اصل خطرہ
پاکستان کا حکمران طبقہ اور اس کے اتحادی بھی یہی شور مچا رہے ہیں کہ یہ ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘۔۔۔
DASU:
ملک میں جاری سیاسی بحران اور سیکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی صدر نے اپنا دورۂ پاکستان منسوخ کردیا ہے۔ 14 اگست سے شروع ہونے والے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ نے پاکستان میں ایک نظریاتی خلفشار پیدا کردیا ہے، جہاں تک عوام کا تعلق ہے یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ 67 سال سے حکمرانوں کے ظلم سہنے والے عوام ان دھرنوں کو بڑی امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، البتہ مڈل کلاس کا وہ حصہ جو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اسرار و رموز سے بے بہرہ ہے وہ ان دھرنوں کی سخت مخالفت اس حوالے سے کر رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں جمہوریت ڈی ریل نہ ہوجائے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ اور اس کے اتحادی بھی یہی شور مچا رہے ہیں کہ یہ ''غیر ملکی ایجنٹ'' پاکستان میں جڑیں پکڑتی جمہوریت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان اکابرین کی طرف سے عمران اور قادری کو ملک دشمن، عوام دشمن کہنے کا سلسلہ تو عرصے سے جاری ہی تھا اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے بھی دھرنوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اسے ملک و قوم کو تباہ کرنے اور جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی ایک ناپاک کوشش قرار دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں جمہوریت کے محافظوں نے جو دھواں دھار تقریریں کی ہیں ان میں عمران خان اور قادری کی سازشوں کی مذمت کی ہے وہیں جمہوریت کی رکھوالی میں ایسے مطالبات بھی کیے گئے ہیں جو بذات خود اس نام نہاد جمہوریت کی نفی کرتے ہیں۔
ایک مقرر نے جس کی پارٹی ملک میں مزدور کسان راج لانے کے نعرے لگاتی رہی، کہا ہے کہ حکومت ان مظاہرین کو مقدس پارلیمنٹ کے سامنے سے ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کیوں نہیں کر رہی ہے، اگر پولیس حکومت کے احکامات نہیں مان رہی ہے تو اسے تحریری حکم دیا جائے۔ ایک اور مقرر نے بھی حکومت سے یہی مطالبہ کیا کہ مظاہرین کو طاقت کے ذریعے پارلیمنٹ ہاؤس کے ارد گرد سے ہٹادیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ اس قسم کے مطالبات کرنے والوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہے جو حکمران طبقات سے زیادہ بڑھ چڑھ کر عوام کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے مطالبے کررہے ہیں۔
لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے محصورین کے خلاف جمہوری اور بھاری مینڈیٹ رکھنے والی حکومت نے ریاستی طاقت کا جو اندھا دھند استعمال کیا اس میں 14 بے گناہ افراد شہید اور 90 سے زیادہ لوگ براہ راست چلنے والی گولیوں سے زخمی ہوگئے۔ اسی لاہور میں ایک اور موقع پر اسی دوران ریاستی طاقت استعمال کرکے 8 افراد کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ڈی چوک اسلام آباد میں ایک آئی جی کو اس کے عہدے سے اس جرم میں ہٹادیا گیا کہ اس نے عوام پر گولیاں چلانے سے انکار کردیا تھا، اس کی جگہ جس دوسرے آئی جی کو لایا گیا اس نے آنسو گیس کے گولوں کی آڑ میں اس بیدردی سے گولیاں چلائیں کہ 500 افراد ان گولوں نما گولیوں سے زخمی ہوئے جو ابھی تک اسلام آباد کے اسپتالوں میں پڑے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
ہمارا حکمران طبقہ اور اس کے مڈل کلاس حامی اس شدت سے یہ شور مچارہے ہیں کہ دھرنوں کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ ملک کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ واویلا اس قدر بھونڈا اور عیارانہ ہے کہ اس کی حقیقت ایک عام آدمی بھی سمجھ رہا ہے۔ دھرنوں کے سرپرست جو مطالبے کررہے ہیں ان میں سب سے بڑا مطالبہ میاں برادران کے استعفیٰ کا ہے، اس مطالبے کا ایک معقول جواز بھی رہا ہے وہ یہ کہ ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت کا جو بازار گرم کیا گیا اس کی براہ راست ذمے داری پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف پر ہی آتی ہے۔
خود حکومت نے اس سانحے کی تحقیق کے لیے جو کمیشن قائم کیا تھا اس نے اس سانحے کی ذمے داری حکومت پنجاب پر ڈال دی ہے۔ جمہوری حکومتوں میں اگر اس قسم کے سانحات ہوتے ہیں تو متعلقہ حاکم فوری اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی وزیراعلیٰ اپنے عہدے سے کیوں مستعفی نہیں ہورہے ہیں؟
عمران خان اور قادری، نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ اس حوالے سے کررہے ہیں کہ 2013 کے الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس کی تحقیق پر وزیراعظم اثر انداز ہوسکتے ہیں، اس لیے ان کا وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا ضروری ہے۔ یہ مطالبہ اس قدر منطقی ہے کہ کوئی صاحب عقل اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اگر کسی بنچ کے کسی رکن پر مدعی عدم اعتماد کا اظہار کرے تو بنچ کا متعلقہ جج فوری بنچ سے الگ ہوجاتا ہے جس کی تازہ مثالیں موجود ہیں۔ پھر میاں صاحب کا اور مشترکہ پارلیمنٹ کا یہ اصرار کہ وزیراعظم کسی قیمت پر استعفیٰ نہیں دیں گے کیا جمہوری رویہ ہے یا سول آمریت کا مظاہرہ ہے؟ حیرت ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ کی شدت سے مخالفت وہ اکابرین بھی کررہے ہیں جو 2013 کے الیکشن کو دھاندلی زدہ الیکشن تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس الیکشن کو فراڈ الیکشن کہتے ہیں۔
اس سارے مسئلے میں جو بات توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ کو ہمارے جمہوری اکابرین جمہوریت کا قتل اور ملک و قوم کے لیے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس وزیراعظم پر الیکشن میں منظم دھاندلی کے الزامات ہوں اس کا اپنے عہدے پر برقرار رہنا خود جمہوریت کے اصولوں کی نفی ہے، اس حوالے سے سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عاشقان جمہوریت وزیراعظم کے استعفے کو جمہوریت سے اور ملک کے مستقبل سے کیوں جوڑ رہے ہیں؟ کیا وزیراعظم مستعفی ہوجائیں گے تو ملک میں جمہوریت ختم ہوجائے گی؟ کسی حکومت یا وزیراعظم کے رخصت ہونے کو کسی حوالے سے بھی جمہوریت کی رخصتی نہیں کہا جاسکتا۔ اس پس منظر میں دھرنے والوں کا یہ کہنا منطقی نظر آتا ہے کہ اصل خطرہ جمہوریت کو ہے نہ ملک کو، اصل خطرہ علی بابا اور ان چوروں کو ہے جو جمہوریت کا نقاب اوڑھ کر 67 سال سے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