یہی آج کا نوشتہ دیوار ہے

پہلے پہل محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں صاحب ایک دوسرے بہت بڑے مخالف اور حریف ہوا کرتے تھے ۔۔۔


Dr Mansoor Norani September 06, 2014
[email protected]

اعتزاز احسن نے چند روز قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب کو یہ صائب مشورہ دیا کہ موجودہ بحران تو بہر حال ٹل جائے گا لیکن اِس کے بعد آپ کو اپنی حکمتِ عملی پر غور کرنا ہو گا کہ یہ سب کچھ کیونکر ہوا۔ محترمہ کے ایک پچھلے دور کو یاد کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ جب 1990ء میں ہماری حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہوا، گرچہ ہم اِس معرکے سے بخیر و خوبی نکل آئے لیکن بعد میں محترمہ نے یہ جاننے کے لیے کہ ہماری کونسی کوتاہیاں اور غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے ہمارے خلاف یہ عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ایک ریسٹ ہاؤس میں پارٹی کا ایک اہم اجلاس بلایا جس میں تین روز تک لگا تار اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیا گیا کہ ہم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے۔

لیکن ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ حکومت چاہے کوئی بڑی غلطی کرے یا نہ کرے پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے خلاف ہر بار کوئی نہ کوئی سازش ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ یہ خواہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد کا ابتدائی زمانہ ہو یا پھر90ء کی دہائی کا جمہوری دور۔ ہر دور میں جمہوری اور آئینی حکومت کو زیر کرنے کی مکروہ سازشیں اور کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے اِن سازشوں کے ماسٹر مائنڈ کو حکومت ِ وقت کی خامیوں سے کوئی خاطر خواہ سروکار نہیں ہوتا وہ تو صرف ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مخصوص مقاصد اور عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کوئی کمی بھی نہیں ہے۔

پہلے پہل محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں صاحب ایک دوسرے بہت بڑے مخالف اور حریف ہوا کرتے تھے۔ اُن کی اِس کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کی حکومتوں کو بڑی آسانی سے گرا دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ کوئی دس برس تک یونہی چلتا رہا۔ آئین کی شق 58-B2 کو اِس مقصد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر خوب استعمال کیا گیا۔ لیکن جب یہ بدنام ِ زمانہ جمہور دشمن شق آئین کے صفحات سے خارج کر دی گئی تو ایک بار پھر مارشل لاء کا سہارا لے کر 1999ء میں میاں صاحب کی حکومت کا تختہ گول کر دیا گیا۔ اُس وقت تک ہمارے سیاستدانوں کو یہ عقل اور شعور حاصل نہیں ہو پایا تھا کہ اُن کی آپس کی لڑائی اور چپقلش کا اصل وصول کنندہ کون ہے۔

وہ ہر جمہوری حکومت کے خاتمے پر مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مٹھائی تقسیم کیا کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ زمانے کی ٹھوکریں کھا کر اُنہیں یہ احساس ہو چلا ہے کہ اُن کے آپس کے اختلاف خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ کسی کو جمہوریت کا بستر گول کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دینگے۔ اُن کا یہ عزم اور استقلال ہی تھا کہ جس کی بدولت زرداری صاحب اور اُنکی جماعت نے اپنے دور کے پہلے پانچ سال پورے کر لیے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے میثاقِ جمہوریت کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ سیاستدان جمہوریت کے تحفظ کی خاطر متحد، یکجان اور یک زبان ہو چکے ہیں۔

کوئی طالع آزما اب اُن کے خلاف اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا، تاوقتکہ یہ خود اپنے دشمن نہ بن جائیں۔ میاں صاحب نے گزشتہ پیپلز پارٹی دور میں اپوزیشن کا کردار بھر پور انداز میں ادا کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ عندیہ بھی دیتے رہے کہ وہ جمہوری حکومت کی حفاظت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔ جس کی وجہ سے اُنہیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی دیا گیا۔ مگر سب نے دیکھا کہ اُنہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیے۔ گرچہ عوامی مسلم لیگ کے سپہ سالار جناب شیخ رشید اُس وقت بھی میاں صاحب کو بہت اُکساتے رہے کہ وہ کسی طرح زرداری حکومت کو گرانے کا عزم کر کے میدان میں نکل آئیں۔

سیاسی پیشین گوئیوں پر سیاست کرنے اور خود کو صرف الیکٹرانک میڈیا تک محدود رکھنے والے اِس سیاستدان کا حال اُس شخص کی مانند ہے جو خود تو کچھ نہیں کر سکتا البتہ دوسروں کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال ضرور کرتا ہے۔ جب میاں صاحب اُسکی باتوں میں نہ آئے تو اب اُس نے میاں صاحب کی حکومت کے خلاف بھی وہی ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیے جو وہ زرداری حکومت کے خلاف استعمال کر کے ناکام ہو چکا تھا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مسلم لیگ (ن) میں رہ کر اِسٹیبلشمنٹ کے خلاف خوب ہرزہ سرائی کیا کرتا تھا۔

1993ء کے انتخابات میں جب پاکستان پیپلز پارٹی جیت کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تو اُس نے اُس الیکشن کو انجینئرڈ الیکشن کا نام دیکر فرمایا تھا کہ اِس میں سات نمبر کا خاکی ریگ مال استعمال ہوا ہے۔ مگر اب پرویز مشرف کے دور ِ اقتدار میں غیر مترقبہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد اُسی اسٹیبلشمنٹ کا سچا وفادار اور نمک خوار بن چکا ہے۔ حالیہ سیاسی بحران کا اصل اور اہم کردار بھی یہی ہے جس نے چوہدری برادران کو ساتھ ملا کے یہ سارا کھیل بڑے پُراسرار انداز میں رچایا۔ اُسے نہ عمران خان کی سیاست سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ڈاکٹر طاہر القادری سے کوئی محبت وہ تو بس سیاستدانوں کو ناکام و نامراد ٹھہرانے کی جستجو میں یہ سب کچھ کر رہا تھا۔

اِسی کوشش میں وہ اضطراب اور بے چینی کے عالم میں کبھی عمران خان کے کنٹینر پر دکھائی دیتا تو کبھی طاہر القادری کے دھرنے میں۔ میاں صاحب کی حکومت گرانے کے شوق میں وہ اِن دونوں کی تباہی کا سامان کر گیا۔ اُس کا خیا ل تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی بھی نواز دشمنی میں اُسکی ہمسفر ہو گی لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ساری پارلیمنٹ متحد و منظم ہو کر جمہوریت دشمنی کے خلاف صف آرا ہو گئی۔

اب اگر جناب اعتزاز احسن کی تجویز کو خیالِ خاطر میں لا کر یہ غور کیا جائے کہ یہ سارا طوفان کیونکر اُٹھایا گیا تو ایک بات تو یقینی ہی ہے کہ سابق صدر جناب پرویز مشرف کو میاں صاحب نے مقدمات میں پھنسا کر خود اپنے لیے اِک بڑی مصیبت مول لی ہے۔ جس حکومت کو وراثت میں پہلے ہی بہت سے مسائل ملے ہوں اُسے مکمل توجہ دیکر اُنہیں حل کرنا چاہیے یا کہ ایک ایسا کام جو آج سے پہلے کسی حکمراں نے کرنے کی جرأت و ہمت نہ دِکھائی ہو اپنے ذمے لے لیا جائے۔ میاں صاحب کو ایسا کرنے کا مفت مشورہ بھی جناب اعتزاز احسن کی پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ہی دیا تھا کہ میاں صاحب بلّا شکنجے میں آ چکا ہے بھاگنے نہ پائے۔

جب کہ خود اپنے دور میں وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہی رہے۔ اُن کے نامزد کردہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی بھی اپنے دورِ اقتدار میں ایک سے زائد مر تبہ یہ کہہ چکے تھے کہ پرویز مشرف پر مقدمہ کرنا ممکنات میں سے نہیں ہے۔ اعتزاز احسن جب میاں صاحب پر یہ باور کر وا رہے تھے کہ یہ پارلیمنٹ مجبوراً آپ کی ساتھ کھڑی ہے تو اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی، کرپشن اور بدعنوانیوں کے باوجود پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا گُر بھی بتا دیتے جو شاید میاں صاحب کو ابھی تک سمجھ نہ آیا ہو۔

سابقہ صدر پر بھی ایک دفعہ کچھ ایسا ہی کٹھن مرحلہ آیا تھا جب وہ میمو گیٹ کے معاملے میں بُری طرح پھنس چکے تھے اور تقریباً ایک ماہ تک دبئی میں گزارنے کے بعد بمشکل واپس اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں بر اجمان ہو پائے تھے۔ ہمارے سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ابھی اتنی مضبوط اور توانا نہیں ہو پائی ہے کہ وہ ایسے حساس معاملات کو اپنا مشغلہ بنا لیں۔ یہی آج کا نوشتہ دیوار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں