دیس پردیس
چین میں انرجی کا بحران نہیں ہے اور لیبر سستی ہے۔ آپ مال، تعداد اور کوالٹی کا تعین کریں چین آپ کو مرضی کا سامان۔۔۔
خالد بشیر پنجاب کا ایک کامیاب ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے۔ اس کی موجودہ کاروباری حیثیت کے پیچھے تیس سالہ محنت اور دیانت کی کوششوں کی داستان جس میں ڈگمگانا، گرنا، مایوس ہو جانا لیکن پھر سے کمر ہمت کس کر اٹھ کھڑے ہونا اور کاروبار کو زیرو سے اٹھا کر پھر سے کامیابی کی منزل کی طرف چل پڑنا اس کے قدرت پر بھروسہ اور اپنی محنت کے ثمر پر ایمان اور یقین کامل کی داستان طویل لیکن ایمان افروز ہے لیکن وہ گزشتہ بیس روز سے سخت پریشان اور متفکر ہے کیونکہ اس کا ایکسپورٹ کے مال سے لدا ہوا ایک کنٹینر سرکار نے عمران خان اور مولانا قادری کے جلوسوں کو روکنے کے لیے سڑک بلاک کرنے کی غرض سے پکڑ رکھا ہے۔
اس نے مجھ سے مدد حاصل کرنے کے لیے میرا فون بند پا کر مجھ سے لندن رابطہ کیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں اس وقت علاقہ پٹنی کے ایک پونڈ اسٹور میں ''ہر مال کی قیمت ایک پونڈ'' میں ونڈو شاپنگ کر رہا ہوں۔ لہٰذا معذرت۔ ایک پاؤنڈ یعنی 169 روپے میں فروخت ہونے والی کئی سو اشیاء میں سے کوئی چیز بھی 169 میں مہنگی معلوم نہیں ہوتی۔ میں نے غور کیا کہ ان اشیاء کے مینوفیکچرر، امپورٹر، فروخت کرنے والی کمپنی کی Chain کے مالک کے علاوہ دیگر اخراجات شامل کریں تو ہر کسی نے منافع حاصل کیا تب بھی گاہکوں کا ہجوم اس طرح کے سیکڑوں دکانوں سے خریداری کر کے راضی ہے بلکہ ہمارے جیسے ملکوں سے آئے لوگ تو تحائف بھی یہاں سے خرید لیتے ہیں۔
ایسی دکانیں امریکا میں ڈالر اسٹور کہلاتی ہیں اور ٹورسٹوں سے زیادہ مقامی لوگوں میں مقبول ہیں۔ ڈالر یا پونڈ اسٹورز میں تو نوّے فیصد سے زیادہ چین کا بنا ہوا مال ہوتا ہے جب کہ یورپ و امریکا کے بڑے بڑے مالز یا دکانوں میں مہنگا جدید اور الیکٹرانک سامان بھی چائنا پراڈکٹ ملے گا۔ اب تو پاکستان میں بھی چین سے امپورٹ ہونے والے سامان کے کنٹینرز کی بھرمار ہے۔ چین کے علاوہ تائیوان اور جنوبی کوریا کے سامان کی کمی نہیں۔ وہی کوریا جو کبھی پاکستان سے انڈسٹری اور معاشی ترقی کے لیے پنجسالہ پروگرام کی تیاری کی خاطر رہنمائی کا خواہاں ہوا کرتا تھا جب کہ اقبالؔ نے چین کی بدحالی کے دنوں میں ہی ان کی لیڈر شپ کو دیکھ کر پیشین گوئی کر دی تھی کہ؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
پاکستان کی لیڈر شپ کو گزشتہ چند ہفتوں سے ننگا کرنے کا فریضہ عمران خان نے اپنے دھرنوں کے ذریعے سنبھالا ہوا ہے لیکن اس نے بہت بڑا خطرہ بھی مول لیا ہے خدا کرے عمران اس سے باعزت عہدہ برا ہو سکے۔
