اوکلاہامہ سے لاہور
تلسہ سے ہم برادرم ڈاکٹر انوار احمد اور ان کی بیگم عائشہ کے ساتھ ہفتے کی دوپہر۔۔۔
RAWALPINDI:
اوکلاہامہ سے لاہور تک کے واپسی کے سفر کی سب سے قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ یہ سفر 28 گھنٹوں پر محیط تھا اور کیلنڈر کے حساب سے اس میں تین دن صرف ہوئے یعنی ہم اوکلاہامہ سے سوموار کی سہ پہر 4 بجے روانہ ہوئے اور بدھ کی صبح تین بجے لاہور ایئر پورٹ پر اترے اگرچہ اس دوران میں شکاگو اور ابوظہبی کے ہائی اڈوں پر تین تین گھنٹے جہاز بدلنے کے لیے رکنا پڑا اور ٹائم ڈفرنس کی وجہ سے 10 گھنٹے بغیر گزارے ہوئے بھی گزرے مگر اس کے باوجود ہماری پروازوں کا کل دورانیہ تقریباً 20 گھنٹے رہا۔
جس میں سے ایک مسلسل پرواز یعنی شکاگو سے ابوظہبی تک ساڑھے تیرہ گھنٹے کی تھی ایک زمانہ تھا کہ سمندر کے راستے اس طرح کا سفر کئی کئی مہینوں میں طے ہوتا تھا اور اس کی گوناگوں مشکلات بھی انتہائی شدید نوعیت کی حامل تھیں لیکن یہ موازنہ شاید اس اعتبار سے غلط ہو کہ اس وقت زندگی کی عمومی رفتار بھی اتنی سمت تھی کہ ہر طویل دورانیہ بھی دورانیہ مناسب اور معقول لگتا تھا عین ممکن ہے کہ آیندہ چند برسوں میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم ایک دو گھنٹوں یا شاید چند منٹوں میں یہ فاصلہ طے کرنے کے قابل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو یہ مختصر دورانیہ بھی طویل اور تھکا دینے والا لگے ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں بلاشبہ بہت سی سہولتوں کا اضافہ کیا ہے لیکن اس کی قیمت بھی خوب ٹھوک بجا کر لی ہے کہ اب ایک ہی گھر کے افراد ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے کوسوں دور ور بے تعلق ہو گئے ہیں بقول انور مسعود موبائل فون نے ہزاروں میل دور کے اجنبی لوگوں کو قریب اور دو فٹ کے فاصلے پر موجود اپنے عزیزوں کو ہم سے دور کر دیا ہے۔
تلسہ سے ہم برادرم ڈاکٹر انوار احمد اور ان کی بیگم عائشہ کے ساتھ ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب واپس اوکلاہامہ کے شیریٹن فور پوائنٹ پہنچ گئے اور اتفاق سے ہمیں اس بار بھی وہی کمرہ نمبر415 مل گیا جس میں ہم اس سے پہلے بھی دو دن رہ چکے تھے دوپہر کا کھانا ڈاکٹر انوار کے دوست شیراز کی طرف تھا جس کی بیگم سید محمد جعفری کی پوتی نکلیں مشاعرہ ایک کلب کے ہال میں تھا جو میزبانوں کی توقع سے بھی قبل بھر گیا سو وہ بیک وقت خوش بھی تھے اور پریشان بھی' خوش اس لیے کہ اوکلاہامہ کی تاریخ میں پہلی بار وہاں ایک ایسا باقاعدہ اردو مشاعرہ ہو رہا تھا جو سراسر ان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا اور پریشان اس لیے کہ اگر مہمان اسی طرح آتے رہے تو کرسیاں اور کھانا دونوں کم پڑ جائیں گے اورایسا ہوا بھی لیکن منتظمین کی ہوشمندی اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا وہ یوں کہ کھانا ختم ہوتے ہی بڑی بڑی گول میزیں ہال سے نکال دی گئیں ۔
