پاکستان ایک نظر میں دل کا کیا کریں صاحب

اب بات جب دھرنے کی چل نکلی تو کیوں نہ کچھ باتیں فرض کر لیں۔ ایسی باتیں جن سے دل بہل جائے۔


شاہد محمود September 06, 2014
اب بات جب دھرنے کی چل نکلی تو کیوں نہ کچھ باتیں فرض کر لیں۔ ایسی باتیں جن سے دل بہل جائے۔ فوٹو اے ایف پی

نہ پہلے کچھ ہوا تھا اور نہ اب کچھ ہو گا۔سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک سب اس وقت تک چیختے چلاتے رہیں گے جب تک کوئی نیا کھیل شروع نہیں ہو جاتا۔ کھیل سے یاد آیا کہ اپنی کرکٹ ٹیم کتنے مزے میں ہے کہ سری لنکا سے اچھی خاصی دھلائی کے بعد میڈیا پر کچھ شور ہی نہیں اٹھا- وجہ ہم سب کو معلوم ہے کہ دھرنے کے کھیل سے کسی کو فرصت ہی نہیں۔

اب بات جب دھرنے کی چل نکلی تو کیوں نہ کچھ باتیں فرض کر لیں۔ ایسی باتیں جن سے دل بہل جائے۔ چلو فرض کرتے ہیں عمران کا نقطہ نظر ٹھیک نہیں، اس کو سیاست کا کچھ پتا نہیں وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ طاہر القادی کا تو ہم نام ہی نہیں لیتے کیونکہ یار لوگ ان کی پارٹی کو کچھ اہمیت ہی نہیں دیتے اور جب وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تو پھر ان کو سیریس لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ الگ بات کہ ان کی جماعت کے چودہ کارکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بھینٹ چڑھ گئے اور جمہوریت ٹس سے مس نہ ہوئی۔

خیر بات ہو رہی تھی عمران کی، فرض کرتے ہیں کہ عمران نے دھاندلی دھاندلی کی جو رٹ لگا رکھی ہے وہ بس جھوٹ کا پلندہ ہے، وہ دھاندلی کے نام پہ بہت بڑی سازش کرنا چاہتے ہیں، چار حلقوں والی بات بھی بس ایک ڈرامہ ہے اور اس سارے ڈرامے کا وہ مرکزی کردار ہے۔ جی ہاں ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ عمران ہی نے یہ بے وقت کا ہنگامہ اٹھا رکھا ہے ورنہ تو جمہوریت کے کھیل سے عوام بہت خوش ہیں۔ ہر طرف دودھ کی نہریں ہی نہریں بہہ رہی ہیں، انصاف کا خوب بول بالا ہے، پنجاب پولیس کی ایمانداری اور فرض شناسی کی فرشتے بھی قسمیں کھاتے ہیں، عوام کی خدمت میں پنجاب پولیس پیش پیش ہے جہاں بھی کچھ "دھرنے " کا خدشہ ہو، پنجاب پولیس رضاکارانہ طور پہ پہنچ جاتی ہے، معاملا شناش تو ایسی ہے کہ دھرنے والے بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

خیر بات ہو رہی تھی کچھ فرض کرنے کی۔ ہم نے فرض کر لیا کہ سب غلطی عمران اور تحریک انصاف والوں کی ہے۔ وہی اس سب کچھ کے ذمہ دار ہیں۔ اچھا ہوا کہ عمران سمیت تحریک انصاف کے اور لیڈروں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج ہو گئے ہیں۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ عمران کی بغاوت ہے، اس نے ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے۔ مگر یہ سب کچھ فرض کر لینے کے باوجود دل کو چین نہیں آتا ، دل ہے کہ مانتا نہیں، جب نگاہ پارلیمنٹ کی طرف اٹھتی ہے، جب ان ہیروز پہ نگاہ پڑتی ہے جو تلوار سونتے جمہوریت کو بچانے نکلے ہیں اور سب ایک صف میں کھڑے ہو گئے ہیں تو نگاہیں جھک جاتی ہیں یقین نہیں آتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن جمہوریت کے حافظوں میں شامل ہیں۔ وہی فضل الرحمن جو تحریک انصاف کے دھرنوں میں ہونے والے گانے بجانے کو فحاشی کا نام دے چکے ہیں۔

اچکزئی بھی خوب برس رہے ہیں کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچیں نہ پہنچیں، ان تک خوب پہنچ رہے ہیں اور کس کس کا نام لوں؟ مریم بی بی کو فرصت کے لمحے میسر آتے ہیں تو وہ بھی "خاندانی جمہوریت " کی حمایت میں ٹویٹ کر دیتی ہیں۔ بلاول زرداری بھٹو بھی ٹویٹر پہ "ایک بہادر آدمی ، ہاشمی ہاشمی" کے نعرے بلند کر رہے ہیں- ٹویٹر سے لے کر پارلیمنٹ تک جمہوریت کے پاسبان متحد ہو گئے ہیں-

عمران اور قادری پہ تابڑ توڑ حملے کرنے والے ماڈل ٹاؤن پہ ہونے والے حملہ آوروں کا نام لینے کو بھی تیار نہیں۔ 14 انسانوں اور پاکستانیوں کا قتل تو بغاوت نہیں مگر دھرنا دینا بغاوت ہے۔ بس یہ سوچ کر کہ ایک خاندان کی حکومت اور ایک ہی صف میں کھڑے جمہوریت کے محافظ عوام کے قتل پر کیوں چپ ہیں تو دل کچھ بے چین سا ہو جاتا ہے-

مان لیتے ہیں کہ عمران غلط ہے مگر ہاشمی صاحب دل کا کیا کریں، دل کو کیسے سمجھائیں کہ عوام کا قتل تو بغاوت نہیں پر پی ٹی وی پر حملہ بغاوت ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں