خودکش حملوں پر طالبان میں اختلافات موجود تھے پروفیسر اجمل خان
وہ کہتے تھے،’’ہمیں دنیاوی تعلیم کی ضرورت ہے‘‘، سجناگروپ کے لوگوں سے خودکش حملوں پر بحث ہوتی تھی، اجمل خان
یہ منگل کا دن، 7 ستمبر 2010 کی صبح تھی۔ خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور کی تاریخی درس گاہ اسلامیہ کالج یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اجمل خان اپنے ڈرائیور محبوب اﷲ کے ساتھ کار میں اپنے گھر واقع پروفیسرز کالونی سے دفتر جارہے تھے کہ ایک کار میں سوار نامعلوم مسلح افراد پروفیسر اجمل خان کو بندوق کی نوک پر اغواء کرکے نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ بعد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔
پروفیسراجمل خان کا تعلق خیبرپختون خوا کے تاریخی ضلع چارسدہ کے ایک مشہور سیاسی خاندان سے ہے۔ وہ پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے کزن بھی ہیں۔ پروفیسراجمل خان پشاور یونی ورسٹی کے پرووسٹ، اسلامیہ کالج کے پرنسپل اور گومل یونی ورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔
4 سال طالبان کی قید میں گزارنے کے بعد28 اگست کی رات اچانک ان کی بازیابی کی اطلاع ان کے گھر والوں کے لیے ایک انمول خوش خبری تھی۔ ''ایکسپریس'' کے ساتھ خصوصی نشست میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سمیت دوران قید ان پر اور ان کے اغوا ہونے کے بعد ان کے خاندان کے جملہ افراد پرجوکچھ گزری ، اس کی روداد سنائی، یہ کہانی انہی کی زبانی ملاحظہ کریں:
منگل کے روز 7 ستمبر 2010 کو تقریباً صبح 9 بجے کا وقت تھا۔ حسب معمول میں اپنے گھر سے نکلا گھر کے باہر تھوڑے سے فاصلے پر ایک گاڑی پہلے سے موجود تھی، جیسے ہی میں اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور ڈرائیور نے گاڑی چلانا شروع کی تو ساتھ ہی وہ دوسری گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ تقریباً 200 گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس گاڑی میں سوار مسلح افراد نے ہمیں روک لیا، جن میں سے ایک آدمی، جو کہ لباس اور زبان سے مقامی لگتا تھا، نے گاڑی سے فوراً اتر کر میرے ڈرائیور کو دبوچ لیا، جب کہ مزید تین اور مسلح افراد بھی گاڑی سے اترے اور ہمیں گاڑی سمیت اپنے قبضے میں لے لیا۔ چاروں مسلح افراد نے اپنے چہرے رومال سے ڈھانپ رکھے تھے، چوں کہ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اس لیے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔
اغواکاروں کے ہاتھ میں کالے رنگ کے پلاسٹک بیگز تھے، جن سے انہوں نے انجکشن نکالے۔ میرے ہاتھ پر جب کہ ڈرائیور کی ٹانگ پر انجکشن لگایا، جس کا ہم پر چند منٹوں میں اثر ہوا اور ہم پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ چوں کہ ابتدائی لمحوں میں ہم مکمل بے ہوش نہیں ہوئے تھے، اس لیے اتنا یاد ہے کہ وہ ہمیں پروفیسرزکالونی کے پچھلے راستے سے لے کر جارہے تھے اور ورسک روڈ اور کینال روڈ سے گزر رہے تھے۔ بس اس منظر کے بعد چوں کہ ہم بے ہوش ہوگئے تھے، اس لیے پھر ہمیں پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا اور ہمیں وہ کن کن راستوں سے اپنے مقام تک لے آئے۔ جب سہ پہر تقریباً دو بجے کے قریب مجھے ہوش آیا اور اپنے ارگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہم اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچوں بیچ پہنچ چکے تھے، جہاں انہوں نے ہمیں گاڑی سے اترنے کو کہا۔
گاڑی سے اتر کر ہم پیدل چل پڑے اور آدھے گھنٹے تک پیدل چلنے کے بعد آخر ہماری دوسری منزل آگئی، جہاں ایک اور گاڑی کھڑی تھی، جس میں سوار ہونے کو کہا گیا۔ پھر ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہماری گاڑی سے آگے ایک اور تیسری گاڑی بھی تھی۔ ہمیں ایک گھر میں لے جایا گیا اور وہاں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ شام کے وقت وہی اغواء کار میرے پاس آئے اور مختلف قسم کے سوالات شروع کردیے اور بڑے فخریہ انداز میں بتایا، ہم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں۔ ہمیں ہمارے بڑوں نے حکم دیا تھا کہ جیسے بھی ہو دو افراد میں سے کسی ایک کو پشاور سے اٹھا کر لانا ہے۔
جو چار افراد مجھے اغواء کر کے لے گئے انہوں نے مقامی لباس یعنی شلوار قمیص پہن رکھا تھا اور چاروں کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔ جس گھر میں انہوں نے ہمیں قید کر رکھا تھا۔ اس میں باقاعدہ فیملی رہتی تھی۔ میں نے جب ان لوگوں سے اس جگہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ افغانستان کا صوبہ کنڑ ہے۔ وہ جھوٹ بولتے تھے، کیوں کہ وہ کنڑ نہیں بل کہ میرے اندازے کے مطابق خیبر ایجنسی کا کوئی علاقہ تھا۔ بہرحال، اس گھر میں ہمیں 14 دن تک رکھا گیا، جس کے بعد کسی دوسرے مقام منتقل کر دیا گیا۔ ہاں ایک بات یہ کہ اغوا تو ہمیں تحریک طالبان پاکستان نے کیا تھا، مگر بعد میں جب ان کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور آپس میں ان کا جھگڑا ہوا، تو ہمیں محسود طالبان سجنا گروپ کے پاس لے گئے۔
یہ بتاتا چلوں کہ چوں کہ انہیں میرے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ اس لیے وہ مجھے استاد کہہ کر پکارتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف میرا بہت خیال رکھا، بل کہ میرا بہت زیادہ احترام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے میرے سامنے کبھی کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کی جس سے مجھے کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف پہنچی ہو اور نہ ہی مجھ سے کوئی کام کرواتے تھے۔ ویسے تو اس سے پہلے تحریک طالبان والے بھی میری بہت زیادہ عزت کرتے اور خیال رکھتے تھے، مگر محسود طالبان نے ان سے بڑھ کر میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا۔ وہ میری عزت کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ان کے بڑوں نے دو افراد کو یہاں لانے کا حکم دیا تھا۔
اس دوسرے فرد کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ وہ سابق وزیراطلاعات وثقافت اور اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاںافتخار حسین تھے۔ چوں کہ ایک تو میاں افتخارحسین اس وقت وزیراطلاعات وثقافت تھے اور پھر ان کے بیٹے کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔ اس لیے ان کی سیکیوریٹی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، جس کے باعث طالبان میاں افتخارحسین کو اغواء کرنا مشکل کام تھا، لہذا ان کے لیے آسان ہدف میں ہی تھا اور وہ یہ ہدف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔
طالبان نے مجھ پر یہ بات واضح کردی کہ چوںکہ آپ اس وقت وائس چانسلر جیسے کلیدی عہدے پر فائز ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ آپ موجودہ صوبائی حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے قریبی رشتے دار بھی ہیں، اس لیے آپ کے بدلے ہم حکومت سے اپنے اہم مطالبات اب آسانی کے ساتھ منواسکتے ہیں۔ وہاں میں نے طالبان کا بغور مشاہدہ کیا۔ وہ بھی ہماری طرح کے عام لوگ تھے۔ ظاہری شکل وصورت اور بولنے والی زبان کے لحاظ سے یہاں کے مقامی باشندوں جیسے تھے۔
لمبے لمبے بال، بڑی بڑی داڑھیاں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، طرزِگفتگو ایک جیسا تھا۔ تاہم ان میں ایک چیز کی بہت کمی دیکھی اور وہ ہے تعلیم۔ تعلیم کی وہاں بہت زیادہ کمی ہے، اکثریت پرائمری سے زیادہ پڑھی لکھی نہیں۔ جب علم اور تعلیم کا یہ حال ہو، یعنی روشنی سے دوری ہو، تو ظاہر ہے کہ وہ کسی انسان پر ترس کیسے کھائیں گے۔ میں اس حقیقت کو کیسے فراموش کردوں کہ انہوں نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا میری عزت اور احترام کیا۔
جب میں نے انہیں بتایا کہ میں دل کا مریض ہوں اور دوا کے بغیر میرا گزارہ مشکل ہے، تو انہوں نے اسی وقت میرے لیے ادویات منگوائیں۔ یہاں تک کہ میرے لیے پرہیزی کھانا تیار کرتے تھے اور آئل میں پکائے ہوئے کھانے دیا کرتے تھے اور جن چیزوں سے مجھے پرہیز تھا کبھی میرے سامنے نہیں رکھیں۔ چوں کہ خوراک میں چاول میرا من بھاتا کھاجا ہے اس لیے زیادہ تر وہ چاول ہی پکایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک ماہر باورچی رکھا ہوا تھا، بہت مزے دار اور مختلف قسم کے چاول اور دیگر پکوان بناتا تھا۔ قید کے آخری ایام میں تو انہوں نے میری پسند کے بہت سے کھانے تیار کیے۔
تحریک طالبان کے افراد مجھے ''حاجی صیب''، سجنا گروپ والے ''بابا'' اور خود حکیم اﷲ محسود مجھے ''لالا'' کہہ کر پکارتے تھے۔ مجھ سے دو مرتبہ کہا گیا تھا کہ آپ کو چھوڑا جا رہا ہے اور مجھے پہاڑوں سے نکال کر میران شاہ بھی لے آئے تھے، مگر معاملات میں تعطل کی وجہ سے واپس لے گئے۔ دراصل حکومت کو میری رہائی میں جو مشکلات پیش آئیں وہ یہ تھیں کہ طالبان اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر یہ مطالبات حکومت کے دائرہ اختیار سے اس لیے بھی باہر تھے کہ طالبان کے بعض افراد خود حکومت کی حراست میں بھی نہیں تھے۔ وہ لوگ جس جگہ تھے وہاں پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
نہ تو مرحوم گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے اور نہ ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سے میری کبھی ملاقات ہوئی، کیوں کہ میں جن لوگوں کے پاس تھا وہ ان لوگوں کے پاس نہیں تھے۔ میں نے ان سے کئی مرتبہ پوچھا بھی کہ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے آپ کے پاس ہیں؟ تو وہ صاف انکار کردیتے تھے۔ ایک اور خاص بات یہ بھی کہ میں نے اتنے عرصے میں وہاں کوئی ایک بھی خود کش بم بار نہیں دیکھا اور جس وقت میں سجنا گروپ کے پاس آیا تو ان لوگوں کے ساتھ خود کش حملوں پر بہت بحث ومباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا، جب کہ سجنا گروپ خود بھی کہتا تھا کہ ہم خودکش حملوں کے خلاف ہیں۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ تحریک طالبان سے سجنا گروپ کا اختلاف بھی انہی بنیادوں پر ہوا، کیوںکہ بازاروں، مساجد، جنازوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خود کش حملوں کو سجنا گروپ والے بھی حرام کہتے ہیں، جب کہ وہ اغواء اور بھتاخوری کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ بھی صرف شریعت کا نفاذ ہے، کیوںکہ ان کے مطابق ہر برے کام کا خاتمہ اسی میں پوشیدہ ہے۔
ابتدا میں ہمیں بند کمرے میں کڑے پہرے میں رکھا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ صورت حال میں نرمی آتی گئی اور ہمیں مخصوص کمرے سے نکل کر گھر کے دیگر حصوں میں بھی جانے کی اجازت مل گئی۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری باربار منت سماجت کے بعد وہ میرے ڈرائیور محبوب اﷲ کو رہا کرنے پر تیار ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کا ہدف تو میں ہوں، اس بیچارے سے آپ کا کیا لینا دینا، تو بالٓاخر دو سال بعد انہوں نے محبوب اﷲ کو چھوڑ دیا جس سے مجھے یہ احساس ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے آزادی دی ہو۔ اس کے بعد وہاں میری نقل وحرکت اور بھی آسان ہوگئی اور میں اس علاقے میں نسبتاً آزادانہ گھومتا پھرتا رہا۔
عام لوگوں سے میل جول ہوتا رہا، خریداری کے لیے قریبی دکانوں پر بھی جاتا رہا۔ بعض لوگ اب کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں آپ نے فرار ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ میں ایسا کیوں کرتا، مجھے یقین تھا یہ لوگ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور دوسرا ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوچکا تھا، اس لیے میں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا اور اگر کر بھی لیتا تو اس میں نقصان مجھے ہی پہنچتا۔ اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ بھی تھی کہ طالبان کا رویہ روزاول سے میرے ساتھ اچھا تھا، اس لیے مجھے کبھی یہ خوف محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ مجھے جان سے ماردیں گے، جب کہ طالبان کی باتوں سے مجھے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ مجھے ضرور چھوڑ دیں گے۔
یہ بات بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ جس ہمیں مکان میں رکھا گیا، اس کے اگلے ہی دن وہ ادویات کے ساتھ حجامت کا سامان بھی لے آئے اور کہا کہ اس سے حجامت کرلو، مگر میرا پہلے سے ارادہ تھا کہ دوسری بار فریضۂ حج کے لیے ضرور داڑھی رکھوں گا، سو ان سے کہہ دیا کہ داڑھی رکھنے کا ارادہ تو کر ہی لیا ہے تو کیوں نہ آج ہی اس پر عمل کیا جائے۔ یوں میں نے اپنی مرضی سے داڑھی رکھ لی، جس کے لیے انہوں نے مجھے مجبور نہیں کیا۔
ان تمام سہولیات کے علاوہ حالات سے باخبر رکھنے کے لیے انہوں نے مجھے ریڈیو بھی فراہم کیا تھا، جس سے نہ صرف میں خود کو ملکی وبین الاقوامی حالات سے باخبر رکھتا تھا، بل کہ اس سے قید کے یہ دن بھی کچھ اچھے کٹتے تھے۔ اس طرح مصروفیت کا ایک بہانہ مل گیا تھا۔ ان کی طرف سے میرا ہر طرح سے خیال رکھنے کے باوجود قید کے یہ دن بہت کٹھن تھے اور میں ایک ایک لمحہ گن گن کے گزارتا رہا۔
اس دوران بہت سی چیزیں اور باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہتیں، جو میرے لیے انتہائی کرب ناک صورت حال کا باعث ہوتیں۔ گھر کے ہر ایک فرد کی یاد مجھے تڑپاتی۔ نواسے نواسیوں کی یادیں تو جیسے میرے دل پر چھریاں چلاتیں، جس سے میں تڑپتا اور ان کی یاد مجھے کم زور بنادیتی اور میں کچھ لمحوں کے لیے ہمت ہار بیٹھتا، لیکن پھر لڑکھڑا کر اٹھ جاتا۔
جس دن کا مجھے انتظار تھا وہ آہی گیا، یعنی جس روز مجھے رہا کیا جانا تھا۔ اس دن مجھ سے کہا گیا کہ آپ تیار ہوجائیں، انشاء اﷲ آج آپ واپس اپنے گھر جانے والے ہیں۔ یہ سن کر میری خوشی دیدنی تھی، مگر پھر بھی دھڑکا لگارہا، کیوں کہ اس سے قبل بھی وہ دو بار مجھے اس مقام سے میران شاہ لے آئے تھے کہ آپ کو رہا ئی مل گئی ہے، لیکن پھر واپس لے جاتے۔
ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا واحد راستہ غربت کا خاتمہ اور تعلیم کو عام کرنا ہے۔ اگر غربت افلاس کا خاتمہ اور تعلیم عام کردی جائے تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہاپسندی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مجھ سے خود طالبان یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دنیاوی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ دینی تعلیم توہم حاصل کرچکے ہیں، لیکن دنیاوی تعلیم کا فقدان ہے اور انسان کو زندگی گزارنے کے لیے دینی ودنیاوی تعلیم دونوں کی ضرورت ہے۔ اس بات کا احساس مجھے پہلے بھی تھا، اس لیے اپنے اغواء سے قبل وزیرستان میں ہم نے اسلامیہ کالج کے ذیلی ادارے قائم کرنے کے لیے کوشش کی تھی۔
کرم ایجنسی اور پارہ چنار میں کیمپس کا افتتاح بھی کیا تھا، جب کہ علاقہ صدہ میں بھی کیمپس قائم کرنا تھا، جس کے لیے عمارت نہیں تھی اور گورنر سے عمارت کے لیے درخواست بھی کی تھی، مگر اغواء کی وجہ سے وہ منصوبہ درمیان ہی میں رہ گیا، تاہم میں نے مصمم ارادہ کیا ہوا ہے کہ اب اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔ میری بازیابی کے حوالے سے اے این پی اور اس کے سربراہ اسفندیارولی خان کی کوششوں کو بھی سراہتا ہوں۔
مجھے حکیم اﷲ محسود نے پہلی ہی ملاقات میں کہا تھا کہ ہمیں آپ کی فیملی سے ایک پیسہ بھی نہیں لینا ہے۔ ہمارے جو بھی مطالبات ہوں گے وہ حکومت ہی سے ہوں گے، اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ میری رہائی کے بدلے میرے سامنے ان کے کسی ساتھی کا تبادلہ نہیں ہوا اور نہ ہی مجھے اس بات کا علم ہے کہ میرے بدلے ان کے کچھ ساتھی رہا ہوئے ہیں۔ اس بارے میں مجھے کوئی معلومات نہیں۔ البتہ پانچ ماہ قبل جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو اس قسم کی خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ حکومت ان کے کچھ لوگ رہا کرے گی، جس کے بدلے مجھے چھوڑا جائے گا، مگر پھر مذاکرات درمیان میں رہ گئے۔
دیگر مغویوں میں سب سے پہلے مجھے اغوا کیا گیا تھا، اور مجھے سب سے آخر میں رہائی ملی۔ بہرحال اللہ تعالی کا شکرگزار ہوں، وہاں کے مقامی لوگوں، حکومت، ایجنسی کے حکام اور فورسز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری بازیابی کے لیے کوششیں کیں۔ ساتھ ہی ان تمام مردوخواتین کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے میری بازیابی کے لیے دعائیں کیں۔
''رہائی کا یقین ہی نہیں آرہا تھا''، گھروالوں کے تاثرات
پروفیسر اجمل خان کی شریک حیات نے اپنے شوہر کی بازیابی اور چار سال کی جدائی کے حوالے سے بتایا کہ چار سال تو انتہائی مشکل گزرے، لیکن جب اطلاع ملی کہ پروفیسر صاحب کو رہا کردیا گیا ہے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا، لیکن جوں ہی ان کو اپنے سامنے موجود پایا تو مارے خوشی کے آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے اور اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ ان کے بغیر ہم پر جو گزری وہ بیان نہیں کر سکتی۔
اس دوران میں بچیوں کی ہمت بندھاتی رہی مگر خود مجھ پر کیا بیت رہی تھی یہ صرف میں اور میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے انتظار میں ایک ایک لمحہ برسوں کا لگا۔ ان سے فون پر رابطہ کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جب فون پر رابطہ ہوتا تو وہ بھی بہت مختصر کال ہوتی تھی۔ جب ان کے ویڈیو پیغامات آتے تھے تو انہیں زندہ دیکھ کر اطمینان ہوجاتا تھا کہ وہ زندہ تو ہیں مگر ان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا، لیکن اپنے رب سے یہی امید تھی کہ یہ ایک دن ضرور ہمارے درمیان موجود ہوں گے اور اللہ نے وہ دن دکھا دیا۔
پروفیسر اجمل کی بڑی صاحب زادی زرغونہ کہتی ہیں کہ 7 ستمبر کو بہن کی کال آئی کہ پشاور آجاؤ! جس کے بعد معلوم ہوا کہ بابا کو کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ یہ سن کر ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ اس کے بعد ان کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں اور عزیزواقارب نے حوصلہ دینا شروع کردیا کہ آپ کے ابو جلد گھر آئیں گے۔ اس کے باوجود بابا کے گھر آنے میں چارسال کا عرصہ بیت گیا، لیکن جونہی ہمیں بابا کے گھر آنے کی اطلاع ملی تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم خواب دیکھ رہے ہوں۔ اس صورت حال نے تو سب کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے نے والدہ صاحبہ کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا تھا اور وہ گم صم رہنے لگی تھیں۔ ایسا کوئی بھی دن نہیں گزرا تھا جس دن دل ودماغ میں بابا کا خیال نہ آیا ہو۔ یہ چار سال بیان ہی نہیں کر سکتی۔ ویسے تو ہمارا سبھی نے بہت خیال رکھا لیکن ماموں جان ایک فون کال پر پہنچ جاتے تھے۔ انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا، لیکن گذشتہ سال ان کی وفات کے بعد ہم بالکل ٹوٹ گئے تھے۔ پھر بھی اپنے رب سے یہی امید تھی کہ بابا ایک نہ ایک دن ضرور آئیں گے اور اﷲ نے وہ دن دکھادیا جب بابا ہمارے درمیان تھے۔
پروفیسر اجمل خان کے داماد سلمان شاہ کہتے ہیں کہ اجمل خان کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ وہ ہمیں بیٹوں جیسا سمجھتے ہیں۔ اغوا کے ڈیڑھ ماہ بعد ان کا پہلا فون آیا تھا۔ ان کی بازیابی کے لیے اس وقت کی حکومت اور موجودہ حکومت نے بہت کوشش کی۔ 9 عیدیں ان کے بغیر گزریں، لیکن جب ان کا فون آتا تو سب میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ 1450 دن بابا ہم سے دور رہے جو انتہائی تکلیف دہ دن تھے، لیکن آج ہم سب خوش ہیں کہ بابا صحیح سلامت ہمارے مابین موجود ہیں۔
پروفیسر اجمل کل وائس چانسل کا چارج دوبارہ سنبھالیں گے
پروفیسر اجمل خان جس وقت اغواء ہوئے تب وہ اسلامیہ کالج یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، جس کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اس وقت کی صوبائی حکومت نے یہ اہم ذمہ داری ڈاکٹر قبلہ ایاز کو اس معاہدے کے تحت سونپ دی تھی اور طے کیا گیا تھا کہ جب بھی اجمل خان کی بازیابی ممکن ہوگی وہ دوبارہ اپنے ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ چار سال کے بعد جب پروفیسر اجمل خان کی بازیابی ممکن ہوپائی ہے تو معاہدے کے تحت وہ ایک پروقار استقبالیہ تقریب میں 8 ستمبر کو دوبارہ وائس چانسلر کی حیثیت سے چارج سنبھالیں گے۔
پروفیسراجمل خان کا تعلق خیبرپختون خوا کے تاریخی ضلع چارسدہ کے ایک مشہور سیاسی خاندان سے ہے۔ وہ پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے کزن بھی ہیں۔ پروفیسراجمل خان پشاور یونی ورسٹی کے پرووسٹ، اسلامیہ کالج کے پرنسپل اور گومل یونی ورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔
4 سال طالبان کی قید میں گزارنے کے بعد28 اگست کی رات اچانک ان کی بازیابی کی اطلاع ان کے گھر والوں کے لیے ایک انمول خوش خبری تھی۔ ''ایکسپریس'' کے ساتھ خصوصی نشست میں انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سمیت دوران قید ان پر اور ان کے اغوا ہونے کے بعد ان کے خاندان کے جملہ افراد پرجوکچھ گزری ، اس کی روداد سنائی، یہ کہانی انہی کی زبانی ملاحظہ کریں:
منگل کے روز 7 ستمبر 2010 کو تقریباً صبح 9 بجے کا وقت تھا۔ حسب معمول میں اپنے گھر سے نکلا گھر کے باہر تھوڑے سے فاصلے پر ایک گاڑی پہلے سے موجود تھی، جیسے ہی میں اپنی گاڑی میں سوار ہوا اور ڈرائیور نے گاڑی چلانا شروع کی تو ساتھ ہی وہ دوسری گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ تقریباً 200 گز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اس گاڑی میں سوار مسلح افراد نے ہمیں روک لیا، جن میں سے ایک آدمی، جو کہ لباس اور زبان سے مقامی لگتا تھا، نے گاڑی سے فوراً اتر کر میرے ڈرائیور کو دبوچ لیا، جب کہ مزید تین اور مسلح افراد بھی گاڑی سے اترے اور ہمیں گاڑی سمیت اپنے قبضے میں لے لیا۔ چاروں مسلح افراد نے اپنے چہرے رومال سے ڈھانپ رکھے تھے، چوں کہ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اس لیے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔
اغواکاروں کے ہاتھ میں کالے رنگ کے پلاسٹک بیگز تھے، جن سے انہوں نے انجکشن نکالے۔ میرے ہاتھ پر جب کہ ڈرائیور کی ٹانگ پر انجکشن لگایا، جس کا ہم پر چند منٹوں میں اثر ہوا اور ہم پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ چوں کہ ابتدائی لمحوں میں ہم مکمل بے ہوش نہیں ہوئے تھے، اس لیے اتنا یاد ہے کہ وہ ہمیں پروفیسرزکالونی کے پچھلے راستے سے لے کر جارہے تھے اور ورسک روڈ اور کینال روڈ سے گزر رہے تھے۔ بس اس منظر کے بعد چوں کہ ہم بے ہوش ہوگئے تھے، اس لیے پھر ہمیں پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا اور ہمیں وہ کن کن راستوں سے اپنے مقام تک لے آئے۔ جب سہ پہر تقریباً دو بجے کے قریب مجھے ہوش آیا اور اپنے ارگرد نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ہم اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچوں بیچ پہنچ چکے تھے، جہاں انہوں نے ہمیں گاڑی سے اترنے کو کہا۔
گاڑی سے اتر کر ہم پیدل چل پڑے اور آدھے گھنٹے تک پیدل چلنے کے بعد آخر ہماری دوسری منزل آگئی، جہاں ایک اور گاڑی کھڑی تھی، جس میں سوار ہونے کو کہا گیا۔ پھر ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہماری گاڑی سے آگے ایک اور تیسری گاڑی بھی تھی۔ ہمیں ایک گھر میں لے جایا گیا اور وہاں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ شام کے وقت وہی اغواء کار میرے پاس آئے اور مختلف قسم کے سوالات شروع کردیے اور بڑے فخریہ انداز میں بتایا، ہم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے کارکن ہیں۔ ہمیں ہمارے بڑوں نے حکم دیا تھا کہ جیسے بھی ہو دو افراد میں سے کسی ایک کو پشاور سے اٹھا کر لانا ہے۔
جو چار افراد مجھے اغواء کر کے لے گئے انہوں نے مقامی لباس یعنی شلوار قمیص پہن رکھا تھا اور چاروں کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔ جس گھر میں انہوں نے ہمیں قید کر رکھا تھا۔ اس میں باقاعدہ فیملی رہتی تھی۔ میں نے جب ان لوگوں سے اس جگہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ افغانستان کا صوبہ کنڑ ہے۔ وہ جھوٹ بولتے تھے، کیوں کہ وہ کنڑ نہیں بل کہ میرے اندازے کے مطابق خیبر ایجنسی کا کوئی علاقہ تھا۔ بہرحال، اس گھر میں ہمیں 14 دن تک رکھا گیا، جس کے بعد کسی دوسرے مقام منتقل کر دیا گیا۔ ہاں ایک بات یہ کہ اغوا تو ہمیں تحریک طالبان پاکستان نے کیا تھا، مگر بعد میں جب ان کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور آپس میں ان کا جھگڑا ہوا، تو ہمیں محسود طالبان سجنا گروپ کے پاس لے گئے۔
یہ بتاتا چلوں کہ چوں کہ انہیں میرے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ اس لیے وہ مجھے استاد کہہ کر پکارتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف میرا بہت خیال رکھا، بل کہ میرا بہت زیادہ احترام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے میرے سامنے کبھی کوئی ایسی بات یا حرکت نہیں کی جس سے مجھے کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف پہنچی ہو اور نہ ہی مجھ سے کوئی کام کرواتے تھے۔ ویسے تو اس سے پہلے تحریک طالبان والے بھی میری بہت زیادہ عزت کرتے اور خیال رکھتے تھے، مگر محسود طالبان نے ان سے بڑھ کر میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا۔ وہ میری عزت کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ان کے بڑوں نے دو افراد کو یہاں لانے کا حکم دیا تھا۔
اس دوسرے فرد کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ وہ سابق وزیراطلاعات وثقافت اور اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاںافتخار حسین تھے۔ چوں کہ ایک تو میاں افتخارحسین اس وقت وزیراطلاعات وثقافت تھے اور پھر ان کے بیٹے کو بھی شہید کردیا گیا تھا۔ اس لیے ان کی سیکیوریٹی کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، جس کے باعث طالبان میاں افتخارحسین کو اغواء کرنا مشکل کام تھا، لہذا ان کے لیے آسان ہدف میں ہی تھا اور وہ یہ ہدف بڑی آسانی کے ساتھ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔
طالبان نے مجھ پر یہ بات واضح کردی کہ چوںکہ آپ اس وقت وائس چانسلر جیسے کلیدی عہدے پر فائز ہیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ آپ موجودہ صوبائی حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے قریبی رشتے دار بھی ہیں، اس لیے آپ کے بدلے ہم حکومت سے اپنے اہم مطالبات اب آسانی کے ساتھ منواسکتے ہیں۔ وہاں میں نے طالبان کا بغور مشاہدہ کیا۔ وہ بھی ہماری طرح کے عام لوگ تھے۔ ظاہری شکل وصورت اور بولنے والی زبان کے لحاظ سے یہاں کے مقامی باشندوں جیسے تھے۔
لمبے لمبے بال، بڑی بڑی داڑھیاں۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، طرزِگفتگو ایک جیسا تھا۔ تاہم ان میں ایک چیز کی بہت کمی دیکھی اور وہ ہے تعلیم۔ تعلیم کی وہاں بہت زیادہ کمی ہے، اکثریت پرائمری سے زیادہ پڑھی لکھی نہیں۔ جب علم اور تعلیم کا یہ حال ہو، یعنی روشنی سے دوری ہو، تو ظاہر ہے کہ وہ کسی انسان پر ترس کیسے کھائیں گے۔ میں اس حقیقت کو کیسے فراموش کردوں کہ انہوں نے میرا بہت زیادہ خیال رکھا میری عزت اور احترام کیا۔
جب میں نے انہیں بتایا کہ میں دل کا مریض ہوں اور دوا کے بغیر میرا گزارہ مشکل ہے، تو انہوں نے اسی وقت میرے لیے ادویات منگوائیں۔ یہاں تک کہ میرے لیے پرہیزی کھانا تیار کرتے تھے اور آئل میں پکائے ہوئے کھانے دیا کرتے تھے اور جن چیزوں سے مجھے پرہیز تھا کبھی میرے سامنے نہیں رکھیں۔ چوں کہ خوراک میں چاول میرا من بھاتا کھاجا ہے اس لیے زیادہ تر وہ چاول ہی پکایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک ماہر باورچی رکھا ہوا تھا، بہت مزے دار اور مختلف قسم کے چاول اور دیگر پکوان بناتا تھا۔ قید کے آخری ایام میں تو انہوں نے میری پسند کے بہت سے کھانے تیار کیے۔
تحریک طالبان کے افراد مجھے ''حاجی صیب''، سجنا گروپ والے ''بابا'' اور خود حکیم اﷲ محسود مجھے ''لالا'' کہہ کر پکارتے تھے۔ مجھ سے دو مرتبہ کہا گیا تھا کہ آپ کو چھوڑا جا رہا ہے اور مجھے پہاڑوں سے نکال کر میران شاہ بھی لے آئے تھے، مگر معاملات میں تعطل کی وجہ سے واپس لے گئے۔ دراصل حکومت کو میری رہائی میں جو مشکلات پیش آئیں وہ یہ تھیں کہ طالبان اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے تھے، مگر یہ مطالبات حکومت کے دائرہ اختیار سے اس لیے بھی باہر تھے کہ طالبان کے بعض افراد خود حکومت کی حراست میں بھی نہیں تھے۔ وہ لوگ جس جگہ تھے وہاں پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
نہ تو مرحوم گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے اور نہ ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سے میری کبھی ملاقات ہوئی، کیوں کہ میں جن لوگوں کے پاس تھا وہ ان لوگوں کے پاس نہیں تھے۔ میں نے ان سے کئی مرتبہ پوچھا بھی کہ سلمان تاثیر اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے آپ کے پاس ہیں؟ تو وہ صاف انکار کردیتے تھے۔ ایک اور خاص بات یہ بھی کہ میں نے اتنے عرصے میں وہاں کوئی ایک بھی خود کش بم بار نہیں دیکھا اور جس وقت میں سجنا گروپ کے پاس آیا تو ان لوگوں کے ساتھ خود کش حملوں پر بہت بحث ومباحثہ بھی ہوتا رہتا تھا، جب کہ سجنا گروپ خود بھی کہتا تھا کہ ہم خودکش حملوں کے خلاف ہیں۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ تحریک طالبان سے سجنا گروپ کا اختلاف بھی انہی بنیادوں پر ہوا، کیوںکہ بازاروں، مساجد، جنازوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خود کش حملوں کو سجنا گروپ والے بھی حرام کہتے ہیں، جب کہ وہ اغواء اور بھتاخوری کے بھی خلاف ہیں۔ ان کا حکومت سے مطالبہ بھی صرف شریعت کا نفاذ ہے، کیوںکہ ان کے مطابق ہر برے کام کا خاتمہ اسی میں پوشیدہ ہے۔
ابتدا میں ہمیں بند کمرے میں کڑے پہرے میں رکھا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ صورت حال میں نرمی آتی گئی اور ہمیں مخصوص کمرے سے نکل کر گھر کے دیگر حصوں میں بھی جانے کی اجازت مل گئی۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری باربار منت سماجت کے بعد وہ میرے ڈرائیور محبوب اﷲ کو رہا کرنے پر تیار ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں کا ہدف تو میں ہوں، اس بیچارے سے آپ کا کیا لینا دینا، تو بالٓاخر دو سال بعد انہوں نے محبوب اﷲ کو چھوڑ دیا جس سے مجھے یہ احساس ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے آزادی دی ہو۔ اس کے بعد وہاں میری نقل وحرکت اور بھی آسان ہوگئی اور میں اس علاقے میں نسبتاً آزادانہ گھومتا پھرتا رہا۔
عام لوگوں سے میل جول ہوتا رہا، خریداری کے لیے قریبی دکانوں پر بھی جاتا رہا۔ بعض لوگ اب کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں آپ نے فرار ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ میں ایسا کیوں کرتا، مجھے یقین تھا یہ لوگ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور دوسرا ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد قائم ہوچکا تھا، اس لیے میں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا اور اگر کر بھی لیتا تو اس میں نقصان مجھے ہی پہنچتا۔ اس کے علاوہ دوسری اہم بات یہ بھی تھی کہ طالبان کا رویہ روزاول سے میرے ساتھ اچھا تھا، اس لیے مجھے کبھی یہ خوف محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ مجھے جان سے ماردیں گے، جب کہ طالبان کی باتوں سے مجھے یہ بھی محسوس ہورہا تھا کہ ایک نہ ایک دن وہ مجھے ضرور چھوڑ دیں گے۔
یہ بات بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ جس ہمیں مکان میں رکھا گیا، اس کے اگلے ہی دن وہ ادویات کے ساتھ حجامت کا سامان بھی لے آئے اور کہا کہ اس سے حجامت کرلو، مگر میرا پہلے سے ارادہ تھا کہ دوسری بار فریضۂ حج کے لیے ضرور داڑھی رکھوں گا، سو ان سے کہہ دیا کہ داڑھی رکھنے کا ارادہ تو کر ہی لیا ہے تو کیوں نہ آج ہی اس پر عمل کیا جائے۔ یوں میں نے اپنی مرضی سے داڑھی رکھ لی، جس کے لیے انہوں نے مجھے مجبور نہیں کیا۔
ان تمام سہولیات کے علاوہ حالات سے باخبر رکھنے کے لیے انہوں نے مجھے ریڈیو بھی فراہم کیا تھا، جس سے نہ صرف میں خود کو ملکی وبین الاقوامی حالات سے باخبر رکھتا تھا، بل کہ اس سے قید کے یہ دن بھی کچھ اچھے کٹتے تھے۔ اس طرح مصروفیت کا ایک بہانہ مل گیا تھا۔ ان کی طرف سے میرا ہر طرح سے خیال رکھنے کے باوجود قید کے یہ دن بہت کٹھن تھے اور میں ایک ایک لمحہ گن گن کے گزارتا رہا۔
اس دوران بہت سی چیزیں اور باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہتیں، جو میرے لیے انتہائی کرب ناک صورت حال کا باعث ہوتیں۔ گھر کے ہر ایک فرد کی یاد مجھے تڑپاتی۔ نواسے نواسیوں کی یادیں تو جیسے میرے دل پر چھریاں چلاتیں، جس سے میں تڑپتا اور ان کی یاد مجھے کم زور بنادیتی اور میں کچھ لمحوں کے لیے ہمت ہار بیٹھتا، لیکن پھر لڑکھڑا کر اٹھ جاتا۔
جس دن کا مجھے انتظار تھا وہ آہی گیا، یعنی جس روز مجھے رہا کیا جانا تھا۔ اس دن مجھ سے کہا گیا کہ آپ تیار ہوجائیں، انشاء اﷲ آج آپ واپس اپنے گھر جانے والے ہیں۔ یہ سن کر میری خوشی دیدنی تھی، مگر پھر بھی دھڑکا لگارہا، کیوں کہ اس سے قبل بھی وہ دو بار مجھے اس مقام سے میران شاہ لے آئے تھے کہ آپ کو رہا ئی مل گئی ہے، لیکن پھر واپس لے جاتے۔
ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کا واحد راستہ غربت کا خاتمہ اور تعلیم کو عام کرنا ہے۔ اگر غربت افلاس کا خاتمہ اور تعلیم عام کردی جائے تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہاپسندی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مجھ سے خود طالبان یہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں دنیاوی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ دینی تعلیم توہم حاصل کرچکے ہیں، لیکن دنیاوی تعلیم کا فقدان ہے اور انسان کو زندگی گزارنے کے لیے دینی ودنیاوی تعلیم دونوں کی ضرورت ہے۔ اس بات کا احساس مجھے پہلے بھی تھا، اس لیے اپنے اغواء سے قبل وزیرستان میں ہم نے اسلامیہ کالج کے ذیلی ادارے قائم کرنے کے لیے کوشش کی تھی۔
کرم ایجنسی اور پارہ چنار میں کیمپس کا افتتاح بھی کیا تھا، جب کہ علاقہ صدہ میں بھی کیمپس قائم کرنا تھا، جس کے لیے عمارت نہیں تھی اور گورنر سے عمارت کے لیے درخواست بھی کی تھی، مگر اغواء کی وجہ سے وہ منصوبہ درمیان ہی میں رہ گیا، تاہم میں نے مصمم ارادہ کیا ہوا ہے کہ اب اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔ میری بازیابی کے حوالے سے اے این پی اور اس کے سربراہ اسفندیارولی خان کی کوششوں کو بھی سراہتا ہوں۔
