دوسرا عذاب
وہ روشنی میں پیدا ہوئے اور روشنیوں میں پلے بڑھے۔ امیر شہر کو کیا پتہ کہ اس کی رعایا اندھیروں میں مر رہی ہے۔
قدرت نے ایک عذاب تو مسلسل موسلادھار بارشوں سے کیا دوسرا عذاب وہ سرکاری محکمے ہیں جو ایسی آفات میں عوام کی مدد کرتے ہیں۔ واپڈا والے ٹیلی فون نہیں سنتے اور تنگ آکر جب میں نے اپنے بیٹے کو ان کی خدمت میں براہ راست پیش کیا تو اس کے پر ہجوم دفتر میں بمشکل جواب ملا کہ آپ کی شکایت پر لوگ بھیجے ہوئے ہیں اب دیکھتے ہیں وہ آپ کی شکایت دور کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ میرے بیٹے کے ہمراہ میرا پوتا بھی تھا جس نے مجھے اطلاع دی کہ اہلکار ٹیلی ویژن پر گیمیں کھیل رہے تھے۔
تین دنوں اور راتوں سے میرے گھر میں بجلی بند ہے۔ اس طرح میرے پاس خبریں حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ٹیلی ویژن نہ انٹرنیٹ' اخبارات دوسرے دن پرانی خبریں لے کر آ جاتے ہیں۔ لوگ جب مجھ سے کسی واقعے پر تبصرہ طلب کرتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں کہ مجھے تو اس واقعہ کا علم ہی نہیں میں تبصرہ کیا کروں۔ میں بجلی سے قطعاً محروم ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور یہ اندھیرے لگتا ہے میری قسمت میں میرے ساتھ لاہور میں بھی چلے آئے ہیں۔ میں نے مٹی کا دیا منگوا کر اس میں تارے میرے کا تیل ڈالا اور کپاس کی بتی ڈال کر اسے جلا دیا۔ روشنی تو برائے نام تھی لیکن بچپن کی یادیں بڑی دلفریب تھیں مگر یہ سب میری کسی بیماری اور دکھ کا علاج نہیں تھیں۔ مجھے معلوم ہے کہ لاہور شہر میں مقیم ہمارے شاہی خاندان کو کسی اندھیرے کا علم ہی نہیں ہے۔
وہ روشنی میں پیدا ہوئے اور روشنیوں میں پلے بڑھے۔ امیر شہر کو کیا پتہ کہ اس کی رعایا اندھیروں میں مر رہی ہے۔ جنھوں نے روشن گھروں اور روشن راستوں کے بغیر کسی جگہ قدم نہ رکھا ہو وہ اندھیرے کو کیا جانیں۔ پیرس کے بعض اسکولوں میں ایک مرتبان میں مٹی رکھی جاتی تھی تا کہ بچوں کو بتایا جا سکے کہ گرد و غبار کیا ہوتا ہے۔ ہمارے شاہی خاندان کو کسی اندھیرے کنویں میں لے جا کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ عالم پناہ اسے اندھیرا کہتے ہیں۔ ایک پڑھنے لکھنے والے شخص کو جس کی روٹی روزگار لکھنے سے وابستہ ہو وہ تین دنوں تک بصد مشقت ہی کچھ لکھ سکے تو یہ اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے جو ملک بھر کے ہمارے منتخب نمائندوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس میں طویل پر جوش اور تو تو میں میں والی تقریریں ہوئیں لیکن کسی معزز رکن نے عوام کا اور ان کے مسائل کا ذکر نہیں کیا۔
وہ یہ سب کچھ پارلیمنٹ کے باہر چھوڑ کر اندر داخل ہوئے البتہ دھرنوں کی وجہ سے انھوں نے اپنے بارے میں ضرور کہا کہ ہمیں چھپ چھپا کر دوسرے دروازوں سے پارلیمنٹ کے اندر داخل کیا گیا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی مگر جن کے ووٹ لے کر وہ کسی بھی دروازے سے پارلیمنٹ میں بالآخر داخل ہو گئے ان کا ذکر تک نہ کیا۔ عوام کے ان ''نمائندوں'' کا حال دل کہنے کا یہ بہترین موقع تھا کہ پوری حکومت بمع وزراء اور ان کے آقا کے یہاں موجود تھی۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور کتنے ہی پاکستانی اس بارش میں جان سے ہاتھ دھو رہے تھے۔
کچھ فاقوں سے مرتے ہیں کچھ خودکشیاں کر لیتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ان کے لیے گلی گلی میں بارش کے دریا بہہ رہے ہیں اور لوگ ان میں ڈوب رہے ہیں۔ زندگی محفوظ رہے نہ رہے موت کے سامان بہت ہیں۔ سرکار کا توشہ خانہ اس سامان سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی آفات آتی رہتی ہیں لیکن ان کے بچاؤ اور ان کے مقابلے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ کوئی دو تین سال ہوئے کہ لاہور کے مشہور سیلابی چوک لکشمی چوک میں ایسے ہی پانی کا معائنہ کرنے ایک شہزادہ آیا تھا تو یہاں جمع ہونے والوں نے نعرہ لگایا کہ شکایت مت کرو اسے دھکا دے کر اس پانی میں ڈبو دو۔ یہ سن کر سیکیورٹی والے چوکنے ہو گئے اور اپنا مال بچا کر لے گئے۔
بارش کی ہزار گونہ تباہیوں کا کب تک اور کتنا ذکر کروں۔ تین دن سے بجلی کا منہ تک نہیں دیکھا۔ مزید کب تک یہ سلسلہ چلے گا معلوم نہیں اور قسمت میں لکھی یہ اذیت کیا رنگ لائے گی اللہ جانتا ہے۔ ہمارے پاس تو فریاد کے سوا کچھ نہیں اور وہ مسلسل اور چیخ چیخ کر کیے جا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی کوئی ہماری چیخیں سننے والا بھی آئے گا کیونکہ ہم بے گناہ ہیں کسی ایسی امت کی طرح نہیں جس کو اس کے گناہوں نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور عبرت کے لیے اس کے کھنڈر موجود ہیں۔ یہ بجلی جس کی نایابی کے لیے ہم فریادی ہیں اس کے بل اس سے زیادہ خوفناک ہوتے ہیں اور اب تو اس کے فی یونٹ میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی نہ ہوئی قہر خداوندی ہوا۔
تین دنوں اور راتوں سے میرے گھر میں بجلی بند ہے۔ اس طرح میرے پاس خبریں حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ٹیلی ویژن نہ انٹرنیٹ' اخبارات دوسرے دن پرانی خبریں لے کر آ جاتے ہیں۔ لوگ جب مجھ سے کسی واقعے پر تبصرہ طلب کرتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں کہ مجھے تو اس واقعہ کا علم ہی نہیں میں تبصرہ کیا کروں۔ میں بجلی سے قطعاً محروم ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور یہ اندھیرے لگتا ہے میری قسمت میں میرے ساتھ لاہور میں بھی چلے آئے ہیں۔ میں نے مٹی کا دیا منگوا کر اس میں تارے میرے کا تیل ڈالا اور کپاس کی بتی ڈال کر اسے جلا دیا۔ روشنی تو برائے نام تھی لیکن بچپن کی یادیں بڑی دلفریب تھیں مگر یہ سب میری کسی بیماری اور دکھ کا علاج نہیں تھیں۔ مجھے معلوم ہے کہ لاہور شہر میں مقیم ہمارے شاہی خاندان کو کسی اندھیرے کا علم ہی نہیں ہے۔
وہ روشنی میں پیدا ہوئے اور روشنیوں میں پلے بڑھے۔ امیر شہر کو کیا پتہ کہ اس کی رعایا اندھیروں میں مر رہی ہے۔ جنھوں نے روشن گھروں اور روشن راستوں کے بغیر کسی جگہ قدم نہ رکھا ہو وہ اندھیرے کو کیا جانیں۔ پیرس کے بعض اسکولوں میں ایک مرتبان میں مٹی رکھی جاتی تھی تا کہ بچوں کو بتایا جا سکے کہ گرد و غبار کیا ہوتا ہے۔ ہمارے شاہی خاندان کو کسی اندھیرے کنویں میں لے جا کر ہی بتایا جا سکتا ہے کہ عالم پناہ اسے اندھیرا کہتے ہیں۔ ایک پڑھنے لکھنے والے شخص کو جس کی روٹی روزگار لکھنے سے وابستہ ہو وہ تین دنوں تک بصد مشقت ہی کچھ لکھ سکے تو یہ اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے جو ملک بھر کے ہمارے منتخب نمائندوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس میں طویل پر جوش اور تو تو میں میں والی تقریریں ہوئیں لیکن کسی معزز رکن نے عوام کا اور ان کے مسائل کا ذکر نہیں کیا۔
وہ یہ سب کچھ پارلیمنٹ کے باہر چھوڑ کر اندر داخل ہوئے البتہ دھرنوں کی وجہ سے انھوں نے اپنے بارے میں ضرور کہا کہ ہمیں چھپ چھپا کر دوسرے دروازوں سے پارلیمنٹ کے اندر داخل کیا گیا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی مگر جن کے ووٹ لے کر وہ کسی بھی دروازے سے پارلیمنٹ میں بالآخر داخل ہو گئے ان کا ذکر تک نہ کیا۔ عوام کے ان ''نمائندوں'' کا حال دل کہنے کا یہ بہترین موقع تھا کہ پوری حکومت بمع وزراء اور ان کے آقا کے یہاں موجود تھی۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور کتنے ہی پاکستانی اس بارش میں جان سے ہاتھ دھو رہے تھے۔
کچھ فاقوں سے مرتے ہیں کچھ خودکشیاں کر لیتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ان کے لیے گلی گلی میں بارش کے دریا بہہ رہے ہیں اور لوگ ان میں ڈوب رہے ہیں۔ زندگی محفوظ رہے نہ رہے موت کے سامان بہت ہیں۔ سرکار کا توشہ خانہ اس سامان سے بھرا ہوا ہے۔ ایسی آفات آتی رہتی ہیں لیکن ان کے بچاؤ اور ان کے مقابلے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ کوئی دو تین سال ہوئے کہ لاہور کے مشہور سیلابی چوک لکشمی چوک میں ایسے ہی پانی کا معائنہ کرنے ایک شہزادہ آیا تھا تو یہاں جمع ہونے والوں نے نعرہ لگایا کہ شکایت مت کرو اسے دھکا دے کر اس پانی میں ڈبو دو۔ یہ سن کر سیکیورٹی والے چوکنے ہو گئے اور اپنا مال بچا کر لے گئے۔
بارش کی ہزار گونہ تباہیوں کا کب تک اور کتنا ذکر کروں۔ تین دن سے بجلی کا منہ تک نہیں دیکھا۔ مزید کب تک یہ سلسلہ چلے گا معلوم نہیں اور قسمت میں لکھی یہ اذیت کیا رنگ لائے گی اللہ جانتا ہے۔ ہمارے پاس تو فریاد کے سوا کچھ نہیں اور وہ مسلسل اور چیخ چیخ کر کیے جا رہے ہیں۔ کبھی نہ کبھی کوئی ہماری چیخیں سننے والا بھی آئے گا کیونکہ ہم بے گناہ ہیں کسی ایسی امت کی طرح نہیں جس کو اس کے گناہوں نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور عبرت کے لیے اس کے کھنڈر موجود ہیں۔ یہ بجلی جس کی نایابی کے لیے ہم فریادی ہیں اس کے بل اس سے زیادہ خوفناک ہوتے ہیں اور اب تو اس کے فی یونٹ میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ بجلی نہ ہوئی قہر خداوندی ہوا۔