ذرایع ابلاغ انقلاب کی زد میں
جن دنوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھے یاد ہے میں نے صحافت کے اصولوں پر مبنی باب۔۔۔
ISLAMABAD:
انقلاب کی سنسنی خیزی پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ سوچتی ہوں اگر ہمارا برقی ذریعہ ابلاغ اتنا برق رفتار نہ ہوتا جتنا ان دنوں اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے تو کیا ''انقلاب'' کے اثرات گھر بیٹھے ناظرین پر اتنے گہرے مرتب ہوتے؟ یہ سوال ذہن میں گردش کرتے ہوئے سوالات اور خیالات کے کتنے ہی دائرے بنا رہا ہے۔
جن دنوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھے یاد ہے میں نے صحافت کے اصولوں پر مبنی باب کو بارہا پڑھا۔ مجھے اب تک اپنی کتاب میں موجود اس باب کے اسباق کی ترتیب پوری طرح یاد ہے۔
مجھے یاد ہے کہ آزادیٔ صحافت کے موضوع پر دیے جانے والے ایک لمبے چوڑے لیکچر کے بعد آزادیٔ صحافت کی حدود کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بالترتیب صحافی اور قانون، مثالی ضابطۂ اخلاق، مدیران، مالکان اور کارکن صحافیوں کا ضابطۂ اخلاق، قانونِ صحافت و مطبوعات قانون، توہین عدالت، ہتک عزت یا ازالۂ حیثیت عرفی کا قانون، حقوق اشاعت یا کاپی رائٹ کے قوانین، غرض یہ کہ صحافت کی آزادی اور ذمے داری سے متعلق تمام قوانین اور اصولوں کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
میرے قوانین و ضوابط صحافت کو اتنے انہماک سے پڑھنے کی خاص وجہ تھی۔ چونکہ میں نے بچپن ہی سے اپنے گھر میں انقلابی اور سیاسی سرگرمیاں دیکھیں، اس حوالے سے بحثیں سنیں، سو ملکی حالات پر، مذہبی مسائل و اختلافات اور اپنے اردگرد ہونے والے واقعات پر نظر رہتی، خبروں سے دل چسپی رہتی اور ذہن ان کے بارے میں سوچتا رہتا۔ اس کے ساتھ ہی زرد صحافت کے تذکرے اور عملی تصویر سے شدید الجھن ہوتی۔
انھی دنوں شام کا ایک اخبار، جو پہلی دفعہ رنگین تصاویر اور جرائم کی خبروں کو نمایاں طور پر چھاپنے کے رجحان کے ساتھ سامنے آیا تھا، ہر روز ہمارے ہاتھ آتا۔ اگرچہ صحافت کے اصولوں سے واقفیت نہیں تھی، مگر کوئی حس تھی جو بتاتی کہ یہ صحافت نہیں۔
لیکن صحافت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے جب میں نے خود پہلی مرتبہ قلم ہاتھ میں لیا تو زرد صحافت کو اپنے معاشرے سے نوچ پھینکنے کا عزم دل میں تھا۔
اب 2014ء ہے۔ پاکستان میں مختلف ذرایع ابلاغ زیادہ سے زیادہ قارئین، سامعین اور ناظرین کو اپنی گرفت میں لینے کی خواہش رکھتے اور اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ چنانچہ خبروں، تجزیوں اور پروگرام کو متوازن اور معروضیت پر مبنی بنانے سے کہیں زیادہ انھیں ''پُرکشش'' بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پورا کر رہا ہے۔
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں۔ ایک شور ہے، ہنگامہ ہے، ہر کوئی اپنے کہے کو سچ ثابت کرنے کے لیے سر گرم ہے۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کروڑوں کی تعداد میں لوگ بھاگ رہے ہوں اور ان میں سے کوئی نہ جانتا ہو کہ اس کی منزل کیا ہے۔ بس لوگ بھاگ رہے ہوں ۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایسی خواہش ہے جس کے تحت یہ بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ کتنے ہی سر بھاگتے بھاگتے پیروں تلے روندے جا چکے ہیں۔
انقلاب revolution کی بات اچھی ہو یا بری، صحیح یا غلط، سچ یا جھوٹ۔۔۔۔۔ لیکن اس ساری صورت حال میں عوام ذہنوں میں ذرایع ابلاغ کے حوالہ سے دن بہ دن مختلف سوالات اٹھتے جا رہے ہیں۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ ریٹنگ کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہمارے ذرایع ابلاغ کھرے اور کھوٹے کی فکر کیے بنا بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ 2000ء سے لے کر 2014 یعنی پورے چودہ سال پاکستان کے عوام نے نئے آنے والے چینلز کو خوش آمدید کہا۔
اس میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے عوام میں شعور کا بیج بویا۔ اور اب یہ بیج پھوٹ کر ایسا پودا بن گیا ہے جس کی ٹہنیوں پر رنگ برنگے پھول کھلنے لگے ہیں۔ عام پاکستانی باشعور ہوتے جا رہے ہیں، ان میں اپنے ملک کے معاملات، اپنے حالات اور اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے اور یہ سب ہمارے ملک کے ذرایع ابلاغ کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔
بس ایک یہی مثبت اور واضح تبدیلی ہے جو گزشتہ کوئی ایک عشرے کے دوران ہمارے یہاں آئی ہے۔ جب کہ ملک میں نہ تعلیمی مسائل حل ہوئے، نہ عام شہری فکر روزگار سے آزاد ہوا۔ امن و امان اور انتظام کی بگڑی ہوئی صورت حال مزید ابتر ہوتی گئی۔ لیکن برقی ذریعہ ابلاغ کی بہ دولت عوام خاصی حد تک اپنے مسائل سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں اور ان میں ان مسائل کو حل کرنے کی خواہش اجاگر ہوئی ہے۔ ذرایع ابلاغ نے شعور کے جو بیچ بوئے اس کی نگہداشت پر بھی خاطر خواہ توجہ دی اور بلاشبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ گزرے چودہ سال کا عرصہ پاکستان میں ذرایع ابلاغ کی تاریخ میں سنہرے حرٖفوں سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
ہمارے ذرایع ابلاغ نے شعور تو دے دیا ہے، سو اب عام آدمی ان ذرایع ابلاغ کی کارکردگی کو بھی اپنے شعور کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہے اور ان کا مواخذہ اور احتساب کرنے کی فکر میں ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ کس طرح بعض چینل تمام تر صحافتی ذمے داریوں اور اقدار کو تج کر موجودہ سیاسی صورت حال کے فریقین میں سے کسی ایک کا ہو کر رہ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے اور آج بھی کہا جاتا ہے کہ معروضیت صحافت کی بنیاد ہے۔
یہ ایک نازک وقت ہے، اپنا اعتماد قائم رکھنے یا کھو دینے کا وقت۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان دنوں بعض ٹی وی چینلوں سے جو کچھ ناظرین کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے یا جو بتایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ تعمیری صحافت کی تعریف پہ پورا نہیں اترتا۔
وقت آ گیا ہے کہ ریاستی اداروں میں چوتھا ستون، کہی جانے والی صحافت کو، اپنی نظریاتی و عملی جڑوں کو مضبوط اور اس کی آبیاری کے لیے ذرایع ابلاغ کے ادارے صحافتی آزادی کی حدود کا ازخود جائزہ لینا چاہیے اور اپنے کارکن صحافیوں کے لیے نئے سرے سے بدلتے وقت کی ضرورت کے تحت صحافتی قوانین کے احترام و عملی تربیت کا اہتمام کریں۔
دوسری صورت میں ملک میں انقلاب آئے یا نہ آئے، پاکستان کے ذرایع ابلاغ خاموش عوامی انقلاب کی زد میں ضرور آ جائیں گے۔