سابق چیف جسٹس کے اعلان پر عمل کب ہوگا
رطانوی راج کے سمٹنے کے بعد اب بھی اُن کی زبان کا آسیب ہم پر پوری طرح مسلط ہے
وقت کے قاضی القصناۃ کا دربار، کبھی اہمیت سے خالی نہیں رہا۔۔۔ اور جب یہ قاضی دنیا کے کسی خوف سے آزادی کا دعویٰ کرے اور حق اور سچ کا داعی بنے تو پھر اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔۔۔
20اپریل 2013ء۔۔۔
ایسا ہی ایک دربار سجا تھا بعنوان ''عالمی عدالتی کانفرنس''
دنیا بھر کے قانون داں ہمہ تن گوش۔۔۔ عالمی سطح پر انصاف کی فراہمی اور عدل کو یقینی بنانے کے معاملات پر بات چیت۔۔۔ آزادانہ عدالتی فیصلوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر گفتگو۔۔۔ اس دوران ایک نوجوان وکیل اٹھتا ہے اور اپنے ملک کے چیف جسٹس کے روبرو یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ عدالتی فیصلے انگریزی میں ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی انہیں اردو میں بھی مشتہر کیا جائے۔۔۔ جسٹس جواد ایس خواجہ جی کھول کر اس نوجوان کی پذیرائی کرتے ہیں۔۔۔ اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اعلان کر دیتے ہیں کہ تمام عدالتی فیصلے اب انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کیے جائیں گے! یہی نہیں ساتھ ہی انہوں نے 1956ء سے اب تک کے عوامی اہمیت اور انسانی حقوق کے تمام فیصلوں کے بھی قومی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعلان کیا، تاکہ عوام کو ان سے متعلق آگاہی حاصل ہو۔
یوں تو یہ کوئی بہت بڑا اعلان معلوم نہیں ہوتا، مگر یہ اعلان ایک ایسی ریاست میں کیا جا رہا تھا، جہاں 90 برس کے مکمل برطانوی راج کے سمٹنے کے بعد اب بھی اُن کی زبان کا آسیب پوری طرح مسلط ہے۔۔۔ اور یہ زبان کیا ہے باقاعدہ ایک طوق غلامی ہے جو اس ملک کے غریب عوام کے گلے میں 1947ء کے بعد سے نسل در نسل پڑا ہے۔
اب جب ملک کے چیف جسٹس نے اردو کے حوالے سے اس عزم کا اظہار کر ڈالا، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔۔ قومی زبان کے چاہنے والوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ جاتا ہے۔ ایسا لگنے لگتا ہے کہ اپنا جغرافیہ، اپنا پرچم، اپنا لباس اور اپنا قانون رکھنے والی اس ریاست کے ایوان عدل میں اب فرنگی زبان کے بہ جائے اس کی اپنی زبان راج کیا کرے گی۔ اس ملک کے عام آدمی کی زبان، جس میں وہ سوچتا اور اظہار کرتا ہے۔
پتا چلے گا کہ ہماری زبان اظہار سے لے کر ابلاغ تک کے وسیلے میں کتنی تیز تر ہے اور یہ تو اس دھرتی کی اپنی زبان ہے، اسی وجہ سے یہ اس ملک کے ناخداؤں کو کبھی نہیں بھائی۔ ملک کی یک جہتی کی یہ علامت ریاست کی ان دیواروں میں سے ہے، جہاں در حقیقت 98 فی صد عوام چُن دیے گئے ہیں کہ نہ مرضی سے جیتے ہیں اور نہ مرتے۔
وقت کے چیف جسٹس کا یہ دربار برخاست ہو گیا۔۔۔ سمے کا دھارا بہتا چلا گیا۔۔۔ افتخار محمد چوہدری، چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر اپنی مدت تمام کر گئے۔ ان کے بعد جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی بھی اس عہدے پر برا جمان رہے اور اب جسٹس ناصر الملک اس مسند پر متمکن ہیں۔مگر وہ اعلان۔۔۔؟ جو لگ بھگ سوا سال پہلے اس ملک کے قاضی القضاۃ نے کیا تھا، عمل کا روپ نہ دھار سکا۔
جیسے اس ملک کے منتخب ایوانوں کی تاریخ رہی ہے کہ جب، جب اس ملک کے لوگوں کو ان کی مشترکہ اور متفقہ زبان دینے کی آواز اٹھی۔۔۔ صاحبان اقتدار نے اسے ''بہت جلد'' کی لوری دے کر پھر سے سلا دیا۔ اب کی بار اعلان سے محسوس ہوا کہ جب ملک کے چیف جسٹس نے اس سمت ایک انقلابی اعلان کیا ہے، تو پھر یقیناً یہ دیرینہ وعدہ پورا ہونے کا وقت بہت قریب ہے، مگر شومئی قسمت ایسا نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین قانون سے گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد
(سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ)
اردو میں عدالتی فیصلوں کا شایع ہونا ایک بتدریج عمل ہے۔ اس سلسلے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ البتہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور کچھ دیگر جج صاحبان انفرادی طور پر اپنے فیصلے انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کر رہے ہیں۔ انتظامی سطح پر اگر دیکھا جائے تو اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر مترجموں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تو جج ہی پورے نہیں ہیں، عدالتی عملے کا بحران ہے۔ نچلی عدالتوں میں تو بہت سی جگہوں پر کمرے تک دست یاب نہیں۔ اس لیے ناکافی عملے سے کس طرح عدالتی فیصلوں کے ترجمے کا اضافی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ تو عدالتی عملہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح گزارا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ عدلیہ تو حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ عدالتوں سے تو ان کی روح کانپتی ہے۔ حکم راں بس اپنی حاکمیت چاہتے ہیں، اس کے لیے عدالتی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں۔ عدلیہ کو اب یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ دوسری طرف لوگوں میں بھی اپنے حقوق کے حوالے سے بیداری آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بدلا ہوا سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے، جس کے چاہے فوری طور پر کوئی نتیجہ نہ نکلے، لیکن یہ دوررَس نتائج کا باعث ہو گا۔
بیرسٹر صلاح الدین (صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)
ہمارے ہاں 70 برس سے عدالتی فیصلے انگریزی زبان میں کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے مقدمات میں حوالوں کے لیے پرانے فیصلوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے سارے قوانین اور اس میں مروج اصطلاحات بھی انگریزی زبان میں ہیں۔ اس لیے یہ سب اچانک کرنا آسان نہیں ہے۔ عدالتوں کی زبان اردو بنانے کے لیے کام ہمیں لا کالجوں میں قانون کی تدریس سے شروع کرنا پڑے گا۔ وہاں ظاہر ہے تمام نصاب اور تدریس انگریزی زبان ہی میں ہے۔ جب وہاں چیزیں اردو میں ڈھلنا شروع ہوں گی، تو دھیرے دھیرے یہ عدالتوں کی زبان بھی بنتی چلی جائے گی۔ یہ ایک طویل المدتی کام ہے۔
ہمارے زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ہمیں راتوں رات اس کام پر عمل ہونے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ کام اوپر سے نیچے کی طرف نہیں آسکتا، اس کے لیے نیچے سے اوپر آنا پڑے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی اہمیت کے مقدمات کے فیصلے انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کرنے شروع کیے ہیں، تاکہ عوام کے جاننے کے حق کی تکمیل ہوسکے۔ اس حوالے سے اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو ہندوستان، بنگلادیش اور ہمارے قرب وجوار کے دیگر ممالک میں بھی عدالتوں کی زبان انگریزی ہی ہے۔
دنیا بھر میں جہاں ایک دفع جو زبان رائج ہوگئی وہی چلی آرہی ہے۔ البتہ چین، جاپان اور تھائی لینڈ وغیرہ کی عدالتوں میں ان کی اپنی زبان ہی چل رہی ہے، لیکن وہاں دور غلامی میں بھی عدالتی زبان تبدیل نہیں ہوئی، جب کہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں انگریز کے ساتھ انگریزی کی ایسی غلامی رہی، جو ختم نہ ہوسکی۔ اس سے نجات کے لیے عملی سطح پر خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ (سنیئر وکیل سپریم کورٹ)
چیف جسٹس کے اعلان کے باوجود اب تک اس پر عمل کے لیے کام نہیں کرایا گیا، یہی وجہ ہے کہ اردو میں عدالتی فیصلے کا کام آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہم نے قومی زبان کے نفاذ کے حوالے سے ایک عرضی دائر کی ہوئی ہے۔ اردو سے متعلق آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کی اس درخواست پر فیصلہ عنقریب متوقع ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپنی زبان تو دور کی بات ہم تو اپنی عدالتوں میں دور غلامی کے خطاب ''مائی لارڈ'' سے بھی جان نہیں چھڑا سکے، حالاں کہ 1980ء میں کہا گیا تھا کہ اب جج صاحبان کو مائی لارڈ کہہ کر مخاطب نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔
نعیم قریشی ایڈووکیٹ (سابق صدرکراچی بار ایسوسی ایشن)
سابق چیف جسٹس نے اس وقت جسٹس جواد ایس خواجہ کی خواہش پر ایسا کیا تھا، لیکن کانفرنسز میں ہونے والی بات چیت پر عمل ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ یہ سپریم جوڈیشل کونسل اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کا کام ہے کہ اس پر عمل درآمد کرائیں۔ بار ایسوسی ایشنز کی بھی یہ خواہش ہے کہ عدالتی فیصلے اردو میں شایع کیے جائیں، کیوں کہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان کی زبان میں فیصلہ سامنے آئے، تاکہ انہیں معلوم تو چلے کہ عدالت کہہ کیا رہی ہے۔ اس سے عوام الناس براہ راست مستفید ہوں گے۔
آج عدالتوں کی زبان انگریزی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق سے آگاہی نہیں ہوپاتی۔ اگر اس فیصلے پر عمل ہوجائے، تو یہ ایک عام آدمی کے لیے بہت زیادہ مفید بات ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس جانب توجہ دلائی تھی، اب وہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے چاہیں تو عدالتی حکم کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرا سکتے ہیں۔
محمود الحسن ایڈووکیٹ
(سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)
اس معاملے کو سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے۔ ہماری عدالتوں میں اب اتنا ضرور ہے کہ دلائل کے لیے انگریزی زبان کی پابندی نہیں ہے، لیکن فیصلے بدستور انگریزی میں ہی آرہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے قیام (1956ء) سے اب تک تمام فیصلوں کی زبان یہی ہے۔
اس ضمن میں کام کو تیز کرنا چاہیے، تاکہ ہماری قومی زبان کو فروغ حاصل ہو اور لوگوں کی خواہش کے مطابق انہیں اپنی زبان میں عدالتی فیصلے حاصل ہوسکیں۔ پچھلے فیصلوں اور قوانین کی کتب کے ترجمے کے لیے تو وقت درکار ہوگا، لیکن نئے آنے والے فیصلے تو قومی زبان میں لکھے جانے چاہئیں، جو کہ نہیں لکھے جا رہے۔ اقوام عالم ہر جگہ اپنی قومی زبانوں کو ترجیح دیتی ہیں، جب کہ ہم اپنے ملک میں بھی انگریزی بول کر خود کو بہت بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک قومی زبان کے لیے بہت سا کام ہوجانا چاہیے تھا، تاکہ قومی یک جہتی کو فروغ حاصل ہو تا۔
ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ (وکیل سندھ ہائی کورٹ)
اپریل 2013ء میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ اعلان ضرور کیا تھا کہ عدالتی فیصلے اب قومی زبان میں بھی مشتہر کیے جائیں گے، لیکن اب تک اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع نہیں ہوسکا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے سبک دوش ہونے کے بعد اب یہ معاملہ ترجیحات میں شامل نہ ہو، جس کی وجہ سے اس سمت میں کام سست روی کا شکار ہوگیا ہو۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی عدالتوں میں سندھ کی بہ نسبت انگریزی کے بہ جائے اردو کا استعمال زیادہ ہے اور بیش تر فیصلے اردو میں بھی دیے جاتے ہیں، جب کہ یہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ جج صاحبان اگر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فیصلے دینے لگیں، تو اس میں اضافی وقت صرف ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری عدالتوں میں دلائل کے دوران اگر اردو ترجمے میں ابہام پیدا ہو تو اس ضمن میں براہ راست انگریزی زبان ہی کو ہمارے قوانین میں برتری حاصل ہے۔
20اپریل 2013ء۔۔۔
ایسا ہی ایک دربار سجا تھا بعنوان ''عالمی عدالتی کانفرنس''
دنیا بھر کے قانون داں ہمہ تن گوش۔۔۔ عالمی سطح پر انصاف کی فراہمی اور عدل کو یقینی بنانے کے معاملات پر بات چیت۔۔۔ آزادانہ عدالتی فیصلوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر گفتگو۔۔۔ اس دوران ایک نوجوان وکیل اٹھتا ہے اور اپنے ملک کے چیف جسٹس کے روبرو یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ عدالتی فیصلے انگریزی میں ہوتے ہیں۔
ساتھ ہی انہیں اردو میں بھی مشتہر کیا جائے۔۔۔ جسٹس جواد ایس خواجہ جی کھول کر اس نوجوان کی پذیرائی کرتے ہیں۔۔۔ اور اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اعلان کر دیتے ہیں کہ تمام عدالتی فیصلے اب انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کیے جائیں گے! یہی نہیں ساتھ ہی انہوں نے 1956ء سے اب تک کے عوامی اہمیت اور انسانی حقوق کے تمام فیصلوں کے بھی قومی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعلان کیا، تاکہ عوام کو ان سے متعلق آگاہی حاصل ہو۔
یوں تو یہ کوئی بہت بڑا اعلان معلوم نہیں ہوتا، مگر یہ اعلان ایک ایسی ریاست میں کیا جا رہا تھا، جہاں 90 برس کے مکمل برطانوی راج کے سمٹنے کے بعد اب بھی اُن کی زبان کا آسیب پوری طرح مسلط ہے۔۔۔ اور یہ زبان کیا ہے باقاعدہ ایک طوق غلامی ہے جو اس ملک کے غریب عوام کے گلے میں 1947ء کے بعد سے نسل در نسل پڑا ہے۔
اب جب ملک کے چیف جسٹس نے اردو کے حوالے سے اس عزم کا اظہار کر ڈالا، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔۔۔ قومی زبان کے چاہنے والوں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ جاتا ہے۔ ایسا لگنے لگتا ہے کہ اپنا جغرافیہ، اپنا پرچم، اپنا لباس اور اپنا قانون رکھنے والی اس ریاست کے ایوان عدل میں اب فرنگی زبان کے بہ جائے اس کی اپنی زبان راج کیا کرے گی۔ اس ملک کے عام آدمی کی زبان، جس میں وہ سوچتا اور اظہار کرتا ہے۔
پتا چلے گا کہ ہماری زبان اظہار سے لے کر ابلاغ تک کے وسیلے میں کتنی تیز تر ہے اور یہ تو اس دھرتی کی اپنی زبان ہے، اسی وجہ سے یہ اس ملک کے ناخداؤں کو کبھی نہیں بھائی۔ ملک کی یک جہتی کی یہ علامت ریاست کی ان دیواروں میں سے ہے، جہاں در حقیقت 98 فی صد عوام چُن دیے گئے ہیں کہ نہ مرضی سے جیتے ہیں اور نہ مرتے۔
وقت کے چیف جسٹس کا یہ دربار برخاست ہو گیا۔۔۔ سمے کا دھارا بہتا چلا گیا۔۔۔ افتخار محمد چوہدری، چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر اپنی مدت تمام کر گئے۔ ان کے بعد جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی بھی اس عہدے پر برا جمان رہے اور اب جسٹس ناصر الملک اس مسند پر متمکن ہیں۔مگر وہ اعلان۔۔۔؟ جو لگ بھگ سوا سال پہلے اس ملک کے قاضی القضاۃ نے کیا تھا، عمل کا روپ نہ دھار سکا۔
جیسے اس ملک کے منتخب ایوانوں کی تاریخ رہی ہے کہ جب، جب اس ملک کے لوگوں کو ان کی مشترکہ اور متفقہ زبان دینے کی آواز اٹھی۔۔۔ صاحبان اقتدار نے اسے ''بہت جلد'' کی لوری دے کر پھر سے سلا دیا۔ اب کی بار اعلان سے محسوس ہوا کہ جب ملک کے چیف جسٹس نے اس سمت ایک انقلابی اعلان کیا ہے، تو پھر یقیناً یہ دیرینہ وعدہ پورا ہونے کا وقت بہت قریب ہے، مگر شومئی قسمت ایسا نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین قانون سے گفتگو کی گئی جو نذر قارئین ہے۔
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد
(سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ)