جس سے مزید کرسیاں لگانے کے لیے جگہ نکل آئی اگر ڈاکٹر انوار احمد کو دوسرے شہر سے آنے کی وجہ سے مہمان شاعر تصور کر لیا جائے تو میزبان شاعر صرف دو رہ جاتے ہیں مشاعرے کے ناظم بلال پراچہ اور ظفر جعفری صاحب اس کے بعد تقریباً پون پون گھنٹہ ہمارے لیے وقف تھا سامعین اگرچہ زیادہ تر ڈاکٹر اور انجینئر تھے (جن کا بوجوہ ادب سے زیادہ تعلق قائم نہیں ہو پاتا) لیکن جس توجہ' محبت' دلچسپی اور جوش و خروش سے انھوں نے کلام سنا اور دل کھول کر داد دی وہ ہمارے لیے کبھی ایک یاد گار تجربہ تھا بہت سے لوگ آٹو گرافس کے لیے ہماری کتابیں گھروں سے ساتھ لے کر آئے تھے ان پر دستخطوں کے دوران اور بعد میں اتنا لمبا فوٹو سیشن ہوا کہ شاید ہی حاضرین میں سے کوئی ایسا ہو جس کے ساتھ تصویر نہ بنی ہو بہت سے خواتین و حضرات نے ہم سے اپنی گزشتہ ملاقاتوں کا ذکر کیا سب سے زیادہ خوشی آقا بیدار بخت کے صاحبزادے برادرم فیاض بیدار کی بیٹی سے مل کر ہوئی جسے میں نے بہت چھوٹا سا دیکھا تھا اب وہ ماشاء اللہ شادی کے بھی پندرہ برس گزار چکی ہے۔
خواجہ خورشید انور کے داماد خواجہ وقاص بیس پچیس برس سے اٹلانٹا میں انگریزی پڑھاتے ہیں چند برس قبل ان کی پاکستانی شاعری کے انگریزی تراجم کی ایک کتاب بھی شایع ہوئی تھی جو بلاشبہ ایک اعلیٰ معیار کی حامل ہے ان سے رابطہ رہتا ہے اور ہر بار وہ اٹلانٹا آنے اور رکنے کے لیے کہتے ہیں مگر بدقسمتی سے آج تک ایسا ہو نہیں پایا کہ ہم اپنے میزبانوں کے ترتیب دیے ہوئے پروگرام کے پابند ہوتے ہیں اور اس کے درمیان میں سے وقت نکالنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے خواجہ وقاص نے بتایا کہ ان کا ایک دوست چوہدری نوید جو ہر اعتبار سے پکا لاہوریا ہے کئی برسوں سے اوکلاہامہ میں مقیم ہے اور شعر و ادب کا رسیا ہے وہ آپ سے ملے گا اس کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیے گا میں نے کہا اگر دوست نہیں ملتا تو ہر وہ شخص غنیمت ہے۔
جس سے بوئے دوست آتی ہو تھوڑی دیر بعد نوید چوہدری کا فون آ گیا ملاقات ہوئی تو لطف آ گیا پتلے دبلے نوید چوہدری انتہائی زندہ دل اور یار باش نکلے مشاعرے سے اگلے روز یعنی اتوار کی صبح احمد اداب کی طرف برنچ تھا اور رات کو قریبی شہر نارمن میں مبشر صاحب کی طرف ڈنر' چنانچہ طے پایا کہ دو سے پانچ بجے تک کا وقت ہم ایک ساتھ گزاریں گے جیسا کہ میں نے اوکلاہامہ کے تعارف میں بیان کیا تھا کہ یہ علاقہ کاؤ بوائے کلچر کا گھر بھی ہے اور گڑھ بھی ماضی میں تیل اور دور حاضر میں قدرتی گیس کی وجہ سے اس علاقے کی معیشت میں ٹھہراؤ تو رہا ہے لیکن اس میں وہ بڑے شہروں والی چمک دمک اور دھوم دھڑکا نہیں ہے لے دے کے ایک کاؤ بوائے میوزیم ہے جس کو آپ دیکھنے کی چیز کہہ سکتے ہیں دوسری اہم جگہ ہم تین روز قبل ڈاکٹر ثناء اللہ اور احمد اداب کے ساتھ دیکھ چکے تھے جسے یاد گار شہدا کا نام دیا جا سکتا ہے 1995ء میں ایک سر پھرے ٹموتھی نامی نوجوان نے ایک فیڈرل عمارت کو بم کے دھماکے سے اڑا دیا تھا ۔
جس میں 168 لوگ جاں بحق ہو گئے تھے یہ واقعہ نو بج کر ایک منٹ سے تین منٹ کے درمیان رونما ہوا تھا اب وہاں یہ وقت اور 168 لوگوں کی یاد گاری قبریں ہی باقی رہ گئی ہیں کہ حکومت نے اس جگہ کو یاد گار بنا کر قریب ہی تباہ شدہ عمارت کی جگہ ایک نئی عمارت بنا دی ہے۔کاؤ بوائے میوزیم وہاں کی ایک مختلف الجہات شخصیت Will Rogeres کے نام پر قائم کیا گیا ہے جس کے اندر یہاں کے قدیم باشندوں کی زندگی' تاریخ اور معاشرت کو ایک سے ایک نئے ڈھنگ سے پیش اور محفوظ کیا گیا ہے یہاں آپ کو ویسٹرن اور کاؤ بوائے فلموں کے مشہور ہیرو جان وین اور سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن (جو خود بھی کسی زمانے میں کاؤ بوائے فلموں کے اداکار رہ چکے ہیں) کے قد آدم سے بھی بڑے کانسی کے مجسمے برآمدوں میں نظر آئیں گے۔
اندرونی ہالز میں بھی انسانوں اور جانوروں بالخصوص گھوڑوں کے مجسموں کی بھر مار ہے اس زمانے کے لباس' جوتے' بندوقیں' ہٹ' گھوڑوں کی زمینیں اور مناظر فن کاروں کی مہارت کی منہ بولتی تصویریں ہیں ایڈ انڈینز کے گاؤں' وہاں کی مختلف دکانیں' گھوڑوں کے باڑے' ہوٹل' بینک' شراب خانے اور گرجے اپنی اصلی حالت میں محفوظ کیے گئے ہیں۔ نوید چوہدری نے بتایا کہ اس شہر میں سیاحوں کی دلچسپی کی چیزیں کم ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو Fly over ریاست بھی کہا جاتا ہے یعنی یہاں لوگ رکے بغیر اوپر اوپر سے گزر جاتے ہیں۔اب جب کہ میں اس سفر کی روداد کا آخری حصہ قلم بند کر رہا ہوں ایک بار پھر ایک بہت دلچسپ سوال دامن کو کھینچ رہا ہے کہ جہاں بہت سے قارئین ان سفر کتھاؤں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے انھیں مختلف جگہوں ان کی خصوصیات اور بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کے حالات اور خیالات سے آگاہی ہوتی ہے وہاں کبھی کبھی ایسی e.mails بھی ملتی ہیں۔
جن میں مختلف انداز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ایک قاری کے طور پر انھیں یہ جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ کہاں کہاں گئے کن کن لوگوں سے ملے اور وہاں کیا کچھ دیکھا اور محسوس کیا اور یہ کہ میں بھی اس طرح کے سیاسی اور حالات حاضرہ سے متعلق کالم کیوں نہیں لکھتا جس طرح کے عام طور پر لکھے جا رہے ہیں میں ان احباب کی تنقید کا احترام کرتا ہوں مگر یہ بات بھی ان کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ روٹین کے سیاسی کالم میرا چائے کا کپ نہیں ہیں میں ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کے تمام رنگوں اور مسائل کو اپنا موضوع بناتا ہوں ان میں کبھی کبھار یہ سفر نامچے بھی شامل ہو جاتے ہیں یوں بھی دنیا میں آج تک کوئی ایسی چیز ایجاد نہیں ہوئی جس پر سب متفق اور راضی ہوں گے کہ بقول تاثیرؔ ''مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں''اس مختصر سی وضاحت نما عرض حال کے بعد اب میں اس سفر کے آخری حصے کی طرف آتا ہوں جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا اس کے سپانسرز اوکلاہامہ سٹی اور چند نزدیکی شہروں کے پاکستانی تارکین وطن تھے۔
جن میں اکثریت ڈاکٹر حضرات کی ہے جنہوں نے پاک امریکن تھنکرز فورم نامی ایک گروپ قائم کیا ہے جس کا مقصد بلکہ مقاصد کچھ یوں ہیں۔ ''بیرون وطن روشن دماغ اور محب وطن پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں وہ اپنے پیارے وطن پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا رول متعین اور ادا کر سکیں اپنی مادر وطن کی خدمت اور اپنی آیندہ نسلوں کی تربیت کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی زبان' تہذیب' روایات اور اجتماعی خوشیوں سے واقف اور ان میں شامل ہو سکیں''۔ میرا حسین احمد پراچہ اور انور مسعود کا یہ دورہ ان کا پہلا بڑا پروگرام تھا مستقبل قریب میں وہ اسی طرح کے کچھ اور پروگرام بھی ترتیب دے رہے ہیں جن میں وطن عزیز سے مزید ایسی شخصیات کو مدعو کیا جائے گا جو ان کے اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکیں۔ کہتے ہیںکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے تو میرے خیال میں اس اچھی سوچ اور اس کے مظاہر کو پاکستان میں مقیم ان کے برادران وطن تک پہنچانا بھی ایک کار خیر ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔
اوکلاہامہ سے لاہور تک کے واپسی کے سفر کی سب سے قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ یہ سفر 28 گھنٹوں پر محیط تھا اور کیلنڈر کے حساب سے اس میں تین دن صرف ہوئے یعنی ہم اوکلاہامہ سے سوموار کی سہ پہر 4 بجے روانہ ہوئے اور بدھ کی صبح تین بجے لاہور ایئر پورٹ پر اترے اگرچہ اس دوران میں شکاگو اور ابوظہبی کے ہائی اڈوں پر تین تین گھنٹے جہاز بدلنے کے لیے رکنا پڑا اور ٹائم ڈفرنس کی وجہ سے 10 گھنٹے بغیر گزارے ہوئے بھی گزرے مگر اس کے باوجود ہماری پروازوں کا کل دورانیہ تقریباً 20 گھنٹے رہا۔
جس میں سے ایک مسلسل پرواز یعنی شکاگو سے ابوظہبی تک ساڑھے تیرہ گھنٹے کی تھی ایک زمانہ تھا کہ سمندر کے راستے اس طرح کا سفر کئی کئی مہینوں میں طے ہوتا تھا اور اس کی گوناگوں مشکلات بھی انتہائی شدید نوعیت کی حامل تھیں لیکن یہ موازنہ شاید اس اعتبار سے غلط ہو کہ اس وقت زندگی کی عمومی رفتار بھی اتنی سمت تھی کہ ہر طویل دورانیہ بھی دورانیہ مناسب اور معقول لگتا تھا عین ممکن ہے کہ آیندہ چند برسوں میں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم ایک دو گھنٹوں یا شاید چند منٹوں میں یہ فاصلہ طے کرنے کے قابل ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو یہ مختصر دورانیہ بھی طویل اور تھکا دینے والا لگے ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی میں بلاشبہ بہت سی سہولتوں کا اضافہ کیا ہے لیکن اس کی قیمت بھی خوب ٹھوک بجا کر لی ہے کہ اب ایک ہی گھر کے افراد ایک ہی چھت تلے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے کوسوں دور ور بے تعلق ہو گئے ہیں بقول انور مسعود موبائل فون نے ہزاروں میل دور کے اجنبی لوگوں کو قریب اور دو فٹ کے فاصلے پر موجود اپنے عزیزوں کو ہم سے دور کر دیا ہے۔
