پاکستان میں فیس بک کا منفی استعمال

سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کو غلط مقاصد کے لیے برتنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے


Sana Ghori September 07, 2014
نفرت انگیز اور غیراخلاقی سرگرمیوں کے روک تھام کے لیے متعلقہ ادارے کب سرگرم ہوں گے؟ فوٹو : فائل

ہر چیز کے مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی۔

یہی کچھ سوشل میڈیا کا بھی ہے، جہاں سوشل ویب سائٹس انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ اور اطلاعات اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آئی ہیں، وہی ان کی وجہ سے مختلف معاشروں میں بہت سی سماجی اور اخلاقی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے۔ ایسے معاشروں میں پاکستانی سماج بھی شامل ہے، جہاں ہر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اس کے مثبت اثرات کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدت سے فروغ پاتے ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کی دنیا کی مقبول ترین ویب سائٹ فیس بک اس صورت حال کی ایک اہم مثال ہے۔ یہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ موجودہ دور میں مفید اطلاعات کے پھیلاؤ، تفریح اور علم کے حصول کا موثر ذریعہ بن چکی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں یوزرز کی ایک بڑی تعداد اسے لوگوں کو بدنام کرنے، بے بنیاد اور گھڑی ہوئی خبریں پھیلانے اور تصاویر، خاکوں اور وڈیوز میں من مانی تبدیلیاں کرکے انھیں اپنے مقصد کے مطابق سامنے لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان میں چند سال پہلے تک جب فیس بک کے یوزرز کی تعداد محدود تھی تو اس سائٹ کو تاریخی، دل چسپ اور کارآمد اطلاعات اور تصاویر شیئر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر اب صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی فیس بک کے صارفین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ مخصوص مقاصد رکھنے والے افراد نے فیس بک پر مختلف ناموں سے ایک سے زیادہ اکاؤنٹ بنا رکھے ہیں۔ یہ جعلی فیس بک اکاؤنٹ اکثر بلیک میلنگ، پروپیگنڈے، غیراخلاقی پوسٹس کی شیئرنگ اور بیہودہ کمنٹس جیسی منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیشتر نوجوانوں کے لیے فرضی ناموں کا استعمال کشش رکھتا ہے، جس سے وہ جنسِ مخالف کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی لڑکیاں اداکاراؤں اور پرکشش چہرے والی خواتین کی گلیمرس تصاویر کو اپنی پروفائل پکچر بنالیتی ہیں، جس کی وجہ سے انھیں توجہ حاصل ہوتی ہے۔ ایسا عموماً فیک آئی ڈیز پر کیا جاتا ہے، جن کے ذریعے عموماً غیراخلاقی اور ہماری اقدار کے منافی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔

معروف معنوں میں غیراخلاقی سرگرمیاں تو خیر ایک انفرادی معاملہ ہے، لیکن سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک پر ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اور مکاتب فکر میں ایک دوسرے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بنتی ہیں اور بن رہی ہیں۔ فیس بک پر مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے افراد مخالف سیاست دانوں کے لیے نہایت نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں۔



فیس بک سمیت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اس طرح کی زبان استعمال کرنے اور اس نوعیت کی تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ اس رجحان کے باعث نہ صرف فیس بک پر بل کہ عملی زندگی میں بھی مختلف سیاسی اور مذہبی مکاتب فکر کے درمیان کدورت اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں سوشل میڈیا پر حکومت اور اس کے مخالفین کی جانب سے آنے والی پوسٹس اور کمنٹس اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔

فیس بک پر متحرک اکثر سیاسی کارکن اس سائٹ کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ان کی سرگرمیاں اپنی جماعت کے نظریات اور پالیسیوں کی حمایت میں اور مخالفین پر اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید تک محدود ہوں تو اسے غلط نہیں کہا جاسکتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سیاسی کارکن، جن میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں۔ یہ سیاسی کارکن اپنے مخالفین کے خلاف نہ صرف نہایت نازیبا زبان میں کمنٹس دیتے ہیں بل کہ مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جعلی اور مضحکہ خیز فرضی تصاویر بنا کر پوسٹ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے خاتون سیاست دانوں کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا۔ ایک حربہ یہ استعمال کیا جاتا ہے کہ مخالف سیاسی یا مذہبی راہ نما کی تصویر کو ایڈیٹنگ کے ذریعے اسے لڑکیوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی کردار کشی کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ یہی کچھ مخالف فرقے کے مذہبی راہ نماؤں اور علماء کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ چلن بھی بہت عام ہے کہ کسی مشہور شخصیت کا قول اپنی من پسند شخصیت سے منسوب کردیا جاتا ہے اور شخصیات سے ایسے اقوال اور اشعار منسوب کردیے جاتے ہیں جو ان کے نہیں ہوتے۔ ایسی پوسٹ کو جانچ کیے بغیر آگے شیئر کردیا جاتا ہے۔

اسی طرح انٹرنیٹ اور سوشل ویب سائٹس پر موجود خواتین کی تصاویر کو اٹھا کر انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کا شرم ناک رجحان بھی فیس بک پر عام ہے۔ ان تصاویر کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن ان تصاویر کو فیک آئی ڈیز کی پروفائل پکچر بنانے کا مکروہ عمل سرفہرست ہے۔ عام طور پر خواتین کے نام سے مرد فیک آئی ڈیز بناتے ہیں، جن کے ذریعے مردوں کے بے وقوف بنایا اور خواتین سے دوستی کی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کو کیسے روکا جائے جو ہمارے معاشرے میں اقدار کی تباہی، غیراخلاقی سرگرمیوں کے فروغ اور انتشار پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں؟ اس طرح کی زیادہ تر سرگرمیاں فیک آئی ڈیز کی مدد سے انجام دی جاتی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جعلی آئی بنانے والے یوزرز کی لوکیشن کو ڈھونڈا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز یونٹ کو بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔

سوشل میڈیا خاص طور پر مقبول ترین سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ فیس بک پر جاری منفی اور غیراخلاقی سرگرمیاں ہمارے معاشرے میں نفرت، انتشار اور بے راہ روی کو فروغ دینے کا سب بن رہی ہیں، لیکن متعلقہ ادارے اس حوالے سے خاموش ہیں۔ آخر وہ کب اپنا کردار ادا کریں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں