ہزاروں خواہشیں ایسی…

اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے اسکے پیچھے کسی نہ کسی طرح اور فوری طور پر اقتدار میں آنے کی بے محابا خواہش کارفرما ہے


Zahida Hina September 07, 2014
[email protected]

زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش' کسی ہدف کی جستجو، دل میں کسی منزل کو پا لینے کی تڑپ' وہ کیفیات اور احساسات ہیں جن سے انسان کو آگے بڑھنے اور جدوجہد کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ اسی تحریک اور جذبے کے تحت انسان نے لاکھوں سال فطرت کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ارتقائی مراحل سے گزرا۔ نیندرتھل سے ہوموسیپئن تک آتے آتے اسے لاکھوں برس گزر گئے۔

ایک بہتر اور محفوظ زندگی کی خواہش آج اسے21 ویں صدی میں لے آئی ہے۔ اس کی ان گنت خواہشیں اس صدی میں پوری ہو جائیں گی لیکن پھر اس کے اندر خوب سے خوب تر کی تلاش میں نت نئی خواہشات جنم لیں گی اور انسان اسی طرح ارتقائی سفر طے کرتا رہے گا۔ ہمارے بے مثال شاعر غالبؔ نے ایک شعر میں اس پوری کیفیت کو یوں سمو دیا تھا۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

یہ بجا کہ خواہش رکھے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں لیکن یہ بھی ہے کہ مایوسی اور نامرادی سے بچنے کے لیے غیر منطقی خواہشیں نہ رکھی جائیں اور اگر ہم کسی ایسی صورتحال سے دوچار ہوں تو انھیں اپنے اعصاب پر اتنا حاوی نہ ہونے دیا جائے جس سے سب کچھ تلپٹ ہو جائے۔ بیسویں صدی میں دنیا کے کس ادیب کی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ اسے نوبیل انعام سے نوازا جائے۔

اردو کے کس شاعر نے یہ آرزو نہ کی ہو گی کہ اُسے بھی میرؔ' غالبؔ اور اقبالؔ کا مقام حاصل ہو' کون سا کلاسیکی گائیک ہو گا جو استاد بڑے غلام علی خان کا مرتبہ نہ پانا چاہتا ہو گا' کون سا ایسا فلمی موسیقار ہو گا جو نوشاد اور خورشید انور کے مقام پر فائز نہ ہونا چاہے' ہر ستار نواز کی خواہش ہوگی کہ وہ پنڈت روی شنکر جیسی عظمت پائے اور کون سا گلوکار یا گلوکارہ رفیع' مکیش' مہدی حسن' نور جہاں اور لتا منگیشکر جیسے مرتبے کا خواہش مند نہ ہو گا ۔

خواہش رکھنا سب کا حق ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کسی کو ادب کا نوبیل انعام نہ ملے تو وہ انعام اور انعام پانے والوں کے خلاف ہو جائے' کوئی غالبؔ نہ بن پائے تو غالبؔ کے پُرزے اڑانے لگے اور اچھا ستار نہ بجا سکے تو پنڈت روی شنکر کو مسترد کر دے ۔ خواہش رکھ کر یہ منفی رویہ جو بھی اختیار کرے گا وہ کسی اور کا نہیں خود اپنا گھاٹا کرے گا۔ آپ خواہش رکھ کر اگر محنت ' ریاضت اور صبر کے تکلیف دہ عمل سے نہیں گزرے تو یقین جانئے آپ کی کوئی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔

ان دنوں پاکستانی سیاست میں بھی خواہش کرنے اور اس خواہش کا ثمر جلد سے جلد حاصل کرنے کی ایک غیر معمولی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت جب تشکیل دی جاتی ہے تو اس کے چند اصول اور نظریے ہوتے ہیں۔ جماعت بنانے والوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اقتدار حاصل کریں اور اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنائیں لیکن حصول اقتدار ان کی پہلی نہیں آخری منزل ہوتی ہے۔

صنعتی انقلاب رونما ہونے کے بعد وضع کیے گئے اقتدار کے حصول کے لیے مہذب طریقہ اور سادہ اصول یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کے ووٹ حاصل کریں' اقتدار میں آئیں اور اپنے منشور کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس طریقہ کار کے علاوہ جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا وہ غلط ہو گا اور اس کا مفہوم یہی لیا جائے گا کہ اقتدار کی خواہش ایک جنون بن چکی ہے جو ہر چیز کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔

ایشیا کا کون سا سیاستدان ہو گا جس کی خواہش نہ ہو گی کہ اُسے بھی جناح' گاندھی' آزاد' نہرو' جیسی شہرت ملے' کون سا افریقی سیاستدان ہو گا جس کے دل میں نیلسن منڈیلا جیسا مقام پانے کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو' کون سا یورپی سیاستدان ہو گا جو چرچل اور ڈیگال نہ بننا چاہے اور کون سا امریکی رکن کانگریس ہو گا جس کا دل نہ چاہتا ہو گا کہ وہ ابراہم لنکن جیسا مقام پائے۔

ہر سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کو بے مثال کامیابیاں حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے کہ سب کے نصیب میں کامیابیاں نہیں ہوتیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسی نہ جانے کتنی سیاسی جماعتیں ہیں جو نہ اقتدار میں آ سکی ہیں اور نہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کی انھیں کوئی امید ہے' اس کے باوجود وہ صبر اور استقامت سے جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں' اس امید پر کہ عوام کبھی نہ کبھی انھیں پذیرائی ضرور عطا کریں گے۔