تلسہ سے ہم برادرم ڈاکٹر انوار احمد اور ان کی بیگم عائشہ کے ساتھ ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب واپس اوکلاہامہ کے شیریٹن فور پوائنٹ پہنچ گئے اور اتفاق سے ہمیں اس بار بھی وہی کمرہ نمبر415 مل گیا جس میں ہم اس سے پہلے بھی دو دن رہ چکے تھے دوپہر کا کھانا ڈاکٹر انوار کے دوست شیراز کی طرف تھا جس کی بیگم سید محمد جعفری کی پوتی نکلیں مشاعرہ ایک کلب کے ہال میں تھا جو میزبانوں کی توقع سے بھی قبل بھر گیا سو وہ بیک وقت خوش بھی تھے اور پریشان بھی' خوش اس لیے کہ اوکلاہامہ کی تاریخ میں پہلی بار وہاں ایک ایسا باقاعدہ اردو مشاعرہ ہو رہا تھا جو سراسر ان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا اور پریشان اس لیے کہ اگر مہمان اسی طرح آتے رہے تو کرسیاں اور کھانا دونوں کم پڑ جائیں گے اورایسا ہوا بھی لیکن منتظمین کی ہوشمندی اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت نے معاملے کو بگڑنے نہیں دیا وہ یوں کہ کھانا ختم ہوتے ہی بڑی بڑی گول میزیں ہال سے نکال دی گئیں ۔
جس سے مزید کرسیاں لگانے کے لیے جگہ نکل آئی اگر ڈاکٹر انوار احمد کو دوسرے شہر سے آنے کی وجہ سے مہمان شاعر تصور کر لیا جائے تو میزبان شاعر صرف دو رہ جاتے ہیں مشاعرے کے ناظم بلال پراچہ اور ظفر جعفری صاحب اس کے بعد تقریباً پون پون گھنٹہ ہمارے لیے وقف تھا سامعین اگرچہ زیادہ تر ڈاکٹر اور انجینئر تھے (جن کا بوجوہ ادب سے زیادہ تعلق قائم نہیں ہو پاتا) لیکن جس توجہ' محبت' دلچسپی اور جوش و خروش سے انھوں نے کلام سنا اور دل کھول کر داد دی وہ ہمارے لیے کبھی ایک یاد گار تجربہ تھا بہت سے لوگ آٹو گرافس کے لیے ہماری کتابیں گھروں سے ساتھ لے کر آئے تھے ان پر دستخطوں کے دوران اور بعد میں اتنا لمبا فوٹو سیشن ہوا کہ شاید ہی حاضرین میں سے کوئی ایسا ہو جس کے ساتھ تصویر نہ بنی ہو بہت سے خواتین و حضرات نے ہم سے اپنی گزشتہ ملاقاتوں کا ذکر کیا سب سے زیادہ خوشی آقا بیدار بخت کے صاحبزادے برادرم فیاض بیدار کی بیٹی سے مل کر ہوئی جسے میں نے بہت چھوٹا سا دیکھا تھا اب وہ ماشاء اللہ شادی کے بھی پندرہ برس گزار چکی ہے۔
