گوہر نایاب وہ ایک مطمئن روح تھے بابا احمد علی کا تذکرہ
کیا بات تھی بابا احمد علی کی۔ طمع، حرص، لالچ، خود غرضی سے پاک۔
احمد علی 1924 میں انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی تھے۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹے احمد علی نے دینی تعلیم حاصل کی تھی۔
وہ بھی بس واجبی سی۔ ان کے والد کی اتنی آمدنی تھی کہ گزارا اچھا ہوتا تھا۔ زمانہ سادہ تھا، بناوٹ تھی ضرور پر اتنی نہیں جتنی اب ہے۔ لوگوں میں خلوص تھا، ہم دردی تھی اور سب سے بڑھ کر انسانیت تھی اور جب انسانیت ہو تو پھر بہت سے عیب، عیب نہیں لگتے۔ بس یہ کہ اچھا وقت تھا، کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کھائے گا کہاں سے؟ لائے گا کہاں سے؟ بڑے بوڑھے اپنے دھندوں سے لگے رہتے اور لڑکے بالے کھیل کود میں۔ 20، 20 برس کے نوجوانوں کو بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ابھی سے ان پر کیا بوجھ ڈالیں، ان کے کھیلنے کو دنے کے دن ہیں۔ کام کرنے کو تو بہتیرے دن ہیں۔
نجانے پھر کب انھیں کھیل کے دن نصیب ہوں۔ لڑکے ٹولیوں کی شکل میں کھیت کھلیانوں میں گھومتے پھرتے، بستی بستی سیر سپاٹا کرتے، کٹھ پتلی کا تماشا دیکھ کر قہقہے برساتے اور زندگی کا لطف دوبالا ہوتا رہتا۔ کشتی، گھڑ سواری اور گتکا (لٹھ بازی) نوجوان ہی نہیں بوڑھے بھی ان میں حصہ لیتے۔ تہواروں پر میلے لگتے اور پھر وہاں مقابلے ہوتے، ڈھول تاشے بجتے اور زندگی بلا کسی خوف و اندیشے کے گزرتی چلی جاتی۔ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص اپنی زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوگیا اور یہ سچ تھا۔ زندگی نام تھا زندہ دلی کا، بہار کا، ایسی بہار جسے خزاں کا خوف نہیں تھا، ایک کے غموں میں دوسرے ایسے شریک ہوتے کہ وہ اپنا غم بھول جاتا اور شادیوں کے گیت دو دو ماہ تک گائے جاتے۔ کسی ایک گھر کی میت گاؤں بھر کی میت تھی اور شادی گاؤں بھر کے لیے نوید مسرت۔ سب کچھ سانجھا تھا۔ خوشی بھی غمی بھی، عیش بھی، تنگ دستی بھی۔ کیا خوب صورت اور سنہرا دور تھا۔
احمد علی گھنٹوں اپنی کہانی سناتے اور یوں لگتا جیسے وہ خود کو وہیں پاتے ہیں۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی اور چاروں اور رقص کرنے لگتی اور پھر وہ محبت سے میرا ہاتھ تھام لیتے اور کہتے بیٹا تمھیں کیا کیا سناؤں، زندگی کے 75 سالوں کی کہانی سنانے کے لیے مہینوں درکار ہیں اور تمھیں تو بہت کام ہیں۔ آج کے نوجوانوں پر انھیں بہت ترس آتا اور وہ کہتے ان بے چاروں کی تو زندگی اجیرن ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ خود کو مفلسی میں گھرا پاتے ہیں، نہ کھیت، کھلیان کہ جہاں جاکر وہ کھیل سکیں، نہ جھیلیں، نہ نہریں۔ وہ کیا کریں، کہاں جائیں اور پھر بھی وہ بد نام ہیں۔ صبح اٹھتے ہی کام پر دوڑتے ہیں، بسوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ کیا زندگی ہے ان کی، مجھے ان معصوموں پر بہت ترس آتا ہے۔ پیدا ہونے سے موت تک انھیں کام ہے۔ کتنی دکھ بھری زندگی ہے ان کی، نہ انھیں جوانی آتی ہے۔ یہ تو بس بوڑھے ہی پیدا ہوتے ہیں، قہقہے، شرارتیں، نہ شوخیاں، نہ امنگ۔
احمد علی نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دنیا کے نقشے پر ابھرتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے:
بیٹا مجھے وہ زمانہ بہت خوب یاد ہے۔ ہیرا، مانک، رامو، یعقوب، جمیل، ماٹھا اور میں گہرے دوست تھے۔ ہر جگہ ساتھ کھانا پینا، سب کچھ سانجھا۔ ہماری دوستی مثالی تھی۔ پھر ایک نعرہ بلند ہوا، ہمیں الگ ملک چاہیے، بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ پھر کیا تھا ہر جگہ، ہر چوپال میں یہ بات سنی اور کہی جانے لگی، بحثیں ہونے لگیں اور پھر ایک عجیب منظر ابھر آیا۔ بحثیں بڑھتے بڑھتے رنجشوں میں بدل گئیں اور جو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامتے، سہارا دیتے، گلے لگاتے تھے گریبانوں تک جاپہنچے اور محبت، پیار خلوص کے گیتوں کے بجائے نفرت، تعصب، درندگی، رقص کرنے لگی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے ایک ہرا بھرا درخت سوکھ گیا ہو، اس میں پھولوں کے بجائے کانٹے ابھر آئے ہوں، ایسے کانٹے جن میں زہر بھرا ہو۔ جس سے بات کرو، وہی عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگتا۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب میں گھر پہنچا تو والد صاحب نے اونچی آواز میں کہا احمد علی آج سے تم ہیرا، مانک، رامو سے نہیں ملنا۔ زمانہ ایسا تھا کہ میں ان سے یہ نہ کہہ سکا کہ کیوں؟ میں رات بھر نہ سوسکا اور صبح اپنی والدہ سے پوچھ بیٹھا۔ انھوں نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بولیں: بیٹا زمانہ خراب ہورہا ہے، طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ ہم مسلم ہیں اور وہ ہندو۔ تمھارا نوجوان خون ہے۔ کبھی آپس میں الجھ گئے تو بات بڑھ جائے گی۔ اس گاؤں میں ویسے بھی ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے تمھارے ابا تمھیں منع کرتے ہیں۔ لیکن ماں: وہ تو میرے بچپن کے دوست ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے، وہ تو میرے اپنے ہیں۔ ہم نے تو کبھی اس پر بات بھی نہیں کی۔ لیکن ماں باپ کا حکم تھا، سو ماننا پڑا اور میں گھر کا ہو رہا۔ میرے دوست گھر آتے تو میں بیماری کا بہانہ بنا کر ٹال دیتا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دن گاؤں میں جھگڑا ہوگیا۔ چھوٹا موٹا جھگڑا طول پکڑ گیا اور پھر گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا، ہندو اور مسلمان میں۔
دو دن ہی گزرے تھے کہ پھر جھگڑا ہوگیا۔ وجہ تھی پاکستان۔ اور پھر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرے دو بھائی اس دن مارے گئے۔ پاکستان بن گیا تھا اور ہمارے گاؤں کے مسلمانوں نے ہجرت کی تیاری شروع کردی تھی۔ لیکن جسے شہادت نے منتخب کرلیا ہو وہ کیسے ہجرت کرسکتا ہے۔ شیطان ننگا ناچنے لگا اور ایک کالی رات میں ہم پر حملہ ہوگیا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ مجھے تم بزدل کہوگے، کہہ لو۔ میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔ کچھ پتا نہیں ماں باپ، بہنوں اور بھائی کیا کیا ہوا؟ ساری رات بھاگ بھاگ کر میری حالت خراب ہوگئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ندی نالے، کھیت کھلیان مرگھٹ بن گئے تھے۔ جسے جتنی کمینگی اور درندگی کا موقع ملا وہ کر گزرا۔ صدیوں کی دوستی ہوا ہوگئی۔