اردو میں عدالتی فیصلوں کا شایع ہونا ایک بتدریج عمل ہے۔ اس سلسلے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ البتہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور کچھ دیگر جج صاحبان انفرادی طور پر اپنے فیصلے انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کر رہے ہیں۔ انتظامی سطح پر اگر دیکھا جائے تو اس کام کے لیے بڑے پیمانے پر مترجموں کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تو جج ہی پورے نہیں ہیں، عدالتی عملے کا بحران ہے۔ نچلی عدالتوں میں تو بہت سی جگہوں پر کمرے تک دست یاب نہیں۔ اس لیے ناکافی عملے سے کس طرح عدالتی فیصلوں کے ترجمے کا اضافی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ تو عدالتی عملہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح گزارا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ عدلیہ تو حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ عدالتوں سے تو ان کی روح کانپتی ہے۔ حکم راں بس اپنی حاکمیت چاہتے ہیں، اس کے لیے عدالتی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں۔ عدلیہ کو اب یہ احساس ہو گیا ہے کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ دوسری طرف لوگوں میں بھی اپنے حقوق کے حوالے سے بیداری آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایک بدلا ہوا سیاسی منظر نامہ ہمارے سامنے ہے، جس کے چاہے فوری طور پر کوئی نتیجہ نہ نکلے، لیکن یہ دوررَس نتائج کا باعث ہو گا۔
بیرسٹر صلاح الدین (صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)
ہمارے ہاں 70 برس سے عدالتی فیصلے انگریزی زبان میں کیے جا رہے ہیں۔ بہت سے مقدمات میں حوالوں کے لیے پرانے فیصلوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے سارے قوانین اور اس میں مروج اصطلاحات بھی انگریزی زبان میں ہیں۔ اس لیے یہ سب اچانک کرنا آسان نہیں ہے۔ عدالتوں کی زبان اردو بنانے کے لیے کام ہمیں لا کالجوں میں قانون کی تدریس سے شروع کرنا پڑے گا۔ وہاں ظاہر ہے تمام نصاب اور تدریس انگریزی زبان ہی میں ہے۔ جب وہاں چیزیں اردو میں ڈھلنا شروع ہوں گی، تو دھیرے دھیرے یہ عدالتوں کی زبان بھی بنتی چلی جائے گی۔ یہ ایک طویل المدتی کام ہے۔
ہمارے زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ہمیں راتوں رات اس کام پر عمل ہونے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہ کام اوپر سے نیچے کی طرف نہیں آسکتا، اس کے لیے نیچے سے اوپر آنا پڑے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے قومی اہمیت کے مقدمات کے فیصلے انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی شایع کرنے شروع کیے ہیں، تاکہ عوام کے جاننے کے حق کی تکمیل ہوسکے۔ اس حوالے سے اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو ہندوستان، بنگلادیش اور ہمارے قرب وجوار کے دیگر ممالک میں بھی عدالتوں کی زبان انگریزی ہی ہے۔
دنیا بھر میں جہاں ایک دفع جو زبان رائج ہوگئی وہی چلی آرہی ہے۔ البتہ چین، جاپان اور تھائی لینڈ وغیرہ کی عدالتوں میں ان کی اپنی زبان ہی چل رہی ہے، لیکن وہاں دور غلامی میں بھی عدالتی زبان تبدیل نہیں ہوئی، جب کہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں انگریز کے ساتھ انگریزی کی ایسی غلامی رہی، جو ختم نہ ہوسکی۔ اس سے نجات کے لیے عملی سطح پر خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ (سنیئر وکیل سپریم کورٹ)
چیف جسٹس کے اعلان کے باوجود اب تک اس پر عمل کے لیے کام نہیں کرایا گیا، یہی وجہ ہے کہ اردو میں عدالتی فیصلے کا کام آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہم نے قومی زبان کے نفاذ کے حوالے سے ایک عرضی دائر کی ہوئی ہے۔ اردو سے متعلق آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کی اس درخواست پر فیصلہ عنقریب متوقع ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپنی زبان تو دور کی بات ہم تو اپنی عدالتوں میں دور غلامی کے خطاب ''مائی لارڈ'' سے بھی جان نہیں چھڑا سکے، حالاں کہ 1980ء میں کہا گیا تھا کہ اب جج صاحبان کو مائی لارڈ کہہ کر مخاطب نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔
نعیم قریشی ایڈووکیٹ (سابق صدرکراچی بار ایسوسی ایشن)
سابق چیف جسٹس نے اس وقت جسٹس جواد ایس خواجہ کی خواہش پر ایسا کیا تھا، لیکن کانفرنسز میں ہونے والی بات چیت پر عمل ذرا کم ہی ہوتا ہے۔ یہ سپریم جوڈیشل کونسل اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کا کام ہے کہ اس پر عمل درآمد کرائیں۔ بار ایسوسی ایشنز کی بھی یہ خواہش ہے کہ عدالتی فیصلے اردو میں شایع کیے جائیں، کیوں کہ یہ عوام کا بنیادی حق ہے کہ ان کی زبان میں فیصلہ سامنے آئے، تاکہ انہیں معلوم تو چلے کہ عدالت کہہ کیا رہی ہے۔ اس سے عوام الناس براہ راست مستفید ہوں گے۔
آج عدالتوں کی زبان انگریزی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے حقوق سے آگاہی نہیں ہوپاتی۔ اگر اس فیصلے پر عمل ہوجائے، تو یہ ایک عام آدمی کے لیے بہت زیادہ مفید بات ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس جانب توجہ دلائی تھی، اب وہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے چاہیں تو عدالتی حکم کے ذریعے اس پر عمل درآمد کرا سکتے ہیں۔
محمود الحسن ایڈووکیٹ
(سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن)
اس معاملے کو سپریم کورٹ کو دیکھنا چاہیے۔ ہماری عدالتوں میں اب اتنا ضرور ہے کہ دلائل کے لیے انگریزی زبان کی پابندی نہیں ہے، لیکن فیصلے بدستور انگریزی میں ہی آرہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے قیام (1956ء) سے اب تک تمام فیصلوں کی زبان یہی ہے۔
اس ضمن میں کام کو تیز کرنا چاہیے، تاکہ ہماری قومی زبان کو فروغ حاصل ہو اور لوگوں کی خواہش کے مطابق انہیں اپنی زبان میں عدالتی فیصلے حاصل ہوسکیں۔ پچھلے فیصلوں اور قوانین کی کتب کے ترجمے کے لیے تو وقت درکار ہوگا، لیکن نئے آنے والے فیصلے تو قومی زبان میں لکھے جانے چاہئیں، جو کہ نہیں لکھے جا رہے۔ اقوام عالم ہر جگہ اپنی قومی زبانوں کو ترجیح دیتی ہیں، جب کہ ہم اپنے ملک میں بھی انگریزی بول کر خود کو بہت بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک قومی زبان کے لیے بہت سا کام ہوجانا چاہیے تھا، تاکہ قومی یک جہتی کو فروغ حاصل ہو تا۔
ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ (وکیل سندھ ہائی کورٹ)
اپریل 2013ء میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ اعلان ضرور کیا تھا کہ عدالتی فیصلے اب قومی زبان میں بھی مشتہر کیے جائیں گے، لیکن اب تک اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع نہیں ہوسکا ہے، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے سبک دوش ہونے کے بعد اب یہ معاملہ ترجیحات میں شامل نہ ہو، جس کی وجہ سے اس سمت میں کام سست روی کا شکار ہوگیا ہو۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی عدالتوں میں سندھ کی بہ نسبت انگریزی کے بہ جائے اردو کا استعمال زیادہ ہے اور بیش تر فیصلے اردو میں بھی دیے جاتے ہیں، جب کہ یہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ جج صاحبان اگر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی فیصلے دینے لگیں، تو اس میں اضافی وقت صرف ہوگا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری عدالتوں میں دلائل کے دوران اگر اردو ترجمے میں ابہام پیدا ہو تو اس ضمن میں براہ راست انگریزی زبان ہی کو ہمارے قوانین میں برتری حاصل ہے۔