خواجہ خورشید انور کے داماد خواجہ وقاص بیس پچیس برس سے اٹلانٹا میں انگریزی پڑھاتے ہیں چند برس قبل ان کی پاکستانی شاعری کے انگریزی تراجم کی ایک کتاب بھی شایع ہوئی تھی جو بلاشبہ ایک اعلیٰ معیار کی حامل ہے ان سے رابطہ رہتا ہے اور ہر بار وہ اٹلانٹا آنے اور رکنے کے لیے کہتے ہیں مگر بدقسمتی سے آج تک ایسا ہو نہیں پایا کہ ہم اپنے میزبانوں کے ترتیب دیے ہوئے پروگرام کے پابند ہوتے ہیں اور اس کے درمیان میں سے وقت نکالنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے خواجہ وقاص نے بتایا کہ ان کا ایک دوست چوہدری نوید جو ہر اعتبار سے پکا لاہوریا ہے کئی برسوں سے اوکلاہامہ میں مقیم ہے اور شعر و ادب کا رسیا ہے وہ آپ سے ملے گا اس کے لیے کچھ وقت ضرور نکالیے گا میں نے کہا اگر دوست نہیں ملتا تو ہر وہ شخص غنیمت ہے۔
جس سے بوئے دوست آتی ہو تھوڑی دیر بعد نوید چوہدری کا فون آ گیا ملاقات ہوئی تو لطف آ گیا پتلے دبلے نوید چوہدری انتہائی زندہ دل اور یار باش نکلے مشاعرے سے اگلے روز یعنی اتوار کی صبح احمد اداب کی طرف برنچ تھا اور رات کو قریبی شہر نارمن میں مبشر صاحب کی طرف ڈنر' چنانچہ طے پایا کہ دو سے پانچ بجے تک کا وقت ہم ایک ساتھ گزاریں گے جیسا کہ میں نے اوکلاہامہ کے تعارف میں بیان کیا تھا کہ یہ علاقہ کاؤ بوائے کلچر کا گھر بھی ہے اور گڑھ بھی ماضی میں تیل اور دور حاضر میں قدرتی گیس کی وجہ سے اس علاقے کی معیشت میں ٹھہراؤ تو رہا ہے لیکن اس میں وہ بڑے شہروں والی چمک دمک اور دھوم دھڑکا نہیں ہے لے دے کے ایک کاؤ بوائے میوزیم ہے جس کو آپ دیکھنے کی چیز کہہ سکتے ہیں دوسری اہم جگہ ہم تین روز قبل ڈاکٹر ثناء اللہ اور احمد اداب کے ساتھ دیکھ چکے تھے جسے یاد گار شہدا کا نام دیا جا سکتا ہے 1995ء میں ایک سر پھرے ٹموتھی نامی نوجوان نے ایک فیڈرل عمارت کو بم کے دھماکے سے اڑا دیا تھا ۔
جس میں 168 لوگ جاں بحق ہو گئے تھے یہ واقعہ نو بج کر ایک منٹ سے تین منٹ کے درمیان رونما ہوا تھا اب وہاں یہ وقت اور 168 لوگوں کی یاد گاری قبریں ہی باقی رہ گئی ہیں کہ حکومت نے اس جگہ کو یاد گار بنا کر قریب ہی تباہ شدہ عمارت کی جگہ ایک نئی عمارت بنا دی ہے۔کاؤ بوائے میوزیم وہاں کی ایک مختلف الجہات شخصیت Will Rogeres کے نام پر قائم کیا گیا ہے جس کے اندر یہاں کے قدیم باشندوں کی زندگی' تاریخ اور معاشرت کو ایک سے ایک نئے ڈھنگ سے پیش اور محفوظ کیا گیا ہے یہاں آپ کو ویسٹرن اور کاؤ بوائے فلموں کے مشہور ہیرو جان وین اور سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن (جو خود بھی کسی زمانے میں کاؤ بوائے فلموں کے اداکار رہ چکے ہیں) کے قد آدم سے بھی بڑے کانسی کے مجسمے برآمدوں میں نظر آئیں گے۔
اندرونی ہالز میں بھی انسانوں اور جانوروں بالخصوص گھوڑوں کے مجسموں کی بھر مار ہے اس زمانے کے لباس' جوتے' بندوقیں' ہٹ' گھوڑوں کی زمینیں اور مناظر فن کاروں کی مہارت کی منہ بولتی تصویریں ہیں ایڈ انڈینز کے گاؤں' وہاں کی مختلف دکانیں' گھوڑوں کے باڑے' ہوٹل' بینک' شراب خانے اور گرجے اپنی اصلی حالت میں محفوظ کیے گئے ہیں۔ نوید چوہدری نے بتایا کہ اس شہر میں سیاحوں کی دلچسپی کی چیزیں کم ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو Fly over ریاست بھی کہا جاتا ہے یعنی یہاں لوگ رکے بغیر اوپر اوپر سے گزر جاتے ہیں۔