مجھے حکیم اﷲ محسود نے پہلی ہی ملاقات میں کہا تھا کہ ہمیں آپ کی فیملی سے ایک پیسہ بھی نہیں لینا ہے۔ ہمارے جو بھی مطالبات ہوں گے وہ حکومت ہی سے ہوں گے، اس لیے آپ پریشان نہ ہوں۔ میری رہائی کے بدلے میرے سامنے ان کے کسی ساتھی کا تبادلہ نہیں ہوا اور نہ ہی مجھے اس بات کا علم ہے کہ میرے بدلے ان کے کچھ ساتھی رہا ہوئے ہیں۔ اس بارے میں مجھے کوئی معلومات نہیں۔ البتہ پانچ ماہ قبل جب مذاکرات کا آغاز ہوا تو اس قسم کی خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ حکومت ان کے کچھ لوگ رہا کرے گی، جس کے بدلے مجھے چھوڑا جائے گا، مگر پھر مذاکرات درمیان میں رہ گئے۔
دیگر مغویوں میں سب سے پہلے مجھے اغوا کیا گیا تھا، اور مجھے سب سے آخر میں رہائی ملی۔ بہرحال اللہ تعالی کا شکرگزار ہوں، وہاں کے مقامی لوگوں، حکومت، ایجنسی کے حکام اور فورسز کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میری بازیابی کے لیے کوششیں کیں۔ ساتھ ہی ان تمام مردوخواتین کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے میری بازیابی کے لیے دعائیں کیں۔
''رہائی کا یقین ہی نہیں آرہا تھا''، گھروالوں کے تاثرات
پروفیسر اجمل خان کی شریک حیات نے اپنے شوہر کی بازیابی اور چار سال کی جدائی کے حوالے سے بتایا کہ چار سال تو انتہائی مشکل گزرے، لیکن جب اطلاع ملی کہ پروفیسر صاحب کو رہا کردیا گیا ہے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا، لیکن جوں ہی ان کو اپنے سامنے موجود پایا تو مارے خوشی کے آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے اور اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ ان کے بغیر ہم پر جو گزری وہ بیان نہیں کر سکتی۔
اس دوران میں بچیوں کی ہمت بندھاتی رہی مگر خود مجھ پر کیا بیت رہی تھی یہ صرف میں اور میرا اللہ ہی جانتا ہے۔ ان کے انتظار میں ایک ایک لمحہ برسوں کا لگا۔ ان سے فون پر رابطہ کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن جب فون پر رابطہ ہوتا تو وہ بھی بہت مختصر کال ہوتی تھی۔ جب ان کے ویڈیو پیغامات آتے تھے تو انہیں زندہ دیکھ کر اطمینان ہوجاتا تھا کہ وہ زندہ تو ہیں مگر ان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا، لیکن اپنے رب سے یہی امید تھی کہ یہ ایک دن ضرور ہمارے درمیان موجود ہوں گے اور اللہ نے وہ دن دکھا دیا۔
پروفیسر اجمل کی بڑی صاحب زادی زرغونہ کہتی ہیں کہ 7 ستمبر کو بہن کی کال آئی کہ پشاور آجاؤ! جس کے بعد معلوم ہوا کہ بابا کو کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ یہ سن کر ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ اس کے بعد ان کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں اور عزیزواقارب نے حوصلہ دینا شروع کردیا کہ آپ کے ابو جلد گھر آئیں گے۔ اس کے باوجود بابا کے گھر آنے میں چارسال کا عرصہ بیت گیا، لیکن جونہی ہمیں بابا کے گھر آنے کی اطلاع ملی تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم خواب دیکھ رہے ہوں۔ اس صورت حال نے تو سب کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس واقعے نے والدہ صاحبہ کو ڈپریشن میں مبتلا کردیا تھا اور وہ گم صم رہنے لگی تھیں۔ ایسا کوئی بھی دن نہیں گزرا تھا جس دن دل ودماغ میں بابا کا خیال نہ آیا ہو۔ یہ چار سال بیان ہی نہیں کر سکتی۔ ویسے تو ہمارا سبھی نے بہت خیال رکھا لیکن ماموں جان ایک فون کال پر پہنچ جاتے تھے۔ انہوں نے ہمارا بہت خیال رکھا، لیکن گذشتہ سال ان کی وفات کے بعد ہم بالکل ٹوٹ گئے تھے۔ پھر بھی اپنے رب سے یہی امید تھی کہ بابا ایک نہ ایک دن ضرور آئیں گے اور اﷲ نے وہ دن دکھادیا جب بابا ہمارے درمیان تھے۔
پروفیسر اجمل خان کے داماد سلمان شاہ کہتے ہیں کہ اجمل خان کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ وہ ہمیں بیٹوں جیسا سمجھتے ہیں۔ اغوا کے ڈیڑھ ماہ بعد ان کا پہلا فون آیا تھا۔ ان کی بازیابی کے لیے اس وقت کی حکومت اور موجودہ حکومت نے بہت کوشش کی۔ 9 عیدیں ان کے بغیر گزریں، لیکن جب ان کا فون آتا تو سب میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ 1450 دن بابا ہم سے دور رہے جو انتہائی تکلیف دہ دن تھے، لیکن آج ہم سب خوش ہیں کہ بابا صحیح سلامت ہمارے مابین موجود ہیں۔
پروفیسر اجمل کل وائس چانسل کا چارج دوبارہ سنبھالیں گے
پروفیسر اجمل خان جس وقت اغواء ہوئے تب وہ اسلامیہ کالج یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، جس کے بعد اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اس وقت کی صوبائی حکومت نے یہ اہم ذمہ داری ڈاکٹر قبلہ ایاز کو اس معاہدے کے تحت سونپ دی تھی اور طے کیا گیا تھا کہ جب بھی اجمل خان کی بازیابی ممکن ہوگی وہ دوبارہ اپنے ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ چار سال کے بعد جب پروفیسر اجمل خان کی بازیابی ممکن ہوپائی ہے تو معاہدے کے تحت وہ ایک پروقار استقبالیہ تقریب میں 8 ستمبر کو دوبارہ وائس چانسلر کی حیثیت سے چارج سنبھالیں گے۔