کس قیامت کی یہ برسات آئی

یہ کسے گمان تھا کہ ایک دھرنا وہ بھی ہے جو اوپر سے آئے گا اور زمین پر برپا سارے دھرنے دھرے کے....


Intezar Hussain September 08, 2014
[email protected]

کتنے ہفتوں سے کچھ ایسا سماں بندھا ہوا تھا اور اس سے ایسا تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ زمین کے اس تختے پر جسے اسلام آباد کہتے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے وہی سب کچھ ہے۔ بس دھرنوں پر نظر رکھو اور انتظار کرو کہ ان دھرنوں کی تہہ سے اور پردہ غیب سے کیا نمودار ہوتا ہے۔

یہ کسے گمان تھا کہ ایک دھرنا وہ بھی ہے جو اوپر سے آئے گا اور زمین پر برپا سارے دھرنے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ساون کی جھڑی مشہور تھی۔ اسے کیا کہیں گے۔ بھادوں کا دھرنا۔ ہمارے ایک دوست نے صبح کے اخبارات کی ورق گردانی کرتے کرتے اس حساب سے اطمینان کا سانس لیا کہ اخبارات کے صفحہ اول کی سرخیاں تو بدلیں۔ ساون بھادوں کے ایک ہی ہلہ میں سب کچھ بدل گیا۔ حتیٰ کہ اخباروں کی سرخیاں بھی۔ اور پتہ چلا کہ

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

دھرنے' آزادی مارچ' انقلاب'۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ زندگی کے اور معاملات بھی ہیں۔ انقلاب کے نعرے پر مت جائو۔ انقلابات زمانہ پر بھی نظر رکھو۔

عجب بات ہے اس سرزمین پر جسے پاک ہند برصغیر کہتے ہیں ہم کتنے زمانے سے رہتے سہتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سرزمین پر جو موسم آتے جاتے رہتے ہیں انھیں بھی بھوگتے چلے آئے ہیں مگر ان موسموں کے ساتھ گزارہ کرنے کا سلیقہ ہمیں آج تک نہ آیا۔ ان موسموں میں سب سے ظالم' سب سے پر اسرار وہ موسم ہے جسے ہم برسات کہتے ہیں یا برکھا رُت یا ساون بھادوں۔ سب سے بڑھ کر اسی موسم کے گیت گائے گئے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اسی موسم کے جلو میں تباہیاں آتی ہیں۔ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ ابھی تو یہ ابر رحمت تھا۔ اب باران زحمت کیسے بن گیا۔ رحمت کو زحمت بنتے ہوئے کتنی دیر لگتی ہے۔ بس ایک نقطہ ہی تو لگانا پڑتا ہے۔

مگر کتنے زمانے سے ہم اس عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ ہر مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ ہماری زمین پر ساون بھادوں نے گل کھلایا ہے۔ جیسے اس طوفان باد و باراں نے پہلی مرتبہ اچانک ہمیں آن پکڑا ہے اور پھر چلیو دوڑیو کا شور اٹھتا ہے۔ ارے بھائی' پہلے کہاں سوئے پڑے تھے۔

آج کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ لاہور شہر میں کون کونسی سڑکوں پر پانی امنڈا ہوا ہے اور کون کونسے چوراہوں پر نقشہ یہ ہے کہ کوئی سواری نہیں چل سکتی۔ کشتی ہی چلے تو چلے۔ بتایا گیا ہے کہ سب سے ظالم چوراہا وہ ہے جسے لکشمی چوک کہتے ہیں۔ لکشمی چوک کا اگر نقشہ دگرگوں ہے تو اس کی توجیہہ اس طرح کی جا سکتی ہے کہ یہ بہت پرانا چوک ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ یہ جو نئے چوک ہیں اور نئی سڑکوں کا جال بچھایا گیا ہے اور نئے پل اور نئے انڈر پاس تعمیر ہوئے ہیں اور جن پر تعمیر کرنے والے حکام نے بہت داد وصول کی ہے کیا ان کا حال کچھ بہتر ہے۔

خبریں کہہ رہی ہیں کہ نئی تعمیر شدہ سڑکوں پر بھی پانی اتنا امنڈا ہوا ہے کہ جیسے ندی بہہ رہی ہے۔ کتنی موٹریں گزرتے گزرتے ناکارہ ہو گئیں۔ دھکے لگا کر انھیں وہاں سے نکالا جا رہا ہے یا یہ سوچ کر موٹر سواروں نے موٹر کو وہیں چھوڑا کہ جب پانی اتر جائے گا تب مکینک کی مدد سے اس کی دوستی کا سامان کریں گے۔

اور گھروں میں جو پانی گھس آیا ہے اس سے کیسے نبٹا جائے۔ غریب غربا کے گھروں کا احوال جانے دو۔ وہاں تو چھتیں اور آنگن دونوں مصیبت بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے ہمیں فون کیا کہ بہت مشکل میں ہوں۔ چھت ٹپک رہی ہے اور صحن میں دریا بہہ رہا ہے۔ کچن میں چولہا ٹھنڈا پڑا ہے۔ گیس اور بجلی دونوں غائب ہیں۔ کھانے کی ہڑتال سمجھو۔

ہم نے کہا عزیز' باہر نکل۔ رکشا پکڑ۔ ہماری طرف آ جا۔

جواب دیا کہ باہر جھانک کر دیکھا تھا

تو میں نے دیکھا

کہ ایک اور دریا کا سامنا ہے

ایک دریا گھر کے اندر۔ ایک دریا گھر سے باہر۔ یہ لمبا دریا ہے۔ فراٹے سے چلتی ہوئی موٹریں یہاں آ کر پھنس جاتی ہیں۔ اس دریا میں پھنسنے سے یہ بہتر ہے کہ آدمی گھر میں پھنسا بیٹھا رہے۔

اے برکھا رُت تو عجب آئی۔ گھر گھر چولہوں پہ کڑہائیاں چڑھی ہیں۔ پکوان تلے جا رہے ہیں۔ اور ہمارا دوست تیرا قیدی بن کر گھر میں بھوکا پیاسا بیٹھا ہے۔

ابھی ہم کہہ رہے تھے کہ اس سرزمین پر نہ ہم نو وارد ہیں۔ نہ ساون بھادوں نئے چڑھے ہیں۔ برس برس کی سنگت چلی آ رہی ہے۔ تو یہ جو شہر کی انتظامیہ ہے۔ وہ تھوڑا پہلے نالوں نالیوں کی صفائی کرا لیا کرے تا کہ برسات جب آئے تو بارش کے پانی کی نکاس ٹھیک طرح ہوتی رہے۔

اس پر سننے والے نے زہر خند کیا اور کہا کہ یہ کر کے بھی دیکھ لیا۔ کم از کم ہمیں اخباروں کے ذریعہ یہی مطلع کیا جاتا کہ برسات سر پر ہے۔ ہم نے نالوں نالیوں کی صفائی کرا دی ہے۔ مگر ساون کے پہلے ہی ہلہ میں یہ سارا انتظام بارش کے پانی میں بہہ جاتا ہے اور بہت جلدی نالے ابلنے لگتے ہیں۔ سڑکوں پر پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ سمجھ لیجیے کہ کچھ تو شہری انتظامیہ نا اہل ہوتی ہے اور کچھ شہر والے شہریت کے آداب کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ کوڑا کرکٹ تھیلے میں بھر بھر گٹر میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوڑا کرکٹ برسات میں کیا رنگ لائے گا ان کی بلا سے۔

کیسے خوبصورت موسم کا ناقدروں نے کیا حال کر دیا ہے۔ ویسے قدرت بھی کچھ کم ستم ظریف نہیں ہے۔ اسماعیل میرٹھی کا ایک شعر سن لیجیے ؎

ہوا ہی نے کھلائے گل ہوا ہی پھر گراتی ہے

زمین جس نے کیا پیدا وہی پھر ان کو کھاتی ہے

قدرت مہربان ہو تو بندوں کو نہال کر دیتی ہے۔ اس کے آداب سے انحراف کرو تو پھر اس کے قہر سے ڈرو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں