یوم دفاع پاکستان
بھارت کا غاصبانہ انداز فکر ہے جسکی اہم اور بنیادی وجہ کشمیر ہے۔۔۔
پاکستان الحمداللہ ایک نظریاتی مملکت ہے اور یہ ملک ساری دنیا جانتی ہے کہ 2 قومی نظریے کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء (27 رمضان 1366ھ) کو دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ یہ ملک مسلمانان ہند یا مسلمانان برصغیر نے کیسے حاصل کیا اور اس کے لیے ہم نے کتنی قربانیاں دیں اور ہم پھر پاکستان میں آگ اور خون کے دریا کو عبور کر کے کیسے پہنچے یہ ایک اٹل حقیقت ہے اور تاریخ نے ان حادثات اور خونی واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ کر لیا ہے ۔
بھارت کا غاصبانہ انداز فکر ہے جسکی اہم اور بنیادی وجہ کشمیر ہے اسی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں اور جب جنگ ہوتی ہے تو فریقین کا ظاہر ہے نقصان ہوتا ہے جس سے دونوں ممالک میں نہ صرف کشیدگی بڑھتی ہے بلکہ دونوں ممالک میں غربت، بے روزگاری اور مختلف پریشانیاں جنم لیتی ہیں اور بھارت اس میں پیش پیش رہتا ہے کہ پاکستان کو کسی بھی طرح چین سے نہ رہنے دیا جائے اور پاکستان کو سکھ کا سانس نصیب نہ ہو پہلے پہل اس نے پاکستان کو ملنے والی مشترکہ بینک سے رقم ہی نہیں دی تا کہ ہم قلاش ہوں اور یوں پاکستان کے ملازمین کو تنخواہیں ہی نہ مل سکیں۔
پھر جو رقبہ اور مسلم علاقے تھے وہ بھی اسے نہ ملنے دیے پھر جو اسلحہ تھا وہ پاکستان کے حصے کا وہ بھی نہ ملنے دیا اور پھر جو ٹرینیں تھیں اور انجن تھے وہ بھی جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے وہ روک لیے اور پھر ہر روز نت نئی سازش کرتا کہ کسی طرح سے پاکستان کی کمر توڑ دی جائے اسی طرح بھارت نے ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے ایک اور جارحیت کی کہ رن کچھ کا تنازعہ کھڑا کر دیا اور اچانک بلاجواز چھڈبیٹ کے علاقے پر حملہ کر دیا پاکستانی فوج نے اس کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا اور ایسا مزہ چکھایا کہ بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا اسی بھارتی جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے وزیر امور کشمیر نے 19 مئی 1965ء کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں پھر سے زندہ کرنے کی بات کی تو بھارت آگ بگولا ہو گیا۔
8 اگست 1965ء کو کشمیری مجاہدین نے بھارتی سامراج کو شکست فاش دینے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں انقلابی کونسل قائم کی۔ 9 اگست 1965ء کو سارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا ایک طویل ترین اور کبھی بند نہ ہونے والا ایک زبردست مزاحمتی سلسلہ شروع ہو گیا بھارتی حکومت ان شدید حملوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور یہ مزاحمتی تحریک آج تک 2014ء میں بھی اسی شدومد سے اور اسی جذبے کے تحت جاری ہے اس وقت کے مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعظم جی ایم صادق تک نے یہ اعتراف کیا تھا کہ گزشتہ چند روز میں مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں نے ان جھڑپوں میں بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
ملاحظہ کریں کہ ایک طرف بھارت خود مقبوضہ کشمیر میں جارحیت کر رہا ہے اور دوسری طرف پر امن آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکی دی جا رہی ہے دوسری طرف ان ہی بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ اس وقت کشمیر میں جو جنگ کے شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں وہ پاکستان کے ایک منظم حملے کی حیثیت رکھتے ہیں ہم طاقت کا جواب طاقت سے ہی دیں گے چاہے اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ لال بہادر شاستری دراصل بوکھلا چکے تھے اور مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کی سرگرمیاں انھیں پریشان کر رہی تھیں۔
شاستری کے بیان سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں اور یوں وزیر اعظم خود تناؤ کا شکار تھے اور محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے 19 اگست 1965ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی حکمرانوں کو متنبہ کیا کہ وہ جنگ کی باتیں نہ کریں اور نہ ہی جنگ کی دھمکیاں دیں۔ 20 اگست 1965ء کو وزیر خارجہ پاکستان روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کی یہ خبر پڑھ کر حیران رہ گئے کہ بھارتی فوج نے جنگ بندی (Line Of Control) کی خلاف ورزی کر کے ٹیٹوال کے علاقے میں پاکستانی فوج کی3 بیرکوں کو نذرآتش کر دیا ہے۔
21 اگست 1965ء کو صدر آزاد کشمیر خان عبدالحمید خان نے کہا کہ بھارتی فوج کا کارگل کی 3 پاکستانی چوکیوں پر دوبارہ قبضہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے اس دوران پاکستان اور آزاد کشمیر کی فوجوں کے علاوہ مجاہدین کشمیر نے بھی اپنی شاندار سرگرمیاں جاری رکھیں اور سون مرگ کے نزدیک بھارتی فوج کی ایک پوری پلاٹون کو تہس نہس کر ڈالا اور یوں بھارتی فوج اپنا نہ صرف گولہ بارود بلکہ بہت سا فوجی سامان چھوڑ کر بھاگ گئی۔
3 ستمبر 1965ء کو بھارتی اور پاکستانی فضائیہ کے مابین خوب جھڑپیں ہوئیں اور یوں بڑی جدوجہد کے بعد پاکستانی فوج نے 5 ستمبر 1965ء کو جوڑیاں پر قبضہ کر لیا اور بے شمار بھارتی فوجیوں کو قیدی بنا لیا۔ ان جھڑپوں سے ساری دنیا پریشان تھی اور ساری دنیا پاک بھارت کے مابین جنگ کے ہولناک شعلے بلند ہوتے دیکھ رہی تھی مگر بھارت اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے باز نہیں آ رہا تھا جب کہ کشمیر کے حالات بھارت کی دسترس سے باہر ہوتے جا رہے تھے اور بھارت کو محسوس ہوا کہ اگر موجودہ حالات جوں کے توں ہی رہے تو مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
ایسے میں بھارتی حکمرانوں نے جب یہ یقین کر لیا کہ کشمیر ان کے ہاتھوں سے واقعی نکل جائے گا تو 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے سارے بین الاقوامی معاہدوں اور معاملات کو بالائے طاق رکھ کر بغیر اعلان جنگ کے رات کے اندھیرے میں بزدلوں کی طرح لاہور پر 3 اطراف سے حملہ کر دیا اس وقت بھارتی حکمرانوں کو یہ خام خیال تھا کہ بھارت بہت بڑا طاقتور ملک ہے اور ساری بین الاقوامی طاقتیں بھارت کی مدد میں ہیں یعنی کہ بھارت کو یہ گھمنڈ تھا کہ بھارت 72 گھنٹوں کے اندر نہ صرف لاہور پر قبضہ کر لے گا بلکہ سارے مغربی پاکستان پر بھی قبضہ کر لے گا مگر پاکستان کی تینوں مسلح افواج نے بھارت کے اچانک حملے کا جواب دینے میں کمال فوجی مہارت اور کمال فوجی ہنرمندی کا مظاہرہ کیا جب کہ بھارت نے بغیر اعلان جنگ کیے رات کی تاریکی میں لاہور کے تین گاؤں بیدیاں، برکی اور واہگہ پر حملہ کر دیا یہی وہ جنگ ہے۔
جس میں ٹینکوں کی جنگ میں ہمارے فوج کے جانباز سپاہی ٹینکوں کے نیچے اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر لیٹ گئے اور یوں ان ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا برکی کے دفاع کی ذمے داری میجر راجہ عزیز بھٹی کے سپرد تھی میجر راجہ عزیز بھٹی ایک مکان کی چھت پر بیٹھ کر دوربین کے ساتھ جنگ کے میدان کا جائزہ لے رہے تھے جب انھوں نے بھارتی فوجوں کو ہڈیارہ کی طرف بڑھتے دیکھ کر اپنی توپوں کو فائر کھولنے کا حکم دیا تو دشمن کے بہت سے سپاہی مارے گئے دشمن نے ہوائی جہازوں سے بھی بمباری کی اور اس کے بعد ٹینکوں سے ایک زبردست حملہ کر دیا میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اپنے صرف 150 ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھارتی ٹینکوں کو تباہ کر دیا دشمن اور پاکستانی فوج کے درمیان بی آربی (Bedian Rahawali Bamban Wala Canal) تھی چھ دنوں تک فوجوں کو اس سے آگے نہ بڑھنے دیا اسی معرکے میں میجر راجہ عزیز بھٹہ شہید ہو گئے جنھیں پاکستانی فوج کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہی سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا یہی وہ جنگ ہے۔
جس میں یہ سنہرے الفاظ کہے تھے کمانڈر انچیف اور فوج کے سربراہ نے کہ دشمن کا سر کچل کر رکھ دو اور ایئرفورس کے سربراہ ایئرمارشل نورخان نے بھی اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ اب بھارت کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کا دور شروع ہو چکا ہے اس لیے ہماری افواج بھارتی افواج کو دندان شکن جواب دیں گی۔ BBC کے ممتاز مبصر چارلس ڈگلس ہوم نے پاکستانی فوج کے شاندار کارناموں پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اگر سپاہی کے مقابلے میں سپاہی اور یونٹ کے مقابلے میں یونٹ کو سامنے رکھ کر موازنہ کیا جائے تو بھی یہ ماننا پڑے گا کہ پاکستان کی فوج قلیل ہونے کے باوجود بھی بھارتی فوج کے مقابلے میں ہر لحاظ سے اور ہر نقطہ نگاہ سے اور فوجی نقطہ نگاہ سے بھی بہت بہتر اور اعلیٰ کارکردگی کا معیار پیش کرتی دکھائی دیتی ہے 15 ستمبر 1965ء کو لاہور کے محاذ پر ایک بھارتی فوج کی ایک اعلیٰ افسر کی ڈائری ملی۔
جس سے بڑے سنسنی خیز انکشاف ہوئے مثلاً بھارت نے لاہور پر حملے کا منصوبہ اس وقت بنایا تھا جب مئی 1965ء میں رن کچھ کے صلح نامے کی ابھی روشنائی بھی خشک نہ ہوئی تھی اور ساری دنیا کے دباؤ کے باوجود بھی بھارت کے متعصب حکمرانوں نے سرحدوں سے بھارتی فوجیں واپس نہ بلائی تھیں۔