لمبی بات کیا کروں۔ میں قافلوں کے ساتھ لاہور پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ تنہا اور اکیلا۔ لاہور میں کیمپ لگے ہوئے تھے، کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ میں کیا دہراؤں۔ میرے تو کوئی آگے پیچھے رہا نہیں تھا۔ گم صم بیٹھا رہتا یا سڑکوں پر گھومتا۔ کھانا کہیں نہ کہیں سے مل جاتا۔ مجھے کوئی کام آتا تھا نہ کاج۔ لاڈ پیار میں پلا بڑھا تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور وہ بھی سر چڑھا۔ لیکن سب کچھ ہوا ہوگیا۔
کچھ تو کرنا تھا۔ میں کئی مرتبہ راوی گیا اور سوچتا رہا جب کوئی نہیں بچا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں۔ پھر آواز آتی اگر مرنا ہی تھا تو وہیں گاؤں میں سب کے ساتھ مرجاتے، اتنی مصیبتوں اور تکلیفوں سے یہاں تک پہنچنے کی کیا ضرورت تھی۔ بس یہ سن کر میں اپنے ارادے سے باز آجاتا۔ پھر ایک سیٹھ صاحب کے پاس کام کرنے لگا۔ کچھ پیسے جمع کیے اور ٹھیلے پر بچوں کی چیزیں فروخت کرنا شروع کیں۔
کیمپ کے لوگوں سے دوستی تو ہو ہی گئی تھی۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ ایک دن ایک بڑے صاحب نے مجھے کہا تمھیں شادی تو کرنی ہی ہے تو اب کرڈالو۔ میں نے انکار کردیا کہ میں کہاں رکھوں گا اور کیسے کھلاؤں گا۔ انھوں نے حوصلہ بڑھایا اور پھر کیمپ ہی میں ایک ایسی لڑکی سے جس کا کوئی نہیں بچا تھا میری شادی کرادی گئی۔ میں کچھ عرصے ان صاحب کے گھر مقیم رہا اور پھر کراچی آگیا۔
کیوں؟ بس ویسے ہی، کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ کراچی میں اس وقت مہاجرین پہنچ رہے تھے۔ مقامی لوگ خیال بھی رکھتے تھے۔ کراچی پہنچ کر میں نے دیکھا کہ یہاں کلیم بھرنے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ جو وہاں پر کنگلا تھا یہاں پر حویلی والا بن بیٹھا۔ مجھے بھی کہا گیا کہ کلیم بھرو لیکن میری غیرت نہیں مانی، کیا قربانیوں کے بدلے گھر لے لوں۔ میرے ہاتھ پاؤں میں دم تھا۔ کچھ رقم تھی۔ میں نے پان سگریٹ کا کھوکھا لگالیا، گزارا اچھا تھا۔ ہم دو افراد تھے۔ پھر نجانے کیوں وہ کھوکھا بیچ دیا اور کباڑی کا کام کرنے لگا۔ اسے چھوڑ کر مزدوری کی۔ وزن اٹھایا، کہیں چین نہیں آیا تو لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر پانی بھرنے لگا۔ اب تو پانی کی سہولت گھر گھر ہے۔ اس وقت بہت تنگی تھی، بس اب تک یہی کیے جارہا ہوں۔