چین میں انرجی کا بحران نہیں ہے اور لیبر سستی ہے۔ آپ مال، تعداد اور کوالٹی کا تعین کریں چین آپ کو مرضی کا سامان فروخت کر دے گا۔ ہمارے ایک دوست اپنے لیے چین سے تین لاکھ کا گالف بیگ لائے۔ ان کے ایک عزیز نے بھی یہی فرمائش ان سے کر رکھی تھی۔ موصوف تحفے میں دینے کی غرض سے اپنے بیگ جیسا ان کے لیے ایک دس ہزار روپے والا بیگ بھی لیتے آئے۔ لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ جائیے وہاں میڈ ان چائنا کلائی کی گھڑی تول کر چند ہزار روپے کلو کے حساب سے بھی مل جائیں گی اور دس ہزار روپے کی نقلی Omega گھڑی بھی مل جائے گی جو اصلی کے مقابلے کی ہو گی۔
یورپ اور امریکا میں چین کا بنا ہوا ایک نمبر الیکٹرانک سامان برائے فروخت ملے گا لیکن اگر آپ دو تین یا چار نمبر مال کے خریدار ہیں تو وہ بھی مل جائے گا اور میڈ ان چائنا ہو گا۔ کئی سال پہلے کے ریلوے منسٹری کے افسران نے چین سے ریل کے انجن خریدے جو چند ماہ کے بعد Junkyard میں چلے گئے جنھوں نے دو نمبر مال خرید کر مال بنایا اب تک گل چھرے اڑا رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر الیکٹرانک کے سامان تک بلکہ ضرورت کی ہر چیز چین سب سے زیادہ بنا اور ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ گولڈ کا جتنا اسٹاک چین کے پاس ہے اور کسی ملک کے پاس نہیں اور کوئی عجب نہیں چند سال کے بعد چین دنیا کا سب سے امیر ہی نہیں طاقتور ملک بھی کہلائے۔ چین ہمارے ملک کا بیحد گہرا دوست ہے۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ چین تقلید کرتے ہوئے صرف اپنی فوجی طاقت ہی کو ترقی نہ دے بلکہ اس کے ثمرات، خوشحالی، تعلیم، صحت، امن عامہ اور فرقہ واریت کے خاتمے کی صورت میں بھی اوپر سے نیچے تک پھیلائے۔
پاکستان میں آبادی کی برکت سے مکان خالی نہیں رہتے اور آپ جب چاہیں باہر نکل جائیں اور جب چاہے واپس آئیں داخلہ مل جائے گا کیونکہ گھر کا کوئی نہ کوئی فرد دروازہ کھول دیگا یا پھر دروازہ کھلا ملے گا۔ لندن میں لوگوں کی رہائش بیشتر فلیٹس یا اپارٹمنٹس میں ہے اور گھر کے دو یا تین افراد کو ان میں داخل ہونے کے لیے دو عدد چابیوں کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ بیرونی مشترکہ اور اپنا اپارٹمنٹ اپنی چابیوں سے جب بھی وہ گھر آئیں کھول کر داخل ہو سکیں۔
مجھ سے بھول ہوئی کہ اپنے میزبان سعید سہگل کے فلیٹ سے ان کی واپسی کا وقت پوچھ کر باہر چلا گیا لیکن واپسی پر فلیٹ کے باہر ان کا تین گھنٹے تک انتظار کیا اور ان کی واپسی پر نیم بیہوشی میں سڑک سے گھر میں داخلہ ملا۔ اسی روز میں نے ان سے ڈپلی کیٹ دو چابیاں بنوا کر قابو کر لیں کہ میں ان ہی کا تو مہمان تھا۔
لندن سطح مرتفع شہر ہے بیس بیس تیس تیس ہم شکل فلیٹوں کی گرجا گھروں جیسی قطاریں ہیں جو تعمیراتی کمپنیوں کی تیار کردہ ہیں۔ کہیں کہیں مالک مکان کی پسند کے مختلف ڈیزائن کے مکان بھی موجود ہیں۔ تعمیراتی یکسانیت اچھی لگتی ہے اور کبھی بوریت بھی پیدا کرتی ہے لیکن ڈسپلن، صفائی، احترام آدمی، خوش اخلاقی، فٹ پاتھوں پر آنے جانے والوں کی پھرتی، سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی غیر موجودگی کے باوجود بااصول روانی نے پاکستان میں ان سب باتوں سے لوگوں کی بیزاری کی یاد دلا کر طبیعت مکدر کر دی۔ اس شہر کا باقی ذکر آئندہ۔
اس نے مجھ سے مدد حاصل کرنے کے لیے میرا فون بند پا کر مجھ سے لندن رابطہ کیا تو میں نے اسے بتایا کہ میں اس وقت علاقہ پٹنی کے ایک پونڈ اسٹور میں ''ہر مال کی قیمت ایک پونڈ'' میں ونڈو شاپنگ کر رہا ہوں۔ لہٰذا معذرت۔ ایک پاؤنڈ یعنی 169 روپے میں فروخت ہونے والی کئی سو اشیاء میں سے کوئی چیز بھی 169 میں مہنگی معلوم نہیں ہوتی۔ میں نے غور کیا کہ ان اشیاء کے مینوفیکچرر، امپورٹر، فروخت کرنے والی کمپنی کی Chain کے مالک کے علاوہ دیگر اخراجات شامل کریں تو ہر کسی نے منافع حاصل کیا تب بھی گاہکوں کا ہجوم اس طرح کے سیکڑوں دکانوں سے خریداری کر کے راضی ہے بلکہ ہمارے جیسے ملکوں سے آئے لوگ تو تحائف بھی یہاں سے خرید لیتے ہیں۔
ایسی دکانیں امریکا میں ڈالر اسٹور کہلاتی ہیں اور ٹورسٹوں سے زیادہ مقامی لوگوں میں مقبول ہیں۔ ڈالر یا پونڈ اسٹورز میں تو نوّے فیصد سے زیادہ چین کا بنا ہوا مال ہوتا ہے جب کہ یورپ و امریکا کے بڑے بڑے مالز یا دکانوں میں مہنگا جدید اور الیکٹرانک سامان بھی چائنا پراڈکٹ ملے گا۔ اب تو پاکستان میں بھی چین سے امپورٹ ہونے والے سامان کے کنٹینرز کی بھرمار ہے۔ چین کے علاوہ تائیوان اور جنوبی کوریا کے سامان کی کمی نہیں۔ وہی کوریا جو کبھی پاکستان سے انڈسٹری اور معاشی ترقی کے لیے پنجسالہ پروگرام کی تیاری کی خاطر رہنمائی کا خواہاں ہوا کرتا تھا جب کہ اقبالؔ نے چین کی بدحالی کے دنوں میں ہی ان کی لیڈر شپ کو دیکھ کر پیشین گوئی کر دی تھی کہ؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
پاکستان کی لیڈر شپ کو گزشتہ چند ہفتوں سے ننگا کرنے کا فریضہ عمران خان نے اپنے دھرنوں کے ذریعے سنبھالا ہوا ہے لیکن اس نے بہت بڑا خطرہ بھی مول لیا ہے خدا کرے عمران اس سے باعزت عہدہ برا ہو سکے۔
چین میں انرجی کا بحران نہیں ہے اور لیبر سستی ہے۔ آپ مال، تعداد اور کوالٹی کا تعین کریں چین آپ کو مرضی کا سامان فروخت کر دے گا۔ ہمارے ایک دوست اپنے لیے چین سے تین لاکھ کا گالف بیگ لائے۔ ان کے ایک عزیز نے بھی یہی فرمائش ان سے کر رکھی تھی۔ موصوف تحفے میں دینے کی غرض سے اپنے بیگ جیسا ان کے لیے ایک دس ہزار روپے والا بیگ بھی لیتے آئے۔ لاہور کی شاہ عالمی مارکیٹ جائیے وہاں میڈ ان چائنا کلائی کی گھڑی تول کر چند ہزار روپے کلو کے حساب سے بھی مل جائیں گی اور دس ہزار روپے کی نقلی Omega گھڑی بھی مل جائے گی جو اصلی کے مقابلے کی ہو گی۔