اب جب کہ میں اس سفر کی روداد کا آخری حصہ قلم بند کر رہا ہوں ایک بار پھر ایک بہت دلچسپ سوال دامن کو کھینچ رہا ہے کہ جہاں بہت سے قارئین ان سفر کتھاؤں میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے انھیں مختلف جگہوں ان کی خصوصیات اور بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کے حالات اور خیالات سے آگاہی ہوتی ہے وہاں کبھی کبھی ایسی e.mails بھی ملتی ہیں۔
جن میں مختلف انداز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ایک قاری کے طور پر انھیں یہ جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آپ کہاں کہاں گئے کن کن لوگوں سے ملے اور وہاں کیا کچھ دیکھا اور محسوس کیا اور یہ کہ میں بھی اس طرح کے سیاسی اور حالات حاضرہ سے متعلق کالم کیوں نہیں لکھتا جس طرح کے عام طور پر لکھے جا رہے ہیں میں ان احباب کی تنقید کا احترام کرتا ہوں مگر یہ بات بھی ان کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ روٹین کے سیاسی کالم میرا چائے کا کپ نہیں ہیں میں ارد گرد پھیلی ہوئی زندگی کے تمام رنگوں اور مسائل کو اپنا موضوع بناتا ہوں ان میں کبھی کبھار یہ سفر نامچے بھی شامل ہو جاتے ہیں یوں بھی دنیا میں آج تک کوئی ایسی چیز ایجاد نہیں ہوئی جس پر سب متفق اور راضی ہوں گے کہ بقول تاثیرؔ ''مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں''اس مختصر سی وضاحت نما عرض حال کے بعد اب میں اس سفر کے آخری حصے کی طرف آتا ہوں جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا اس کے سپانسرز اوکلاہامہ سٹی اور چند نزدیکی شہروں کے پاکستانی تارکین وطن تھے۔
جن میں اکثریت ڈاکٹر حضرات کی ہے جنہوں نے پاک امریکن تھنکرز فورم نامی ایک گروپ قائم کیا ہے جس کا مقصد بلکہ مقاصد کچھ یوں ہیں۔ ''بیرون وطن روشن دماغ اور محب وطن پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں وہ اپنے پیارے وطن پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنا رول متعین اور ادا کر سکیں اپنی مادر وطن کی خدمت اور اپنی آیندہ نسلوں کی تربیت کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ اپنی زبان' تہذیب' روایات اور اجتماعی خوشیوں سے واقف اور ان میں شامل ہو سکیں''۔ میرا حسین احمد پراچہ اور انور مسعود کا یہ دورہ ان کا پہلا بڑا پروگرام تھا مستقبل قریب میں وہ اسی طرح کے کچھ اور پروگرام بھی ترتیب دے رہے ہیں جن میں وطن عزیز سے مزید ایسی شخصیات کو مدعو کیا جائے گا جو ان کے اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو سکیں۔ کہتے ہیںکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے تو میرے خیال میں اس اچھی سوچ اور اس کے مظاہر کو پاکستان میں مقیم ان کے برادران وطن تک پہنچانا بھی ایک کار خیر ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