احمد علی جنھیں میں ''بابا'' کہا کرتا تھا، یہاں تک پہنچ کر خاموش ہوجاتے۔ لیکن ان کی اصل کہانی تو مجھے معلوم تھی۔ اﷲ نے انھیں چار بچیوں سے نوازا تھا۔ میں نے ان جیسا خود دار انسان نہیں دیکھا۔ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں مقیم تھے۔ سارا دن گھروں اور دکانوں میں پانی بھرتے، سردی ہو یا گرمی ان کے معمول میں کبھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ خاموش طبع تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت تنگی میں اپنا گزارا کرتے ہیں۔ سعادت مند بچیوں کا نصیبا جاگا اور وہ اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ بچیوں کی رخصتی میں جتنی مشکلات انھیں پیش آئیں وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن ان کی ہمت اور خود داری کو کوئی شکست نہیں دے سکا۔
ان کی اہلیہ کمال کی صابر اور شاکر خاتون تھیں۔ ایک دن میں ان کے گھر پہنچا تو وہ سخت بیمار تھیں، اور بابا کام پر گئے ہوئے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تو انھوں نے انکار کردیا۔ کہنے لگیں: بیٹا اب وقت قریب ہے، کسی دوا سے نہیں ٹلے گا۔ تم میرے پاس بیٹھو، تم سناؤ کیسے ہو؟ میری ضد پر دوائیں کھانے لگیں مگر وہ سچ کہتی تھیں، وقت کو کون ٹال سکا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔ بابا احمد علی انھیں کبھی کہتے، تو کہتی تھی تیرا بیٹا نہیں ہے تو پھر یہ کون ہے؟ وہ ہنس کر کہتیں میں غلط کہتی تھی۔
ایک رات وہ چپ چاپ اپنے رب کے پاس جاپہنچیں۔ بابا تنہا ہوگئے تھے لیکن معمول میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ کسی کو اپنی بپتا نہیں سناتے تھے۔ کبھی دست سوال دراز نہیں کیا، ہمیشہ شکر کرتے اور اپنے رب کے شکر گزار رہتے۔ وہ ایک مطمئن روح تھے۔ اپنے رب سے لو لگائے ہوئے۔ گھر کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا ٹرنک، دو چارپائیاں، ایک گھڑا، ایک ٹھیلا، جس پر پانی کی ٹنکی بندھی ہوئی تھی۔
بابا تنہا ہوگئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنا والا تھا نہیں۔ پھر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خود ہی اسٹور سے دوا لے کر کھالیا کرتے۔ میرے اصرار پر ایک ڈاکٹر سے علاج کرانا شروع کیا وہ بھی اس شرط پر کہ دوائیں خود خریدیں گے۔ دوائیں خریدنے کے لیے کام کرتے اور یوں مرض بڑھتا رہتا۔ آرام تو انھیں چھو کر نہیں گزرا تھا۔ بالآخر میں نے اپنا پرانا حربہ ''ضد'' استعمال کیا اور ان سے بظاہر ناراض ہوگیا۔ دو دن بعد انھوں نے ہار مان لی۔ مجھے آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے کی سعادت ملی، وہ گھنٹوں اپنی داستان سنایا کرتے۔ خوش اور مطمئن۔ اور پھر وہ گھڑی آن پہنچی جب سب اپنے رب کے حضور پیش کردیے جاتے ہیں۔ دسمبر کی ایک سرد رات میں وہ راہی ملک عدم ہوئے۔
کیا بات تھی بابا احمد علی کی۔ طمع، حرص، لالچ، خود غرضی سے پاک۔ ایک دن میں نے ان کی کہانی لکھنے کی اجازت طلب کی تو ناراض ہوگئے۔ کہنے لگے، کیوں تو مجھے رسوا کرے گا۔ اخبار میں بڑے لوگوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ میں نے کیا کیا ہے؟ اور اگر کیا بھی ہے تو کسی پر کیا احسان۔ اپنا فرض بھی صحیح طریقے سے ادا نہ کرسکا اور تو اسے اخبار میں چھاپے گا۔ میں خاموش ہوگیا۔ وہ واقعی بے مثال انسان تھے، گدڑی کا لعل!
آج قبرستان سے گزرتے ہوئے میں نے ان کی آرام گاہ پر حاضری دی تو یوں لگا جیسے مسکرا رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں سب کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ صلہ و ستائش اپنے رب سے طلب کرنی چاہیے۔ ہم صرف اپنے حقوق طلب کرتے ہیں، اپنے فرائض کو نہیں پہچانتے۔ میں نے ان سے وعدہ خلافی کی اور ان کی مختصر سی تصویر آپ کے سامنے رکھ دی۔ ان کی کہانی میں ایسا کیا ہے جسے لکھا جائے۔ میں نہیں جانتا ... آپ پر چھوڑتا ہوں۔
ایک جگنو ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا
تیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا
وہ بھی بس واجبی سی۔ ان کے والد کی اتنی آمدنی تھی کہ گزارا اچھا ہوتا تھا۔ زمانہ سادہ تھا، بناوٹ تھی ضرور پر اتنی نہیں جتنی اب ہے۔ لوگوں میں خلوص تھا، ہم دردی تھی اور سب سے بڑھ کر انسانیت تھی اور جب انسانیت ہو تو پھر بہت سے عیب، عیب نہیں لگتے۔ بس یہ کہ اچھا وقت تھا، کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ وہ کھائے گا کہاں سے؟ لائے گا کہاں سے؟ بڑے بوڑھے اپنے دھندوں سے لگے رہتے اور لڑکے بالے کھیل کود میں۔ 20، 20 برس کے نوجوانوں کو بھی یہ کہا جاتا تھا کہ ابھی سے ان پر کیا بوجھ ڈالیں، ان کے کھیلنے کو دنے کے دن ہیں۔ کام کرنے کو تو بہتیرے دن ہیں۔
نجانے پھر کب انھیں کھیل کے دن نصیب ہوں۔ لڑکے ٹولیوں کی شکل میں کھیت کھلیانوں میں گھومتے پھرتے، بستی بستی سیر سپاٹا کرتے، کٹھ پتلی کا تماشا دیکھ کر قہقہے برساتے اور زندگی کا لطف دوبالا ہوتا رہتا۔ کشتی، گھڑ سواری اور گتکا (لٹھ بازی) نوجوان ہی نہیں بوڑھے بھی ان میں حصہ لیتے۔ تہواروں پر میلے لگتے اور پھر وہاں مقابلے ہوتے، ڈھول تاشے بجتے اور زندگی بلا کسی خوف و اندیشے کے گزرتی چلی جاتی۔ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص اپنی زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ کر دنیا سے رخصت ہوگیا اور یہ سچ تھا۔ زندگی نام تھا زندہ دلی کا، بہار کا، ایسی بہار جسے خزاں کا خوف نہیں تھا، ایک کے غموں میں دوسرے ایسے شریک ہوتے کہ وہ اپنا غم بھول جاتا اور شادیوں کے گیت دو دو ماہ تک گائے جاتے۔ کسی ایک گھر کی میت گاؤں بھر کی میت تھی اور شادی گاؤں بھر کے لیے نوید مسرت۔ سب کچھ سانجھا تھا۔ خوشی بھی غمی بھی، عیش بھی، تنگ دستی بھی۔ کیا خوب صورت اور سنہرا دور تھا۔
احمد علی گھنٹوں اپنی کہانی سناتے اور یوں لگتا جیسے وہ خود کو وہیں پاتے ہیں۔ خوشی ان کے چہرے سے پھوٹتی اور چاروں اور رقص کرنے لگتی اور پھر وہ محبت سے میرا ہاتھ تھام لیتے اور کہتے بیٹا تمھیں کیا کیا سناؤں، زندگی کے 75 سالوں کی کہانی سنانے کے لیے مہینوں درکار ہیں اور تمھیں تو بہت کام ہیں۔ آج کے نوجوانوں پر انھیں بہت ترس آتا اور وہ کہتے ان بے چاروں کی تو زندگی اجیرن ہے۔ پیدا ہوتے ہی وہ خود کو مفلسی میں گھرا پاتے ہیں، نہ کھیت، کھلیان کہ جہاں جاکر وہ کھیل سکیں، نہ جھیلیں، نہ نہریں۔ وہ کیا کریں، کہاں جائیں اور پھر بھی وہ بد نام ہیں۔ صبح اٹھتے ہی کام پر دوڑتے ہیں، بسوں میں دھکے کھاتے ہیں۔ کیا زندگی ہے ان کی، مجھے ان معصوموں پر بہت ترس آتا ہے۔ پیدا ہونے سے موت تک انھیں کام ہے۔ کتنی دکھ بھری زندگی ہے ان کی، نہ انھیں جوانی آتی ہے۔ یہ تو بس بوڑھے ہی پیدا ہوتے ہیں، قہقہے، شرارتیں، نہ شوخیاں، نہ امنگ۔