یورپ اور امریکا میں چین کا بنا ہوا ایک نمبر الیکٹرانک سامان برائے فروخت ملے گا لیکن اگر آپ دو تین یا چار نمبر مال کے خریدار ہیں تو وہ بھی مل جائے گا اور میڈ ان چائنا ہو گا۔ کئی سال پہلے کے ریلوے منسٹری کے افسران نے چین سے ریل کے انجن خریدے جو چند ماہ کے بعد Junkyard میں چلے گئے جنھوں نے دو نمبر مال خرید کر مال بنایا اب تک گل چھرے اڑا رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں بچوں کے کھلونوں سے لے کر الیکٹرانک کے سامان تک بلکہ ضرورت کی ہر چیز چین سب سے زیادہ بنا اور ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ گولڈ کا جتنا اسٹاک چین کے پاس ہے اور کسی ملک کے پاس نہیں اور کوئی عجب نہیں چند سال کے بعد چین دنیا کا سب سے امیر ہی نہیں طاقتور ملک بھی کہلائے۔ چین ہمارے ملک کا بیحد گہرا دوست ہے۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ چین تقلید کرتے ہوئے صرف اپنی فوجی طاقت ہی کو ترقی نہ دے بلکہ اس کے ثمرات، خوشحالی، تعلیم، صحت، امن عامہ اور فرقہ واریت کے خاتمے کی صورت میں بھی اوپر سے نیچے تک پھیلائے۔
پاکستان میں آبادی کی برکت سے مکان خالی نہیں رہتے اور آپ جب چاہیں باہر نکل جائیں اور جب چاہے واپس آئیں داخلہ مل جائے گا کیونکہ گھر کا کوئی نہ کوئی فرد دروازہ کھول دیگا یا پھر دروازہ کھلا ملے گا۔ لندن میں لوگوں کی رہائش بیشتر فلیٹس یا اپارٹمنٹس میں ہے اور گھر کے دو یا تین افراد کو ان میں داخل ہونے کے لیے دو عدد چابیوں کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ بیرونی مشترکہ اور اپنا اپارٹمنٹ اپنی چابیوں سے جب بھی وہ گھر آئیں کھول کر داخل ہو سکیں۔
مجھ سے بھول ہوئی کہ اپنے میزبان سعید سہگل کے فلیٹ سے ان کی واپسی کا وقت پوچھ کر باہر چلا گیا لیکن واپسی پر فلیٹ کے باہر ان کا تین گھنٹے تک انتظار کیا اور ان کی واپسی پر نیم بیہوشی میں سڑک سے گھر میں داخلہ ملا۔ اسی روز میں نے ان سے ڈپلی کیٹ دو چابیاں بنوا کر قابو کر لیں کہ میں ان ہی کا تو مہمان تھا۔
لندن سطح مرتفع شہر ہے بیس بیس تیس تیس ہم شکل فلیٹوں کی گرجا گھروں جیسی قطاریں ہیں جو تعمیراتی کمپنیوں کی تیار کردہ ہیں۔ کہیں کہیں مالک مکان کی پسند کے مختلف ڈیزائن کے مکان بھی موجود ہیں۔ تعمیراتی یکسانیت اچھی لگتی ہے اور کبھی بوریت بھی پیدا کرتی ہے لیکن ڈسپلن، صفائی، احترام آدمی، خوش اخلاقی، فٹ پاتھوں پر آنے جانے والوں کی پھرتی، سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی غیر موجودگی کے باوجود بااصول روانی نے پاکستان میں ان سب باتوں سے لوگوں کی بیزاری کی یاد دلا کر طبیعت مکدر کر دی۔ اس شہر کا باقی ذکر آئندہ۔