بلوچستان کی آواز

شام کے وقت عمومی طور پر کئی سینئر صحافی پریس کلب میں موجود ہوتے مگر خبروں کے پس منظر۔۔۔۔


Dr Tauseef Ahmed Khan September 06, 2014
[email protected]

گزشتہ صدی کی 80ء ویں دہائی سیاسی کارکنوں کی جدوجہدکے تناظر میں اہم تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے تھے، سیاسی جماعتوں پر پابندی اور اخبارات پر سنسر عائد تھا، کراچی میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کراچی پریس کلب تھا۔ صدیق بلوچ اس وقت روزنامہ ڈان میں رپورٹر تھے۔ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور ٹارچر کیمپوں میں تشدد کی خبریں اخبارات کے نیوز رومز میں گردش کرتی رہتی تھیں۔ صدیق بلوچ ہم چند نوجوان صحافیوں کو خبروں کے پس منظر، بین الاقوامی تبدیلیوں کے ملکی سیاست پر اثرات اور پولیس اور بیوروکریسی کی ڈاکٹرائن کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کرتے۔

شام کے وقت عمومی طور پر کئی سینئر صحافی پریس کلب میں موجود ہوتے مگر خبروں کے پس منظر، فرشتوں کے کردار اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے بارے میں معلومات ہمیں صرف صدیق بلوچ سے ملتیں۔ وہ جس طرح جنرل ضیاء الحق حکومت کی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرتے اس سے بہت سے لوگوں کو حیرت ہوتی۔ اس حیرت کی حقیقی وجہ تھی کہ صدیق بلوچ نے بھٹو دور میں 5سال طویل قید کاٹی تھی، اس قید میں تقریباً 8 مہینے قید تنہائی کے بھی تھے مگر ان کے تجزیے میں کہیں بھٹو حکومت سے انتقام کی رمق تک محسوس نہیں ہوتی تھی۔

اب صدیق بلوچ کی نئی کتاب Balochistan, its politics and economics کے مطالعے سے 80 کے صدیق بلوچ کی جھلک تازہ ہو گئی۔ اس کتاب میں بلوچستان کے بارے میں اتنی معلومات ہیں کہ بلوچستان کے بارے میں نہ جاننے والا فرد بھی اس صوبے کی اقتصادی اور سیاسی صورتحال سے مکمل طور پر واقف ہو جائے۔ اس کتاب کا Foreword ہی اہم اطلاعات سے شروع ہوتا ہے۔ فرنٹیئر کور کے سابق انسپکٹر جنرل میجر جنرل عبداﷲ خٹک نے ایک بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ دنیا کے 20ممالک بلوچستان کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ اگرچہ جنرل خٹک نے ان ممالک کی نشاندہی نہ کی مگر بلوچستان کی اہمیت کی تصدیق ہو گئی اور واضح ہو گیا کہ غیر ممالک بلوچستان میں اپنے غیر واضح مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔

اس کتاب کے پہلے باب Public finance and development میں وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ عوام کی اکثریت کا غیر رسمی معیشت یا متوازی معیشت سے منسلک ہونا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریاست کے مختلف ادارے غیر رسمی معیشت یعنی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں غیر ملکی اشیا کی اسمگلنگ کے کاروبار کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اسمگل شدہ گاڑیوں کے لیے اسکیم کے اجراء کے نتیجے میں مقامی صنعت کو نقصان پہنچے گا۔ وزارت خزانہ اور FBR کی بیوروکریسی اسمگلروں کی مافیا کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایسی اسکیم تیار ہوتی ہے۔

ایک اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بلوچستان نقلی اشیاء کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ نقلی اشیاء میں کھانے کا تیل اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ نقلی اشیاء کی فروخت سے وہ بے انتہا منافع کماتے ہیں۔ اب اسمگلر اتنے ہوشیار ہو گئے ہیں کہ وہ افغان ٹرانزٹ کے تحت اسمگل شدہ اشیاء ملک کے کسی بھی علاقے میں پہنچا دیتے ہیں۔ جام یوسف کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کی طے شدہ پالیسی تھی کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں کو ترقی نہ دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب کے باب Massive inflow of resources sought میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان وسائل سے مالامال صوبہ ہے مگر برسرِ اقتدار حکومتوں نے ان وسائل کی ترقی کے لیے مختلف وجوہات کی بناء پر فنڈز کے اجرا سے انکار کیا۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت نے گوادر بندرگاہ کی ترقی کے لیے خاطرخواہ فنڈز فراہم نہیں کیے۔ گوادر کی بندرگاہ آبنائے ہرمز کے دہانے پر قائم ہے مگر حکومتوں نے بندرگاہ کی ترقی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے۔ وہ اپنے اس مضمون میں بلوچستان کی پسماندگی کی وجوہات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے سندھ اور پنجاب میں انفرااسٹرکچر کی ترقی پر خصوصی توجہ دی مگر ایک حکمت عملی کے تحت بلوچستان کو نظرانداز کیا۔

