تین دھرنوں میں پھنسے پاکستانی اور افسردہ چین
میں شاہی خاندان کے قرب و جوار میں رہتا ہوں۔۔۔۔
میں ایک عام سا مسلمان ہوں لیکن میرے اندر کی آواز جو میرے اعمال کی آواز ہے مجھے بتاتی ہے کہ میرا وطن عزیز کسی غضب اور برہمی کا شکار ہے اور صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات ہی اس ملک کو کسی عذاب کی گرفت سے نکال سکتی ہے۔ بارشیں شروع ہونے سے پہلے ہی میرے گھر کی اور اڑوس پڑوس کی بجلی بند ہو گئی جو اب تین روز سے بند ہے اور اب تو مسلسل بارش نے بجلی والوں کو معقول عذر فراہم کر دیا ہے۔
میں شاہی خاندان کے قرب و جوار میں رہتا ہوں۔ واپڈا کے مقامی دفتر والے تو فون اٹھاتے ہی نہیں اوپر کے افسر سے بات ہوئی تو انھوں نے تسلی دلائی لیکن بارش ان کی راہ میں بھی ایک قدرتی رکاوٹ بن گئی ہے۔ اب میں ایک ٹمٹماتی ہوئی موم بتی کی روشنی میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ ہر روز کی کالم نویسی اب میری عادت بن گئی ہے۔ مرزا کے پاؤں پڑتا ہوا ان کے ایک شعر کے پہلے مصرع میں ترمیم کر رہا ہوں
کوئی 'کالم جو' لکھوائے تو آ کر ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
چونکہ بجلی نہیں ہے اس لیے قلم کان پر رکھ کر روشنی کی تلاش میں ہوں۔ ایک دوست کے ہاں یہ تلاش کامیاب ہوئی ہے اور چونکہ بجلی کی بحالی کی امید نہیں ہے اس لیے اب ہر روز کان پر قلم رکھ کر لاہور کے بجلی والے دوستوں کے گھروں کا رخ کروں گا اور ان کے گھروں میں وطن عزیز کے دگرگوں حالات کا ماتم کروں گا۔
خبر ملی ہے کہ چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ ہمارے دشمن بھارت والے اپنے ہاں اس خوش خبری پر جلائے جانے والے گھی کے چراغوں کی لو بلند کر لیں۔ دنیا میں ہمارا پیدائشی اور ازلی دشمن بھارت ہے اور پیدائشی اور اٹوٹ دوست چین ہے۔ ہم نے کئی ہفتوں سے اپنے ہاں دھرنوں وغیرہ کی وجہ سے جو ابتری پھیلا دی ہے اس میں کون شریف دوست ادھر کا رخ کر سکتا ہے وہ صرف اپنے ہاں بیٹھ کر رو سکتا ہے اور ایک دوست کے حالات کا ماتم کر سکتا ہے۔ ہمارے دشمنوں کی تعداد اگرچہ ایک سے زیادہ ہے لیکن اس وقت جس دشمن کو کامیابی ملی ہے اس نے ہماری قومی حماقت سے خوب فائدہ اٹھا لیا ہے۔
مولوی اور مسٹر کے دھرنوں کو ایک کامیاب میلہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن ایک عام سے میلے کی طرح بے مقصد اور بلاوجہ۔ یہ مولوی اور مسٹر دونوں اپنی تمام تر دانش اور دولت کے باوجود ہمارے کسی دشمن کے ہتھے چڑھ گئے ہیں اور ملک کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ مولوی صاحب نے تو اپنا دوسرا ٹھکانہ بنا رکھا ہے اور پوری دیدہ دلیری کے ساتھ ایک عیسائی ملک کے بھی شہری ہیں وہ ایک دن کسی جہاز میں سوار ہوں گے اور ان کی دوسری خبر کینیڈا سے آئے گی۔ لاہور اسلام آباد تو ان کے تفریحی مقامات اور کسی ایڈونچر والے شہر بن گئے ہیں مگر یہ عمران لاہور کے زمان پارک سے اسلام آباد کے بنی گالہ تک اپنی کون سی پسندیدہ شکار گاہ بنائیں گے۔ عمران ہمارے علاقے وادی سون میں بھی شکار کے لیے جایا کرتے ہیں اب شاید ہم اس مہمان کی پذیرائی نہ کر سکیں کیونکہ اس کے سامان میں وہ دھرنے بھی ہوں گے جنہوں نے ہمیں اخلاقی طور پر بھی تباہ کر دیا ہے میں اخلاقی تباہی کی داستان سنا کر اپنے آپ کو شرمندہ کرنا نہیں چاہتا۔
چین کی ہزاروں برس پرانی سیاست اور تمدن کے وارث نے پاکستان جیسے دوست کے ہاں اپنے پروگرام کے مطابق آمد کو منسوخ یا ملتوی کر دیا ہے۔ چینیوں کے ہمارے ساتھ تعلقات کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر اور ہمارا حال جان کر کے یہ فیصلہ کیا ہو گا۔ چین کے دانش وروں نے اپنے دوست کے حال پر ماتم کیا ہو گا۔ چین کو ایک طاقت بنانے میں ماؤزے تنگ اور چواین لائی نے اپنے آخری سانسوں تک محنت کی جب کہ ہم نے قائد کی وفات پر حالات کا شکر ادا کر کے اپنی من مانیاں شروع کر دیں۔ ہم سے ایک برس بعد آزاد ہونے والے چین کی حالت دیکھیں اور اس سے سال بھر پہلے آزاد ہونے والے اپنے پاکستان کی۔ ہمارے نام نہاد اشرافیہ نے ہماری یہ حالت بنا دی اور اب بھی یہی ملک پر مسلط ہے۔ کیا ہم کسی صورت میں اس آسیب سے نکل سکیں گے۔ عوام تو تیار ہیں اور یہ بے معنی دھرنے اس کا ثبوت ہیں جو جاری ہیں۔
اور اس وقت میرے صحن میں بھی بارش جاری ہے اور اس نے بھی ایک خوفناک دھرنا دے رکھا ہے یعنی تین دھرنوں میں ہم پھنسے ہوئے ہیں ایک ملاں کا ایک مسٹر کا اور ایک بارش کا۔