کتنے سیاسی رہنما تھے جنھیں وزیر اعظم اور صدر بننے کی خواہش تھی' یہ بے جا خواہش بھی نہ تھی' منصب اور اقتدار ملنے کے بعد ہی سیاستدانوں کو اپنے نظریات اور منشور کو آزمانے اور عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے۔ ایسے سیکڑوں نہیں ہزاروں سیاستدان دنیا میں آئے اور چلے گئے جنھیں وزارت عظمیٰ یا صدارت کا منصب نہیں ملا۔ تاہم' وہ مایوس نہیں ہوئے' ان کے تربیت کردہ کارکن آج بھی ان جماعتوں کو چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں کیسے کیسے بڑے سیاستدانوں نے عملی سیاست کے دشت میں بھٹکتے ہوئے زندگی گزار دی لیکن انھیں ایک لمحہ بھی اقتدار کے نخلستان میں دم لینے کا موقع نہیں ملا۔

یہ کوئی نہیں کہتا سیاستدانوں کو اقتدار اور عظمت پانے کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے لیکن اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ مسلسل سیاسی اور جمہوری عمل میں شریک رہیں اور جدو جہد کرتے رہیں کسی جمہوری سماج میں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ حریف کامیاب ہو جائے تو اس کی گردن پکڑ کر وزیر اعظم ہاؤس سے باہر گھسیٹنے کا اعلان کیا جائے اور انتخابات میں اکثریت حاصل نہ ہو تو پورے ایوان کو چور' ڈاکو اور قاتل قرار دے دیا جائے۔

اسلام آباد میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی طرح اور فوری طور پر اقتدار میں آنے کی بے محابا خواہش کار فرما ہے۔ ایک خواہش یہ ہے کہ ہر قیمت پر وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کیا جائے۔ اس خواہش کی راہ میں وہ شخص بنیادی رکاوٹ ہے جو اس وقت وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہے۔ لہٰذا اُسے اقتدار سے بے دخل کیے بغیر وزیر اعظم ہونے کی خواہش بر نہیں آ سکتی۔ مشکل یہ ہے کہ اُسے کس طرح ہٹایا جائے۔

یہ مطالبہ کرنے والوں نے جس آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے وہ دستاویز یہ کہتی ہے کہ ایوان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہی وزیر اعظم کو برطرف کر سکتا ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم جسے منتخب ایوان کے دو تہائی سے زائد اراکین کی حمایت حاصل ہے اور جسے ایوان نے متفقہ طور پر اعتماد کا ووٹ دیا تھا اور اس وقت بھی جس کی پشت پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ مضبوطی سے کھڑے ہوئے ہیں وہ خود اپنے عہدے سے رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے۔ جس آئین کی حفاظت کا حلف آپ نے اٹھایا ہے اس کے تحت کیا وزیر اعظم کو آئینی اور قانونی طور پر ہٹانے کا کوئی تیسرا راستہ موجود ہے؟ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ احتجاج کرنے والے رہنما اس آئینی حقیقت سے لا علم ہوں گے۔ تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ سارا ہنگامہ اس لیے ہے کہ جمہوری حق کا نام لے کر احتجاج کو اتنا پھیلا دیا جائے کہ کسی نہ کسی طرح غیر آئینی مداخلت کی راہ نکل آئے جس کے بعد 'وزیر اعظم' بننے کی خواہش فوری طور پر پوری ہو سکے۔ احتجاج کو اخلاقی اور سیاسی جواز فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے حکمت عملی یہ اختیار کی گئی کہ بار بار یہ الزام دُہرایا جائے کہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی ہے، ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے، اس لیے احتجاج ہمارا حق ہے۔ یہاں ایک مشکل یہ آ کھڑی ہوئی کہ دھاندلی اور بے قاعدگیوں کی داد رسی کا جو آئینی اور قانونی راستہ موجود ہے جب اسے آزمایا گیا تو اس کے من پسند نتائج نہ نکل سکے۔

انتخابی عذر داریوں میں کئی جگہوں پر جب دوبارہ گنتی یا پولنگ ہوئی تو جیتی ہوئی نشستیں بھی ہاتھ سے نکل گئیں۔ اس لیے آئینی اور قانونی راستے سے راہ فرار کے لیے عذر یہ گھڑا گیا کہ پوری عدلیہ' یعنی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سے لے کر ہائی کورٹ اور ریٹرننگ افسران یعنی نچلی عدلیہ تک سب اس منظم دھاندلی کا حصہ تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے جو ارکان آئین اور پارلیمنٹ کی تحفظ اور بالادستی کے لیے یک جا ہیں ان کو چور اور خائن قرار دیا گیا۔ یعنی نہ عدلیہ پر اعتماد' نہ ایوانوں پر بھروسہ' نہ سیاسی جماعتوں اور نہ الیکشن کمیشن پر اعتبار۔ کتنی بد نصیبی ہے کہ انتخابات میں 76 لاکھ ووٹ لینے والی جماعت سیاسی انتہا پسندی کا شکار ہو کر اس مذہبی انتہا پسند گروہ کے ساتھ متحد ہونے پر تیار ہے جو پاکستان کے آئین' پارلیمنٹ 'سینیٹ' عدلیہ' انتظامیہ سمیت تمام آئینی اور ریاستی اداروں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

سرکاری عمارتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ جمہوریت اور آئین کے اصولوں کی نفی کے اصول کو تسلیم کر لیا گیا تو ریاستی اقتدار کو ووٹ نہیں طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کی ریت پڑ جائے گی۔ تشدد اور انتہا پسندی کی سیاست سے کسی کی خواہش پوری ہو نہ ہو ایک مضبوط' مستحکم اور جمہوری پاکستان کا خواب یقینا پورا نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں