جمہوریت اور آمرانہ جمہوریت
آمرانہ جمہوریت گئی تو وڈیروں، سرمایہ داروں کے خاندانوں کی جمہوریت آگئی اور اس کھیل میں متوسط اور غریب طبقہ برباد۔۔۔
جمہوریت اور آمرانہ جمہوریت دو مختلف طرزِ حکمرانی ہیں۔ ایک عرب قبیلے میں عمر حسن احمد البشیر نامی ایک ایسے شخص نے آنکھ کھولی جس نے 1989ء سے سوڈان کی حکمرانی سنبھالی ہوئی ہے۔اگر اس شخص کے طرزِ حکمرانی کا مقابلہ ہمارے دور کے آمروں سے کیا جائے تو بہت سی قدریں مشترک نظر آتی ہیں۔ یہ کانگریس نیشنل پارٹی کا سربراہ ہے۔ البشیر نے سوڈانی آرمی 1960ء میں جوائن کی، کائرہ میں مصری ملٹری اکیڈمی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید تربیت سوڈانی ملٹری اکیڈمی سے حاصل کی اور پھر 1973ء کی اسرائیل عرب جنگ 'یومِ کپور' میں بہترین پیرا ٹروپ آفیسر کے طور پر اپنے افسران کے دل جیت لیے۔
پیرا ٹروپ ایسے سپاہی ہوتے ہیں جو کسی بھی جنگی مقام پر پیراشوٹ کے ذریعے اتر کر دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس شہرت کا استعمال کرتے ہوئے البشیر سوڈانی پیراٹروپ بریگیڈ کا کمانڈر بن گیا اور بالآخر 30 جون 1989ء کو امہ پارٹی کے سربراہ اور سوڈان کے اس وقت کے جمہوری وزیر اعظم الصادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر مسلط ہوگیا۔وہ دن اور آج کا دن البشیر سوڈان میں اپنے طرز کی جمہوریت قائم کیے ہوئے ہے۔جہاں باقائدہ ریفرنڈم بھی ہوتا ہے،اس کی سیاسی پارٹی جیت بھی جاتی ہے اور البشیر سوڈان کے اقتدار پر قابض بھی رہتا ہے۔یہ سب ہمیں ضیا دور کی یاد دلاتا ہے۔
البشیر ایسے کئی منصوبوں کو عوام کی فلاح کے لیے بین الاقوامی سطح پر منوا کر یہ بات دنیا کو باور کروا چکا ہے کہ وہ سوڈان کا سب سے محبِ وطن رہنما ہے۔ایسی حکمرانی صدام حسین، کرنل قذافی، حسنی مبارک سمیت کئی دیگر حکمران بھی کرچکے ہیں،اور ان میں سے تقریبا ہر کسی نے ہی اپنی آمریت کو جمہوری رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ 16 جولائی 1981 کو ملائین قوم نے مہاتیر محمد نامی ایک فزیشن کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ مہاتیر نے 1981ء سے 2003ء تک اس قوم پر حقیقی جمہوریت کے ذریعے حکمرانی کی۔ یہ شخص نہ تو ریفرنڈم کرا کر منتخب ہوتا رہا اور نہ ہی کسی طاقت کے زور پر تخت پے قابض رہا۔اس شخص کو ہر دورِاقتدار میں اس بات کی فکر ستاتی تھی کہ کہیں اس سے ایسا کچھ نہ ہو کہ اگلے دورِ اقتدارکے لیے اس کی قوم اسے مسترد کر دے، اور اس نے اس قوم کی سربلندی کے لیے جو پلان مرتب کیے ہیں وہ ادھورے رہ جائیں۔ یوں وہ پوری محنت سے قوم کی سربلندی کے لیے جتا رہا۔
قوم اسے حقیقی جمہوریت کے راستے پر چنتی چلی گئی اور آج کا ملائیشیا پوری دنیا کے سامنے ہے۔ گونج قارئین سے آج ایک سوال کے جواب کی منتظر ہے۔مانا کہ ہم نے البشیر جیسی آمرانہ جمہوریت کے کئی ادوار دیکھے ہیں، مگر کیا لیاقت علی خان کی شہادت سے آج تک غریب عوام کو کبھی حقیقی جمہوریت بھی نصیب ہوئی ہے؟سات دہائیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قیام پاکستان کے وقت کی گئی ایک سنگین غلطی گھوم گھوم کر ہمارے اور ہماری نسلوں کے سامنے آرہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت انگریزوں کی نوازی گئی کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل جاگیریں واپس نہیں لی گئیں۔ اس وقت کے وڈیرے،جاگیردار ،زمین دار ، سرمایہ دار اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ایوانوں میں پہنچ گئے اور وہ دن اور آج کا دن متوسط اور غریب طبقہ ایوانوں سے دور سڑکوں پر دو وقت کی روٹی کے لیے دھکے کھاتا نظر آتا ہے۔