احمد علی نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دنیا کے نقشے پر ابھرتے دیکھا تھا۔ وہ بتاتے:
بیٹا مجھے وہ زمانہ بہت خوب یاد ہے۔ ہیرا، مانک، رامو، یعقوب، جمیل، ماٹھا اور میں گہرے دوست تھے۔ ہر جگہ ساتھ کھانا پینا، سب کچھ سانجھا۔ ہماری دوستی مثالی تھی۔ پھر ایک نعرہ بلند ہوا، ہمیں الگ ملک چاہیے، بٹ کے رہے گا ہندوستان، بن کے رہے گا پاکستان۔ پھر کیا تھا ہر جگہ، ہر چوپال میں یہ بات سنی اور کہی جانے لگی، بحثیں ہونے لگیں اور پھر ایک عجیب منظر ابھر آیا۔ بحثیں بڑھتے بڑھتے رنجشوں میں بدل گئیں اور جو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامتے، سہارا دیتے، گلے لگاتے تھے گریبانوں تک جاپہنچے اور محبت، پیار خلوص کے گیتوں کے بجائے نفرت، تعصب، درندگی، رقص کرنے لگی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے ایک ہرا بھرا درخت سوکھ گیا ہو، اس میں پھولوں کے بجائے کانٹے ابھر آئے ہوں، ایسے کانٹے جن میں زہر بھرا ہو۔ جس سے بات کرو، وہی عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگتا۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب میں گھر پہنچا تو والد صاحب نے اونچی آواز میں کہا احمد علی آج سے تم ہیرا، مانک، رامو سے نہیں ملنا۔ زمانہ ایسا تھا کہ میں ان سے یہ نہ کہہ سکا کہ کیوں؟ میں رات بھر نہ سوسکا اور صبح اپنی والدہ سے پوچھ بیٹھا۔ انھوں نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بولیں: بیٹا زمانہ خراب ہورہا ہے، طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ ہم مسلم ہیں اور وہ ہندو۔ تمھارا نوجوان خون ہے۔ کبھی آپس میں الجھ گئے تو بات بڑھ جائے گی۔ اس گاؤں میں ویسے بھی ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے تمھارے ابا تمھیں منع کرتے ہیں۔ لیکن ماں: وہ تو میرے بچپن کے دوست ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے، وہ تو میرے اپنے ہیں۔ ہم نے تو کبھی اس پر بات بھی نہیں کی۔ لیکن ماں باپ کا حکم تھا، سو ماننا پڑا اور میں گھر کا ہو رہا۔ میرے دوست گھر آتے تو میں بیماری کا بہانہ بنا کر ٹال دیتا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک دن گاؤں میں جھگڑا ہوگیا۔ چھوٹا موٹا جھگڑا طول پکڑ گیا اور پھر گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا، ہندو اور مسلمان میں۔
دو دن ہی گزرے تھے کہ پھر جھگڑا ہوگیا۔ وجہ تھی پاکستان۔ اور پھر تو قیامت ٹوٹ پڑی۔ میرے دو بھائی اس دن مارے گئے۔ پاکستان بن گیا تھا اور ہمارے گاؤں کے مسلمانوں نے ہجرت کی تیاری شروع کردی تھی۔ لیکن جسے شہادت نے منتخب کرلیا ہو وہ کیسے ہجرت کرسکتا ہے۔ شیطان ننگا ناچنے لگا اور ایک کالی رات میں ہم پر حملہ ہوگیا۔ نفسانفسی کا عالم تھا۔ مجھے تم بزدل کہوگے، کہہ لو۔ میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا تھا۔ کچھ پتا نہیں ماں باپ، بہنوں اور بھائی کیا کیا ہوا؟ ساری رات بھاگ بھاگ کر میری حالت خراب ہوگئی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ندی نالے، کھیت کھلیان مرگھٹ بن گئے تھے۔ جسے جتنی کمینگی اور درندگی کا موقع ملا وہ کر گزرا۔ صدیوں کی دوستی ہوا ہوگئی۔
لمبی بات کیا کروں۔ میں قافلوں کے ساتھ لاہور پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ تنہا اور اکیلا۔ لاہور میں کیمپ لگے ہوئے تھے، کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو حالت تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ میں کیا دہراؤں۔ میرے تو کوئی آگے پیچھے رہا نہیں تھا۔ گم صم بیٹھا رہتا یا سڑکوں پر گھومتا۔ کھانا کہیں نہ کہیں سے مل جاتا۔ مجھے کوئی کام آتا تھا نہ کاج۔ لاڈ پیار میں پلا بڑھا تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور وہ بھی سر چڑھا۔ لیکن سب کچھ ہوا ہوگیا۔
کچھ تو کرنا تھا۔ میں کئی مرتبہ راوی گیا اور سوچتا رہا جب کوئی نہیں بچا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں۔ پھر آواز آتی اگر مرنا ہی تھا تو وہیں گاؤں میں سب کے ساتھ مرجاتے، اتنی مصیبتوں اور تکلیفوں سے یہاں تک پہنچنے کی کیا ضرورت تھی۔ بس یہ سن کر میں اپنے ارادے سے باز آجاتا۔ پھر ایک سیٹھ صاحب کے پاس کام کرنے لگا۔ کچھ پیسے جمع کیے اور ٹھیلے پر بچوں کی چیزیں فروخت کرنا شروع کیں۔
کیمپ کے لوگوں سے دوستی تو ہو ہی گئی تھی۔ سب ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ ایک دن ایک بڑے صاحب نے مجھے کہا تمھیں شادی تو کرنی ہی ہے تو اب کرڈالو۔ میں نے انکار کردیا کہ میں کہاں رکھوں گا اور کیسے کھلاؤں گا۔ انھوں نے حوصلہ بڑھایا اور پھر کیمپ ہی میں ایک ایسی لڑکی سے جس کا کوئی نہیں بچا تھا میری شادی کرادی گئی۔ میں کچھ عرصے ان صاحب کے گھر مقیم رہا اور پھر کراچی آگیا۔
کیوں؟ بس ویسے ہی، کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ کراچی میں اس وقت مہاجرین پہنچ رہے تھے۔ مقامی لوگ خیال بھی رکھتے تھے۔ کراچی پہنچ کر میں نے دیکھا کہ یہاں کلیم بھرنے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ جو وہاں پر کنگلا تھا یہاں پر حویلی والا بن بیٹھا۔ مجھے بھی کہا گیا کہ کلیم بھرو لیکن میری غیرت نہیں مانی، کیا قربانیوں کے بدلے گھر لے لوں۔ میرے ہاتھ پاؤں میں دم تھا۔ کچھ رقم تھی۔ میں نے پان سگریٹ کا کھوکھا لگالیا، گزارا اچھا تھا۔ ہم دو افراد تھے۔ پھر نجانے کیوں وہ کھوکھا بیچ دیا اور کباڑی کا کام کرنے لگا۔ اسے چھوڑ کر مزدوری کی۔ وزن اٹھایا، کہیں چین نہیں آیا تو لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر پانی بھرنے لگا۔ اب تو پانی کی سہولت گھر گھر ہے۔ اس وقت بہت تنگی تھی، بس اب تک یہی کیے جارہا ہوں۔
احمد علی جنھیں میں ''بابا'' کہا کرتا تھا، یہاں تک پہنچ کر خاموش ہوجاتے۔ لیکن ان کی اصل کہانی تو مجھے معلوم تھی۔ اﷲ نے انھیں چار بچیوں سے نوازا تھا۔ میں نے ان جیسا خود دار انسان نہیں دیکھا۔ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں مقیم تھے۔ سارا دن گھروں اور دکانوں میں پانی بھرتے، سردی ہو یا گرمی ان کے معمول میں کبھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ خاموش طبع تھے۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت تنگی میں اپنا گزارا کرتے ہیں۔ سعادت مند بچیوں کا نصیبا جاگا اور وہ اپنے گھروں کی ہوگئیں۔ بچیوں کی رخصتی میں جتنی مشکلات انھیں پیش آئیں وہ ایک الگ کہانی ہے، لیکن ان کی ہمت اور خود داری کو کوئی شکست نہیں دے سکا۔
