بات کچھ اِدھر اُدھر کی فلسفہ زندگی
زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ہیروز معاشرے کے کرداروں سے چنتی ہیں۔
انسان اس کائنات کی سب سے خوبصورت تخلیق ہے مگر اس تخلیق کے عمل کو جو چیز جاری رکھے ہوئے ہے وہ ہے عورت ۔ہماری تاریخ میں عورت تو موجود ہے مگر اس کی شناخت وہی ہے جو کہ معاشرہ نے تشکیل دی ہے۔ ایسے میں اگر معاشرتی نا ہمواریوں اور منافقت کے گہرے اندھیروں کو چیرتی ہوئی ایک عورت روشنی کی ایک کرن بن کر اپنی قابلیت منواتے ہوئے اجالے پھیلاتی ہے تو ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اس کے کردار کو نہ صرف سراہیں بلکہ ان کی اس شناخت اور وجود کو تسلیم کرتے ہوئے معاشرے میں لانے والی مثبت کوششوں کا اعتراف بھی کریں اور قومی و بین الااقوامی سطح پر بھی انہیں سامنے لائیں۔
ہمیں اس روایت کو بھی بدلنا ہوگا کہ ہیرو صرف وہی ہوتا ہے جو ہاتھ میں اسلحہ لہراتے سلور اسکرین پر نمودار ہوتا ہے یا وہ خاتون جو اپنی دلربا اداؤں سے دشمن کے غول میں گھس کر اسے تباہ و برباد کر کے ہنستی مسکراتی انتقام پورا کرتی دو چار گانوں کے بعد ہٹ ہو جاتی ہے،ہمیں اپنے معاشروں کے اندر ان ہیروں کو تلاش کرنا ہوگا جو گمنام گلی محلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ چاہے وہ لاہور سے تعلق رکھنا والا وقاص احمد ہو ، خاتون بی بی ہو یا 85 برس کی جرمن نژاد پاکستانی ڈاکٹر روتھ کیتھرین مارتھا ان کا پیغام کہ
معاشرے کے ان کرداروں نے فلسفہ زندگی کو بہت قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ اسے پڑھ کر دوسروں کی زندگیاں بنانے کو اپنا مقصد بنایا۔ پاکستان کی خاتون بی بی اسی محکمہ پولیس کا ایک حصہ رہی جسے ہم بے حس اور نہ جانے کیا کیا القاب سے نوازتے ہیں،جب ایک حادثے کے بعد انہیں اسپتال میں جانا پڑا اور تب انہیں احساس ہوا کہ علاج کے لئے آنے والے کس عذاب سے گزرتے ہیں،اگر وہ بھی عام عورتوں کی طرح اسے قسمت اور سسٹم کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی تو شاید یہ سلسلہ کبھی نہ شروع ہوتاجو انہوں نے ڈھائی کینال کی جگہ میں ایک مسجد، تعلیم گاہ،اسپتال اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی صورت میں شروع کیا جہاں کی فضائیں ایک طرف خدا کی کبریائی بیان کر تی ہیں تو اس کے ساتھ ہی بہت سے بیماروں کو شفا بھی دے رہی ہیں،علم کے پیاسوں کی پیاس بھی بجھا رہیں ہیں اور وہ خواتین جو اسی معاشرے کے معاشی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہیں انہیں ہنرمند بنا رہیں ہیں اور یہ سب کچھ بلامعاوضہ مہیا کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر روتھ فاؤ تھا جو 1929 ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں مذہبی نن ہوتے ہوئے طب کی فیلڈ میں آئیں ،انہوں نے جنگ عظیم کے دور کی تباہیوں کو دیکھا تھا اور اس کے اثرات ان پر بھی پڑے ۔ان کا کہنا کہ انہیں سکون محسوس نہیں ہوتا تھا اور پھر ایک مذہبی مشن پر انڈیا روانہ ہوئیں 9 ستمبر 1960 کا دن تھا ،مگر تقدیر نے ان کی قسمت مین پاکستان کا نام لکھا تھا۔
ایک دن وہ میکلوڈ روڈ (چندریگر روڈ) پر کوڑھ جزام کے مریضوں کے ایک مرکز گئیں،یہ وہ دور تھا جب کوڑھ یا جزام ایک بیماری نہیں بلکہ خدا کا عذاب سمجھا جاتا تھا،یوں سمجھیں کہ آدھ مرے لوگوں کا قبرستان تھا وہ مرکز۔جسے روتھ نے شفا خانے میں بدلا اور علاج کا آغاز کیا اور ہزاروں افراد کو واپس زندگی کی طرف بھیجا۔اب تک ان کی خدمات پر انہیں چوبیس سے زائد ایوارڈز اور شیلڈز سے نوازا گیا ہے۔
جبکہ لاہور کے معذور وقاص احمد نے بھی اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اس نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جو معذوروں میں مایوسی کو ختم کرکے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ان تین کرداروں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے انہوں نے اپنے دکھوں سے سبق سیکھا اور دوسروں کی زندگیوں کو دکھوں سے دور کرنے کو اپنا مشن بنایا۔اپنی ہمت سے کمزور لوگوں کو ہمت دی۔
