر لوک قصے سناتے، یوں پورا ماحول توازن میں رہتا، ہر قدرت کی تبدیلی اپنے وقت پر آتی، اس کی تیاریاں وقت سے پہلے کی جاتیں،خوامخواہ کی بیماریاں نہ پریشانیاں ہوتی تھیں۔ وقت بدلتا گیا، لوگ بڑھتے گئے لگژری لائف نے چہرہ دکھایا تو لوگوں کے دلوں میں بھی لالچ پیدا ہونے لگی۔
یوں پانی کے جوہڑ، ہرا بھرا جنگل، اس رہنے والی مخلوقات سب آہستہ آہستہ مٹتے گئے ، اور تو اور گھروں کے درمیان نکلنے والے راستے بھی قبضے کی لپیٹ میں آتے رہے ، زمین کے دو فٹ ٹکڑے پر بھی ایک بھائی کے دوسرے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈلتے رہے ، بچارے سرسبز درخت کلہاڑیوں کی زد میں آکر گھروں کے چولہوں کا ایندھن بنتے رہے،کئی پرندے خاص طور پر طوطے الوداع کرگئے ، شہد کی مکھیاں دور دور تک نظر نہ آنے لگیں، اگر کوئی شہد کا چھتہ مل بھی گیا تو رس نام کی کوئی چیز نہ ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا کچھ اجڑ گیا۔ باقی نہر کے کنارے تھوڑے درخت بچے جو نہر کے پشتوں کو قابو کرکے رکھنے کے ساتھ پانی کی سیپیج کو بھی کنٹرول کرتے ، جب ظالموں نے سب کچھ تباہ کردیا تو ان کی آنکھیں ان درختوں پر جا کے ٹکیں، بااثر لکڑی مافیا اور طاقتور وڈیروں کی ملی بھگت نے ان درختوں کو بھی نہ چھوڑا، انھیں کاٹ کر دھرتی ننگی کردی۔ وہ جو موسموں کا ٹھہراؤ، پانی کی تازگی دھرتی کا سنگھار ماحول کی ٹھنڈک برساتی پانی کا بہتر اخراج سب کے سب روٹھ کے چلے گئے ۔ اب کیمیائی کھادوں، کیڑے مار دواؤں، گھروں میں سے بہتے ہوئے گندے اور بدبودار برساتی پانی، گندگی کے ڈھیروں کا بول بالا ہے ۔
البتہ تنکے کے گھروں کی بجائے اکثریت پکے گھروں کی ہے لیکن اور سارے امراض ایک گھر سے دوسرے گھر پھیلتے جاتے ہیں۔ تھوڑی برسات پڑے تو گاؤں ڈوبنے لگتا ہے ، پانی سے لے کر خوراک تک آلودگی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں،کبھی آسمان برستا نہیں اورکبھی ایسے پھٹ پڑتا ہے ، جیسے دھرتی اپنے ننگے پن پے زاروقطار روتی ہو۔ مقامی لوگ حیران وپریشان ہیں کہ مئی میں کیکر کے پھلیوں کو گرانے والی جھکڑ اب اس مہینے میں مستقل کیوں نہیں لگتی، جون جولائی میں پڑنے والی برساتیں، اب اگست اور ستمبر میں غضب کیوں ڈھاتی ہیں۔ گرمیاں اب اگست اور ستمبر تک تباہ کن کیوں ہوتی ہیں۔ سردیوں میں وہ شدت کیوں نہیں رہی۔
زمینیں اپنی زرخیزی کیوں کھو بیٹھی ہیں ، کھاد کے بغیر ایک تنکا بھی کیوں نہیں اگتا، ایسے کئی سوال جو آج کل لوگوں کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر اسباب بھی نہیں جانتے، جو جانتے ہیں وہ سرکش ہیں، طاقتور ہیں اور دھرتی کی بجائے،اپنی دولت سے پیار ہے ۔ خدارا ، جس دھرتی کے بارے میں مائیں تمہیں اپنی گود میں گیت سناتی تھیں، تم اس دھرتی کے دشمن کیوں بن گئے ہو۔آج بھی میں جب اپنے گھر سے ان زمینوں اور نہر کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے ننگے پن کا فریاد کر رہی ہوں۔ کاش! ہم ان لوگ ان کی دہائی سن لیں اور مل کر اس دھرتی کو دوبارہ سرسبز و شاداب بنائیں۔
گیدڑ، خرگوش، جنگلی بلے ادھر سے ادھر دوڑتے رہتے ، یوں اس جھاڑیوں والے جنگل میں رونق رہتی۔ اسی جنگل کے قریب ایک نہر بہتی جس کا تازہ پانی جوھڑوں میں جاکر آبی زندگی کو ایک نیا روپ دیتا، ہم لوگ کبھی کبھی اس نہر پر نہانے کے لیے ان ہی جھاڑیوں سے گزرتے تو ان میں موجود گھونسلوں میں موجود انڈوں کو دیکھتے ہی بچگانہ شرارت میں توڑتے اور بعد میں پچھتاوا ہوتا کہ ان معصوموں کے انڈے کیوں توڑے ۔ قریب میں موجود نہر کے کنارے سوراخوں میں موجود فاختائیں اڑاتے اور نہر میں سے پانی کے گھونٹ بھرتے کوؤں کا شور سنتے ۔
نہانے کے بعد واپسی پر کیکر اورکنڈی کے سایہ دار درختوں کے نیچے سانس لیتے ۔ جب ساون کی سخت گرمی میں شمال مشرق سے سفید اور کالے بادل اٹھتے تو ہر طرف شور مچ جاتا، عورتیں جلانے کی لکڑیوں کو گیلا ہونے سے بچانے کے لیے گھروں میں اندر رکھتیں، مرد مال مویشی کے گھاس کو کسی محفوظ جگہ رکھتے ، جب کہ کوئل کوکو کرتی ایک درخت سے دوسرے درخت بیٹھتی مٹی اور تنکوں کے بنے ہوئے گھروں کی چھتوں کو چکنی مٹی سے بند کیا جاتا تا کہ برسات کا پانی اندر گھروں میں نہ آسکے ۔ پھر اچانک آسمان پرگرج چمک ظاہر ہوتی تو نظارا ہی تبدیل ہوجاتا، ہم لوگ اس ننگے جسم برسات میں نہاتے،کھیلتے کھودتے پھر بارش تھم جاتی تو ہرطرف مٹی سے صاف ہرے پودے اور درخت اور ان پر بیٹھے ہوئے ، خاموش پرندے نظر آتے، درختوں پر موجود اڑنے سے قاصر پرندوں کو مٹی کے گولے مارتے اور بچارے پرندے کسی اور قریبی درخت پر جا بیٹھتے یا پھر نیچے گرجاتے اور ہم ان حلال پرندوں کو ہنڈیوں کی رونق بناتے ۔ صبح سویرے اٹھتے تو دل کش مناظر دیکھنے کو ملتے ۔
گاؤں کی عورتیں، مٹکے سروں اور بغل پر رکھ کر قطار میں ہرے بھرے کھیتوں سے گذرکر نہر سے پانی بھر کر لاتیں اور اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے نیم کے درختوں کے نیچے رکھتیں۔ کئی لوگ بھینسوں اور بکریوں کو چرانے نہر پار والے جنگل میں لے جاتے اور شام کو سورج کی سرخ روشنی میں واپس لے آتے ۔کبھی کبھی رس بھری لذیذ شہد بھی جھاڑیوں سے اتار کر لے آتے ، جب کہ ملازمت پیشہ اور زمیندارا کرنیوالے لوگ شام کو مختلف مقامی کھیل کھیلتے ، لوگوں کے سامنے اپنی پہلوانی کا لوہا منواتے اور رات کو ہر گھر کے چولہے پر ان کی پہلوانی کی باتیں لوگوں کی زبان پر ہوتیں۔ نہر کے ساتھ ساتھ انگریز دور کے شیشم، کیکر وغیرہ کے درخت لہراتے اور ہم لوگ کبھی کبھی ان درختوں پر چڑھنے کا مقابلہ بھی کرتے ، پھر نہر کے پانی میں ڈبکیاں لگاتے اور تیرتے ۔
سردیوں کی لمبی راتوں میں بوڑھے اور بوڑھیاں چولہے کی آگ پر بیٹھ کر لوک قصے سناتے، یوں پورا ماحول توازن میں رہتا، ہر قدرت کی تبدیلی اپنے وقت پر آتی، اس کی تیاریاں وقت سے پہلے کی جاتیں،خوامخواہ کی بیماریاں نہ پریشانیاں ہوتی تھیں۔ وقت بدلتا گیا، لوگ بڑھتے گئے لگژری لائف نے چہرہ دکھایا تو لوگوں کے دلوں میں بھی لالچ پیدا ہونے لگی۔
یوں پانی کے جوہڑ، ہرا بھرا جنگل، اس رہنے والی مخلوقات سب آہستہ آہستہ مٹتے گئے ، اور تو اور گھروں کے درمیان نکلنے والے راستے بھی قبضے کی لپیٹ میں آتے رہے ، زمین کے دو فٹ ٹکڑے پر بھی ایک بھائی کے دوسرے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈلتے رہے ، بچارے سرسبز درخت کلہاڑیوں کی زد میں آکر گھروں کے چولہوں کا ایندھن بنتے رہے،کئی پرندے خاص طور پر طوطے الوداع کرگئے ، شہد کی مکھیاں دور دور تک نظر نہ آنے لگیں، اگر کوئی شہد کا چھتہ مل بھی گیا تو رس نام کی کوئی چیز نہ ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا کچھ اجڑ گیا۔ باقی نہر کے کنارے تھوڑے درخت بچے جو نہر کے پشتوں کو قابو کرکے رکھنے کے ساتھ پانی کی سیپیج کو بھی کنٹرول کرتے ، جب ظالموں نے سب کچھ تباہ کردیا تو ان کی آنکھیں ان درختوں پر جا کے ٹکیں، بااثر لکڑی مافیا اور طاقتور وڈیروں کی ملی بھگت نے ان درختوں کو بھی نہ چھوڑا، انھیں کاٹ کر دھرتی ننگی کردی۔ وہ جو موسموں کا ٹھہراؤ، پانی کی تازگی دھرتی کا سنگھار ماحول کی ٹھنڈک برساتی پانی کا بہتر اخراج سب کے سب روٹھ کے چلے گئے ۔ اب کیمیائی کھادوں، کیڑے مار دواؤں، گھروں میں سے بہتے ہوئے گندے اور بدبودار برساتی پانی، گندگی کے ڈھیروں کا بول بالا ہے ۔
البتہ تنکے کے گھروں کی بجائے اکثریت پکے گھروں کی ہے لیکن اور سارے امراض ایک گھر سے دوسرے گھر پھیلتے جاتے ہیں۔ تھوڑی برسات پڑے تو گاؤں ڈوبنے لگتا ہے ، پانی سے لے کر خوراک تک آلودگی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں،کبھی آسمان برستا نہیں اورکبھی ایسے پھٹ پڑتا ہے ، جیسے دھرتی اپنے ننگے پن پے زاروقطار روتی ہو۔ مقامی لوگ حیران وپریشان ہیں کہ مئی میں کیکر کے پھلیوں کو گرانے والی جھکڑ اب اس مہینے میں مستقل کیوں نہیں لگتی، جون جولائی میں پڑنے والی برساتیں، اب اگست اور ستمبر میں غضب کیوں ڈھاتی ہیں۔ گرمیاں اب اگست اور ستمبر تک تباہ کن کیوں ہوتی ہیں۔ سردیوں میں وہ شدت کیوں نہیں رہی۔
زمینیں اپنی زرخیزی کیوں کھو بیٹھی ہیں ، کھاد کے بغیر ایک تنکا بھی کیوں نہیں اگتا، ایسے کئی سوال جو آج کل لوگوں کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔ اور ان میں سے زیادہ تر اسباب بھی نہیں جانتے، جو جانتے ہیں وہ سرکش ہیں، طاقتور ہیں اور دھرتی کی بجائے،اپنی دولت سے پیار ہے ۔ خدارا ، جس دھرتی کے بارے میں مائیں تمہیں اپنی گود میں گیت سناتی تھیں، تم اس دھرتی کے دشمن کیوں بن گئے ہو۔آج بھی میں جب اپنے گھر سے ان زمینوں اور نہر کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے ننگے پن کا فریاد کر رہی ہوں۔ کاش! ہم ان لوگ ان کی دہائی سن لیں اور مل کر اس دھرتی کو دوبارہ سرسبز و شاداب بنائیں۔