ہم اگر اپنے ملک پر جمہوریت پر شب خون مارنیوالے تین سے چار نام البشیر کی آمرانہ جمہوریت کے نام سے منسوب کر بھی لیں تو کیا باقی سارے ناموں میں سے ایک بھی نام مہاتیر محمد جیسی جمہوریت کا ترجمان نظر آتا ہے؟ ہمارے عوام کو ان ہی وڈیروں نے تعلیم سے دور اور آبادی کی افزائش کے قریب رکھا۔یوں ان کو باقاعدہ Slaves اور ووٹرز کی بہت بڑی کھیپ ملتی رہی۔یہ کھیپ آمرانہ ادوار میں ریفرنڈم، جمہورانہ ادوار میں ٹرالر اور ویگنوں میں بھربھر کر ووٹ ڈالنے اور عام دنوں میں ان کے محلات، کھیتوں ، فیکٹریوں ، ملوں میں کام کرنے اور ان کی عیاشی کے لیے میسر رہی۔یوں جمہورانہ آمر کئی دہائیوں سے اقتدار پر چھائے رہے ہیں۔
آمرانہ جمہوریت گئی تو وڈیروں،سرمایہ داروں کے خاندانوں کی جمہوریت آگئی اور اس کھیل میں متوسط اور غریب طبقہ برباد ہوتا چلا گیا۔ تعلیم سے عاری افراد بڑھتے چلے گئے اور تعلیم حاصل کرنیوالے ملک سے بھاگتے گئے۔ ان وڈیروں، سرمایہ داروں نے اپنی جمہوریت کو تاحیات امر کرنے کے لیے آپس میں رشتہ داریاں قائم کیں، گروہ بنائے، اور یوں ان کے لیے اپنی طرز کی جمہوریت رائج کرنا آسان ہوتا چلا گیا۔جب آمر تخت نشین ہوا تو یہ سب یا ان کے ذریعے ایوانوں تک پہنچ گئے،یا پھر مل کر ان پر اپنے گروہوں کی یلغار کرکے اپنے طرز کے باقاعدہ الیکشن کرواکر ایوانوں میں پہنچ گئے۔
یوں وزارتوں کی بندر بانٹ کرنیوالے ان افراد نے قومی اداروں پر بھی یلغار کی۔پولیس ان کے گھر کی باندی بن گئی۔ سرکاری نوکریاں ان ہی افراد کے ذریعے بانٹی جاتی رہیں اور متوسط اور غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ان پر غربت، بیروزگاری،لوڈ شیڈنگ، بدترین کرپشن ،وزراء اور ان کے سرکاری اور غیر سرکاری نوکروں کی طاقت کی صورت میں عذاب بن کر برستا رہا۔یہ سلسلہ سات دہائیوں سے آج تک جاری ہے۔ان سب حالات میں کچھ افراد نے اس سب نظام سے چھٹکارا دلانے کے خواب لوگوں کی آنکھوں میں زندہ کر دیے۔
پیرا ٹروپ ایسے سپاہی ہوتے ہیں جو کسی بھی جنگی مقام پر پیراشوٹ کے ذریعے اتر کر دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس شہرت کا استعمال کرتے ہوئے البشیر سوڈانی پیراٹروپ بریگیڈ کا کمانڈر بن گیا اور بالآخر 30 جون 1989ء کو امہ پارٹی کے سربراہ اور سوڈان کے اس وقت کے جمہوری وزیر اعظم الصادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر مسلط ہوگیا۔وہ دن اور آج کا دن البشیر سوڈان میں اپنے طرز کی جمہوریت قائم کیے ہوئے ہے۔جہاں باقائدہ ریفرنڈم بھی ہوتا ہے،اس کی سیاسی پارٹی جیت بھی جاتی ہے اور البشیر سوڈان کے اقتدار پر قابض بھی رہتا ہے۔یہ سب ہمیں ضیا دور کی یاد دلاتا ہے۔
البشیر ایسے کئی منصوبوں کو عوام کی فلاح کے لیے بین الاقوامی سطح پر منوا کر یہ بات دنیا کو باور کروا چکا ہے کہ وہ سوڈان کا سب سے محبِ وطن رہنما ہے۔ایسی حکمرانی صدام حسین، کرنل قذافی، حسنی مبارک سمیت کئی دیگر حکمران بھی کرچکے ہیں،اور ان میں سے تقریبا ہر کسی نے ہی اپنی آمریت کو جمہوری رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ 16 جولائی 1981 کو ملائین قوم نے مہاتیر محمد نامی ایک فزیشن کو وزیر اعظم منتخب کیا۔ مہاتیر نے 1981ء سے 2003ء تک اس قوم پر حقیقی جمہوریت کے ذریعے حکمرانی کی۔ یہ شخص نہ تو ریفرنڈم کرا کر منتخب ہوتا رہا اور نہ ہی کسی طاقت کے زور پر تخت پے قابض رہا۔اس شخص کو ہر دورِاقتدار میں اس بات کی فکر ستاتی تھی کہ کہیں اس سے ایسا کچھ نہ ہو کہ اگلے دورِ اقتدارکے لیے اس کی قوم اسے مسترد کر دے، اور اس نے اس قوم کی سربلندی کے لیے جو پلان مرتب کیے ہیں وہ ادھورے رہ جائیں۔ یوں وہ پوری محنت سے قوم کی سربلندی کے لیے جتا رہا۔
قوم اسے حقیقی جمہوریت کے راستے پر چنتی چلی گئی اور آج کا ملائیشیا پوری دنیا کے سامنے ہے۔ گونج قارئین سے آج ایک سوال کے جواب کی منتظر ہے۔مانا کہ ہم نے البشیر جیسی آمرانہ جمہوریت کے کئی ادوار دیکھے ہیں، مگر کیا لیاقت علی خان کی شہادت سے آج تک غریب عوام کو کبھی حقیقی جمہوریت بھی نصیب ہوئی ہے؟سات دہائیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قیام پاکستان کے وقت کی گئی ایک سنگین غلطی گھوم گھوم کر ہمارے اور ہماری نسلوں کے سامنے آرہی ہے۔قیام پاکستان کے وقت انگریزوں کی نوازی گئی کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل جاگیریں واپس نہیں لی گئیں۔ اس وقت کے وڈیرے،جاگیردار ،زمین دار ، سرمایہ دار اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ایوانوں میں پہنچ گئے اور وہ دن اور آج کا دن متوسط اور غریب طبقہ ایوانوں سے دور سڑکوں پر دو وقت کی روٹی کے لیے دھکے کھاتا نظر آتا ہے۔
ہم اگر اپنے ملک پر جمہوریت پر شب خون مارنیوالے تین سے چار نام البشیر کی آمرانہ جمہوریت کے نام سے منسوب کر بھی لیں تو کیا باقی سارے ناموں میں سے ایک بھی نام مہاتیر محمد جیسی جمہوریت کا ترجمان نظر آتا ہے؟ ہمارے عوام کو ان ہی وڈیروں نے تعلیم سے دور اور آبادی کی افزائش کے قریب رکھا۔یوں ان کو باقاعدہ Slaves اور ووٹرز کی بہت بڑی کھیپ ملتی رہی۔یہ کھیپ آمرانہ ادوار میں ریفرنڈم، جمہورانہ ادوار میں ٹرالر اور ویگنوں میں بھربھر کر ووٹ ڈالنے اور عام دنوں میں ان کے محلات، کھیتوں ، فیکٹریوں ، ملوں میں کام کرنے اور ان کی عیاشی کے لیے میسر رہی۔یوں جمہورانہ آمر کئی دہائیوں سے اقتدار پر چھائے رہے ہیں۔
آمرانہ جمہوریت گئی تو وڈیروں،سرمایہ داروں کے خاندانوں کی جمہوریت آگئی اور اس کھیل میں متوسط اور غریب طبقہ برباد ہوتا چلا گیا۔ تعلیم سے عاری افراد بڑھتے چلے گئے اور تعلیم حاصل کرنیوالے ملک سے بھاگتے گئے۔ ان وڈیروں، سرمایہ داروں نے اپنی جمہوریت کو تاحیات امر کرنے کے لیے آپس میں رشتہ داریاں قائم کیں، گروہ بنائے، اور یوں ان کے لیے اپنی طرز کی جمہوریت رائج کرنا آسان ہوتا چلا گیا۔جب آمر تخت نشین ہوا تو یہ سب یا ان کے ذریعے ایوانوں تک پہنچ گئے،یا پھر مل کر ان پر اپنے گروہوں کی یلغار کرکے اپنے طرز کے باقاعدہ الیکشن کرواکر ایوانوں میں پہنچ گئے۔
یوں وزارتوں کی بندر بانٹ کرنیوالے ان افراد نے قومی اداروں پر بھی یلغار کی۔پولیس ان کے گھر کی باندی بن گئی۔ سرکاری نوکریاں ان ہی افراد کے ذریعے بانٹی جاتی رہیں اور متوسط اور غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ان پر غربت، بیروزگاری،لوڈ شیڈنگ، بدترین کرپشن ،وزراء اور ان کے سرکاری اور غیر سرکاری نوکروں کی طاقت کی صورت میں عذاب بن کر برستا رہا۔یہ سلسلہ سات دہائیوں سے آج تک جاری ہے۔ان سب حالات میں کچھ افراد نے اس سب نظام سے چھٹکارا دلانے کے خواب لوگوں کی آنکھوں میں زندہ کر دیے۔