یہی ہمارے ہیروز ہیں۔ہمیں انہیں اپنی بے حسی کی بھینٹ نہیں چڑھانا ہے ۔ہمیں ڈاکٹر روزینہ فضل کا بھی احسان مند ہوناچاہئیے جنہوں نے ڈاکٹر روتھ کا ساتھ دیابغیر کسی تمغہ یا طمع کے۔اور یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ہیروز معاشرے کے ان کرداروں سے چنتی ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہمیں اس روایت کو بھی بدلنا ہوگا کہ ہیرو صرف وہی ہوتا ہے جو ہاتھ میں اسلحہ لہراتے سلور اسکرین پر نمودار ہوتا ہے یا وہ خاتون جو اپنی دلربا اداؤں سے دشمن کے غول میں گھس کر اسے تباہ و برباد کر کے ہنستی مسکراتی انتقام پورا کرتی دو چار گانوں کے بعد ہٹ ہو جاتی ہے،ہمیں اپنے معاشروں کے اندر ان ہیروں کو تلاش کرنا ہوگا جو گمنام گلی محلوں میں اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ چاہے وہ لاہور سے تعلق رکھنا والا وقاص احمد ہو ، خاتون بی بی ہو یا 85 برس کی جرمن نژاد پاکستانی ڈاکٹر روتھ کیتھرین مارتھا ان کا پیغام کہ
" اچھی نیت اور پختہ ارادہ ہو تو دنیا کا ہر کام آسان ہو جاتا ہے ، اگر ہمت جواں ہو اور حوصلے بلند ہوں تو کسی بھی قسم کی معذوری یا مشکلات زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن پاتیں ۔"
معاشرے کے ان کرداروں نے فلسفہ زندگی کو بہت قریب سے نہ صرف دیکھا بلکہ اسے پڑھ کر دوسروں کی زندگیاں بنانے کو اپنا مقصد بنایا۔ پاکستان کی خاتون بی بی اسی محکمہ پولیس کا ایک حصہ رہی جسے ہم بے حس اور نہ جانے کیا کیا القاب سے نوازتے ہیں،جب ایک حادثے کے بعد انہیں اسپتال میں جانا پڑا اور تب انہیں احساس ہوا کہ علاج کے لئے آنے والے کس عذاب سے گزرتے ہیں،اگر وہ بھی عام عورتوں کی طرح اسے قسمت اور سسٹم کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتی تو شاید یہ سلسلہ کبھی نہ شروع ہوتاجو انہوں نے ڈھائی کینال کی جگہ میں ایک مسجد، تعلیم گاہ،اسپتال اور ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی صورت میں شروع کیا جہاں کی فضائیں ایک طرف خدا کی کبریائی بیان کر تی ہیں تو اس کے ساتھ ہی بہت سے بیماروں کو شفا بھی دے رہی ہیں،علم کے پیاسوں کی پیاس بھی بجھا رہیں ہیں اور وہ خواتین جو اسی معاشرے کے معاشی دھارے میں شامل ہونا چاہتی ہیں انہیں ہنرمند بنا رہیں ہیں اور یہ سب کچھ بلامعاوضہ مہیا کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر روتھ فاؤ تھا جو 1929 ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں مذہبی نن ہوتے ہوئے طب کی فیلڈ میں آئیں ،انہوں نے جنگ عظیم کے دور کی تباہیوں کو دیکھا تھا اور اس کے اثرات ان پر بھی پڑے ۔ان کا کہنا کہ انہیں سکون محسوس نہیں ہوتا تھا اور پھر ایک مذہبی مشن پر انڈیا روانہ ہوئیں 9 ستمبر 1960 کا دن تھا ،مگر تقدیر نے ان کی قسمت مین پاکستان کا نام لکھا تھا۔
ایک دن وہ میکلوڈ روڈ (چندریگر روڈ) پر کوڑھ جزام کے مریضوں کے ایک مرکز گئیں،یہ وہ دور تھا جب کوڑھ یا جزام ایک بیماری نہیں بلکہ خدا کا عذاب سمجھا جاتا تھا،یوں سمجھیں کہ آدھ مرے لوگوں کا قبرستان تھا وہ مرکز۔جسے روتھ نے شفا خانے میں بدلا اور علاج کا آغاز کیا اور ہزاروں افراد کو واپس زندگی کی طرف بھیجا۔اب تک ان کی خدمات پر انہیں چوبیس سے زائد ایوارڈز اور شیلڈز سے نوازا گیا ہے۔
جبکہ لاہور کے معذور وقاص احمد نے بھی اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اس نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جو معذوروں میں مایوسی کو ختم کرکے انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ان تین کرداروں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے انہوں نے اپنے دکھوں سے سبق سیکھا اور دوسروں کی زندگیوں کو دکھوں سے دور کرنے کو اپنا مشن بنایا۔اپنی ہمت سے کمزور لوگوں کو ہمت دی۔
یہی ہمارے ہیروز ہیں۔ہمیں انہیں اپنی بے حسی کی بھینٹ نہیں چڑھانا ہے ۔ہمیں ڈاکٹر روزینہ فضل کا بھی احسان مند ہوناچاہئیے جنہوں نے ڈاکٹر روتھ کا ساتھ دیابغیر کسی تمغہ یا طمع کے۔اور یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ہیروز معاشرے کے ان کرداروں سے چنتی ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