پاکستان ایک نظر میں یا تو قحط سالی یا پھر سیلاب
خدا کرے حکمرانوں کواور مفادات کی جنگ لڑنے والوں کوعقل آجائے اور ہم آنے والے قیامت خیز کل کی تیاری آج ہی سے شروع کردیں۔
MADRID:
پنجاب اور کشمیر میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشوں سے مرنے والوں کی تعداد ابھی تک 72 ہو چکی ہے، جن میں سے 57ہلاکتیں صرف پنجاب میں ہوئی ہیں، سینکڑوں ایکڑ اراضی زیرِ آب آگئی ہے ، کئی دیہات خالی کرا لیے گئے ہیں، 100 سے زیادہ مکانات تباہ ہو گئے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔
بھارت نے ایک بار پھرہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ اور بدقسمتی سے پاکستان کے پاس ہر سال کی طرح اس سال بھی اِس پانی سے آنے والے سیلاب سے بچاؤ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں کے بعد یہی قیامت خیز خبریں سننے کو ملتی ہیں، مرنے والوں کے ورثاء کا ماتم ، بے گھرہونے والے افراد کی دُہائی اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے چند لاکھ کا امدادی چیک۔ کوئی ہے جو اِن حکمرانوں کو سمجھائے کہ اپنے پیاروں کی میتیں سامنے پڑی ہوں تو امدادی چیک سے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا۔ بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب، اگر بارشیں ہو جائیں توسیلاب ہی سیلاب، گویا بچنے کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔
اگرہمارے آزاد میڈیا کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی کوریج سے کچھ فرصت ملے تو آپ ایک مرتبہ پھرکالا باغ ڈیم ۔۔۔کالا باغ ڈیم کا الا پ سنیں گے، کوئی کالاباغ ڈیم بنانے کے حق میں دلائل دے گا تو کوئی اسکی مخالفت میں ہر حد پار کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کر دے گا۔ پنجاب کہے گا کہ کالا باغ ڈیم بناؤ تاکہ ہم انڈیا کوللکار کر کہہ سکیں کہ جتنا پانی چھوڑ سکتے ہو چھوڑ دو ، جو پانی تم ہماری بربادی کا خواب دل میں لیے چھوڑو گے وہ پانی ہم محفوظ کرکے اپنی ترقی کا ذریعہ بنائیں گے۔ سندھ اپنی اسمبلی میں قرارداد لے آئے گا کہ کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر بنے گا، یہ وہی سندھ ہے جو آئے سال خود بھی سیلاب کی تباہی کا نشانہ بنتا ہے۔
خیبرپختونخواہ سے کچھ لوگ اُٹھیں گے اور ببانگِ دہل اعلان کر دیں گے کہ پاکستان اور کالا باغ ڈیم ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، سیلابوں سے آنے والی تباہی سے یہ صوبہ بھی کچھ کم متاثر نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے پاس کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے لیکن یہ بھی تب تک مخالفت کرتے رہیں گے جب تک دوسرے صوبے مان نہیں جاتے اور باقی صوبے ماننے والے نہیں۔
اب ٹاک شوز میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے موضوع پر گرما گرم مباحثے ہوں گے، اسمبلی میں لمبی لمبی تقریریں کی جائیں گی، ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرایا جائے گا۔ اپوزیشن اس تباہی کا ملبہ حکومت پر ڈالے گی، اور حکومت اپوزیشن کو اُن کے ادوار میں ہونے والی تباہی یاد دلائے گی۔ اور نیا پاکستان بنانے والے عوام کو یقین دلائیں گے کہ ہمارے دور میں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ایک دفعہ پھر پاکستانی عوام کو اگلے سال ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کا لولی پاپ تھما کر خاموش کرانے کی کوشش کی جائے گی، لیکن یہ اگلا سال کب آئے گا ااِس کا جواب نہ میرے پاس ہے نہ آپ کے پاس اور شاید نہ اُن کے پاس جو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ جیسے جیسے اِس آفت کے اثرات زائل ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ان مباحثوں میں بھی کمی آتی جائے گی۔ اور آخرکار یہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا ، اس تباہی کواس طرح بھلا دیا جائے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ افسوس ہر سال ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، جیسے ان طوفانی بارشوں میں مرنے والے غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو، جیسے بے گھر ہونے والے افراد کا درد کوئی درد ہی نہ ہو۔
خدا کرے حکمرانوں کو، اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والوں کو ابھی عقل آجائے اور ہم آنے والے قیامت خیز کل کی تیاری آج ہی سے شروع کر دیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ جنہوں نے 2005 کے قیامت خیز زلزلے سے کچھ نہ سیکھا اُن کا یہ تباہی کیا بگاڑ پائے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
پنجاب اور کشمیر میں ہونے والی حالیہ طوفانی بارشوں سے مرنے والوں کی تعداد ابھی تک 72 ہو چکی ہے، جن میں سے 57ہلاکتیں صرف پنجاب میں ہوئی ہیں، سینکڑوں ایکڑ اراضی زیرِ آب آگئی ہے ، کئی دیہات خالی کرا لیے گئے ہیں، 100 سے زیادہ مکانات تباہ ہو گئے ہیں جبکہ کئی علاقوں میں سیلاب کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔
بھارت نے ایک بار پھرہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ اور بدقسمتی سے پاکستان کے پاس ہر سال کی طرح اس سال بھی اِس پانی سے آنے والے سیلاب سے بچاؤ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ ہر سال بارشوں کے بعد یہی قیامت خیز خبریں سننے کو ملتی ہیں، مرنے والوں کے ورثاء کا ماتم ، بے گھرہونے والے افراد کی دُہائی اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے چند لاکھ کا امدادی چیک۔ کوئی ہے جو اِن حکمرانوں کو سمجھائے کہ اپنے پیاروں کی میتیں سامنے پڑی ہوں تو امدادی چیک سے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا۔ بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب، اگر بارشیں ہو جائیں توسیلاب ہی سیلاب، گویا بچنے کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔
اگرہمارے آزاد میڈیا کو آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی کوریج سے کچھ فرصت ملے تو آپ ایک مرتبہ پھرکالا باغ ڈیم ۔۔۔کالا باغ ڈیم کا الا پ سنیں گے، کوئی کالاباغ ڈیم بنانے کے حق میں دلائل دے گا تو کوئی اسکی مخالفت میں ہر حد پار کرتے ہوئے زمین آسمان ایک کر دے گا۔ پنجاب کہے گا کہ کالا باغ ڈیم بناؤ تاکہ ہم انڈیا کوللکار کر کہہ سکیں کہ جتنا پانی چھوڑ سکتے ہو چھوڑ دو ، جو پانی تم ہماری بربادی کا خواب دل میں لیے چھوڑو گے وہ پانی ہم محفوظ کرکے اپنی ترقی کا ذریعہ بنائیں گے۔ سندھ اپنی اسمبلی میں قرارداد لے آئے گا کہ کالاباغ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر بنے گا، یہ وہی سندھ ہے جو آئے سال خود بھی سیلاب کی تباہی کا نشانہ بنتا ہے۔
خیبرپختونخواہ سے کچھ لوگ اُٹھیں گے اور ببانگِ دہل اعلان کر دیں گے کہ پاکستان اور کالا باغ ڈیم ایک ساتھ نہیں چل سکتے ، سیلابوں سے آنے والی تباہی سے یہ صوبہ بھی کچھ کم متاثر نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے پاس کالاباغ ڈیم کی مخالفت کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے لیکن یہ بھی تب تک مخالفت کرتے رہیں گے جب تک دوسرے صوبے مان نہیں جاتے اور باقی صوبے ماننے والے نہیں۔
اب ٹاک شوز میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کے موضوع پر گرما گرم مباحثے ہوں گے، اسمبلی میں لمبی لمبی تقریریں کی جائیں گی، ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہرایا جائے گا۔ اپوزیشن اس تباہی کا ملبہ حکومت پر ڈالے گی، اور حکومت اپوزیشن کو اُن کے ادوار میں ہونے والی تباہی یاد دلائے گی۔ اور نیا پاکستان بنانے والے عوام کو یقین دلائیں گے کہ ہمارے دور میں ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ ایک دفعہ پھر پاکستانی عوام کو اگلے سال ایسا نہ ہونے کی یقین دہانی کا لولی پاپ تھما کر خاموش کرانے کی کوشش کی جائے گی، لیکن یہ اگلا سال کب آئے گا ااِس کا جواب نہ میرے پاس ہے نہ آپ کے پاس اور شاید نہ اُن کے پاس جو یہ یقین دہانی کرا رہے ہیں۔ جیسے جیسے اِس آفت کے اثرات زائل ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ان مباحثوں میں بھی کمی آتی جائے گی۔ اور آخرکار یہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا ، اس تباہی کواس طرح بھلا دیا جائے گا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ افسوس ہر سال ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، جیسے ان طوفانی بارشوں میں مرنے والے غریبوں کی جان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو، جیسے بے گھر ہونے والے افراد کا درد کوئی درد ہی نہ ہو۔
خدا کرے حکمرانوں کو، اور اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والوں کو ابھی عقل آجائے اور ہم آنے والے قیامت خیز کل کی تیاری آج ہی سے شروع کر دیں۔ لیکن یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ جنہوں نے 2005 کے قیامت خیز زلزلے سے کچھ نہ سیکھا اُن کا یہ تباہی کیا بگاڑ پائے گی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