ان کی اہلیہ کمال کی صابر اور شاکر خاتون تھیں۔ ایک دن میں ان کے گھر پہنچا تو وہ سخت بیمار تھیں، اور بابا کام پر گئے ہوئے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں تو انھوں نے انکار کردیا۔ کہنے لگیں: بیٹا اب وقت قریب ہے، کسی دوا سے نہیں ٹلے گا۔ تم میرے پاس بیٹھو، تم سناؤ کیسے ہو؟ میری ضد پر دوائیں کھانے لگیں مگر وہ سچ کہتی تھیں، وقت کو کون ٹال سکا ہے۔ کوئی بھی تو نہیں۔ بابا احمد علی انھیں کبھی کہتے، تو کہتی تھی تیرا بیٹا نہیں ہے تو پھر یہ کون ہے؟ وہ ہنس کر کہتیں میں غلط کہتی تھی۔
ایک رات وہ چپ چاپ اپنے رب کے پاس جاپہنچیں۔ بابا تنہا ہوگئے تھے لیکن معمول میں کبھی فرق نہیں آنے دیا۔ کسی کو اپنی بپتا نہیں سناتے تھے۔ کبھی دست سوال دراز نہیں کیا، ہمیشہ شکر کرتے اور اپنے رب کے شکر گزار رہتے۔ وہ ایک مطمئن روح تھے۔ اپنے رب سے لو لگائے ہوئے۔ گھر کی کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا ٹرنک، دو چارپائیاں، ایک گھڑا، ایک ٹھیلا، جس پر پانی کی ٹنکی بندھی ہوئی تھی۔
بابا تنہا ہوگئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنا والا تھا نہیں۔ پھر ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ خود ہی اسٹور سے دوا لے کر کھالیا کرتے۔ میرے اصرار پر ایک ڈاکٹر سے علاج کرانا شروع کیا وہ بھی اس شرط پر کہ دوائیں خود خریدیں گے۔ دوائیں خریدنے کے لیے کام کرتے اور یوں مرض بڑھتا رہتا۔ آرام تو انھیں چھو کر نہیں گزرا تھا۔ بالآخر میں نے اپنا پرانا حربہ ''ضد'' استعمال کیا اور ان سے بظاہر ناراض ہوگیا۔ دو دن بعد انھوں نے ہار مان لی۔ مجھے آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے کی سعادت ملی، وہ گھنٹوں اپنی داستان سنایا کرتے۔ خوش اور مطمئن۔ اور پھر وہ گھڑی آن پہنچی جب سب اپنے رب کے حضور پیش کردیے جاتے ہیں۔ دسمبر کی ایک سرد رات میں وہ راہی ملک عدم ہوئے۔
کیا بات تھی بابا احمد علی کی۔ طمع، حرص، لالچ، خود غرضی سے پاک۔ ایک دن میں نے ان کی کہانی لکھنے کی اجازت طلب کی تو ناراض ہوگئے۔ کہنے لگے، کیوں تو مجھے رسوا کرے گا۔ اخبار میں بڑے لوگوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ میں نے کیا کیا ہے؟ اور اگر کیا بھی ہے تو کسی پر کیا احسان۔ اپنا فرض بھی صحیح طریقے سے ادا نہ کرسکا اور تو اسے اخبار میں چھاپے گا۔ میں خاموش ہوگیا۔ وہ واقعی بے مثال انسان تھے، گدڑی کا لعل!
آج قبرستان سے گزرتے ہوئے میں نے ان کی آرام گاہ پر حاضری دی تو یوں لگا جیسے مسکرا رہے ہوں اور کہہ رہے ہوں سب کو اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ صلہ و ستائش اپنے رب سے طلب کرنی چاہیے۔ ہم صرف اپنے حقوق طلب کرتے ہیں، اپنے فرائض کو نہیں پہچانتے۔ میں نے ان سے وعدہ خلافی کی اور ان کی مختصر سی تصویر آپ کے سامنے رکھ دی۔ ان کی کہانی میں ایسا کیا ہے جسے لکھا جائے۔ میں نہیں جانتا ... آپ پر چھوڑتا ہوں۔
ایک جگنو ہی سہی ساتھ سفر میں رکھنا
تیرگی کو کبھی بے باک نہ ہونے دینا