وہ منفی معاشی نمو کی شرح economic growth rate negatvie in Balochistan کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ بلوچوں نے برطانوی سامراجی فوج کے خلاف 20 چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑیں، اس کے ساتھ ہی بلوچ عوام کو برطانوی فوج کے 15 حملوں کے خلاف مزاحمت کرنی پڑی۔ برطانیہ نے بلوچ عوام کی جرات پسندی کی سزا بلوچستان کو پسماندہ رکھ کر دی۔ حکومت بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے سالانہ ترقیاتی پروگرام PSDP پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کر سکی کیونکہ وفاقی حکومت نے وسائل فراہم نہیں کیے۔ بلوچستان کی حکومت کی آمدنی کا انحصار جائیداد اور موٹر وہیکل ٹیکس کے علاوہ کاپر اور گولڈ پروجیکٹ سے وصول ہونے والی رائلٹی پر ہے۔ باقی رقم وفاقی حکومت قومی مالیاتی ایوارڈ سے فراہم کرتی ہے۔

اسی طرح پسماندگی سے متعلقہ طویل المیعاد منصوبہ بندی Backwardness long term planning only solution کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں طویل منصوبہ بندی کا تصور نہیں ہے۔ بلوچستان کے ون یونٹ کو ختم کر کے صوبے کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان کے معاشی منیجرز نے سالانہ ترقیاتی منصوبہ تیار کیا تھا۔ یہ منصوبہ چند لاکھ روپے پر مشتمل تھا۔ اس منصوبے پر سڑکوں کی تعمیر سے لے کر پانی کی فراہمی، کوئٹہ اور چند دوسرے شہروں میں اسکول، اسپتال اور سرکاری ملازمین کے لیے رہائشی سہولتوں کی تعمیر تھی۔ صدیق بلوچ نے No resource no development کے عنوان سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے معاشی اور مالیاتی امور میں بلوچ عوام کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔

گیلانی حکومت کا مکمل انحصار نااہل اور متعصب بیوروکریسی پر تھا۔ اس بیوروکریسی نے بلوچستان کی ترقی میں کبھی دلچسپی نہیں لی تھی۔ یہ بیوروکریسی جاری منصوبوں کی تکمیل کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ حکومت پہلے صوبوں میں لسانی اور نسلی بنیاد پر تنظیمِ نو کرے، پھر وسائل کی تقسیم سے پہلے بلوچ قومی حقوق کو فوری حل کرے۔ یہ مطالبہ درست ہے کہ بلوچستان کے پختون علاقوں کو فاٹا میں شامل کیا جائے تا کہ بلوچستان ایک مربوط صوبہ بن سکے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے دور میں بلوچستان کی معیشت تباہ ہو گئی۔

جس کے نتیجے میں بلوچستان کی 80 فیصد آبادی جو دیہاتوں میں آباد ہے غربت کا شکار ہوئی۔ مسلم لیگ ق امراء اور حکمرانوں کی حمایت سے بنی تھی جس پر موقع پرست قابض تھے جنھیں عوام کی بہبود اور ترقی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم لیگ 6 دفعہ براہ راست اور بلاواسطہ طور پر برسر اقتدار آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ قوم پرستوں یعنی سردار عطاء اﷲ مینگل، نواب اکبر بگٹی اور سردار اختر مینگل کے پورے دور کو ملایا جائے تو یہ تین سال سے زیادہ کا نہیں ہو گا ۔ 65 سال میں آر سی ڈی ہائی وے مکمل نہیں ہو سکا۔

بلوچستان کے دیہی علاقوں میں آباد لوگوں کو مستقل یہ شکایت رہی ہے کہ حکومت ان کے علاقوں کو نظرانداز کر رہی ہے اور چھ عشرے گزرنے کے باوجود بنیادی سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض شکایات اپنے منتخب نمایندوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ اب قومی مالیاتی ایوارڈ سے ملنے والی رقم اراکین صوبائی اسمبلی کی صوابدید پر ہے۔ بدعنوانی کی شکایات عام ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان دیہی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو ہے۔ ان کے اسکولوں کے اساتذہ ان کے لیے اجنبی ہیں۔ اساتذہ کا تعلق پڑوسی گاؤں سے بھی نہیں ہے کیونکہ دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان علاقوں میں بطور استاد تعینات کیا جاتا ہے جو مہینوں بعد اسکول میں شکل دکھاتے ہیں۔ یہ گھوسٹ اساتذہ کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔ تمام اساتذہ کو منتخب نمایندوں اور طاقت ور شخصیتوں کی سفارش پر ملازمتیں دی جاتی ہیں۔

یہ گھوسٹ اساتذہ بدعنوان افسروں کی مدد سے ہر ماہ تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ صدیق بلوچ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی BDA صوبے کی سب سے امیر اتھارٹی ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ کئی بلین روپوں کا ہے۔ یہ ادارہ رشوت کی آماجگاہ ہے۔ اس کا ایک سابق چیئرمین بلینیئر (ارب پتی) ہے۔ صدیق صاحب بھارت اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف محاذ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مضبوط ہو گئے ہیں۔ امریکا ان دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی حمایت کرتا ہے۔

افغانستان پاکستان پر اپنے ملک میں انتہاپسندوں کی حمایت کا الزام لگاتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس اپنی تنہائی کوختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کو مکمل تعاون کا یقین دلائے تا کہ افغانستان کا نیٹو، امریکا اور بھارت پر انحصار کم ہو سکے۔ اس کتاب میں اور بے تحاشا معلومات ہیں۔ بلوچستان کے حالات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں