صف بندی کی ضرورت

وزیر اعظم کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف نے چیف آف آرمی اسٹاف سے....

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

آزادی مارچ اور انقلابی مارچ کو لاہور سے نکلے ہوئے اب تین ہفتوں سے زیادہ ہو چکے ہیں اس دوران حکومت بار بار پسپا ہوتی رہی اور جان پکڑتی رہی، حکومت مظاہرین سے زیادہ خوف زدہ نہیں ہے وہ خوف زدہ فوج سے ہے۔ فوج کے خلاف مختلف حوالوں سے یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ فوج دھرنے والوں کی پشت پر کھڑی ہے۔

وزیر اعظم کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف نے چیف آف آرمی اسٹاف سے عمران خان اور قادری اور حکومت کے درمیان بات چیت میں مدد مانگی جب اتحادی اس حرکت پر ناراض ہوئے تو پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ایک ایسا جھوٹ بھول دیا جس کی تردید فوج کو کرنی پڑ گئی۔ اس کے بعد ہونا تو یہ تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتے اور ان کے اتحادی وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگتے لیکن چونکہ اتحادیوں کی جان وزیر اعظم کے طوطے میں اٹکی ہوئی ہے لہٰذا جھوٹ کا اتنا بڑا کڑوا گھونٹ پی گئے۔

آئین اور قانون کی رو سے تمام ریاستی مشینری وزیر اعظم کی تحویل میں ہے، اگر وہ چاہیں تو 24 گھنٹوں کے اندر اندر احتجاج کے شرکاء کو پسپا کر سکتے ہیں لیکن اس مہم میں دھرنا دینے والوں کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو سکتا ہے اور فوج نے جمہوریت کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ مظاہرین کا جانی نقصان برداشت نہیں کرے گی۔

فوج کا یہ انتباہ حکومت کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوا ہے ورنہ حکومت کب کا ایک سخت آپریشن کر چکی ہوتی۔ اس حوالے سے حکومت کی دوسری پریشانی یہ ہے کہ پولیس عوام پر گولی چلانے کے لیے تیار نہیں، پولیس کی اس حکم عدولی پر ایک آئی جی سمیت کئی پولیس حکام کو ہٹا دیا گیا اور مظاہرین پر تشدد کے لیے پنجاب سے وفادار پولیس بلائی گئی، جس کی کارروائی سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور 500 سے زیادہ مرد و خواتین زخمی ہو گئے۔

میاں صاحب کی طاقت اب اتحادی جماعتوں کی غیر مشروط حمایت میں پوشیدہ ہے، وہ اگر ان اتحادیوں کی حمایت سے محروم ہو جاتے ہیں تو آن واحد میں ان کی حکومت زمین پر آ جاتی ہے لیکن چونکہ جمہوریت ان کی مشترکہ میراث ہے لہٰذا نہ 11 جماعتیں میاں صاحب کی حمایت سے دست بردار ہو سکتی ہیں نہ حکومت ان کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بادشاہی اور جاگیردارانہ نظام کے بعد جمہوریت کو ایک بہتر نظم حکمرانی کے طور پر دنیا نے قبول کر لیا لیکن پاکستانی جمہوریت غالباً دنیا کی واحد جمہوریت ہے جہاں سیاسی بادشاہت نافذ ہے اور جاگیردارانہ نظام بھی مستحکم ہے۔ ان دو طرز ہائے حکمرانی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ پاکستان میں ہو رہا ہے اور اس دھڑلے سے ہو رہا ہے کہ اسے دیکھتے دیکھتے عوام کا خون کھول رہا ہے۔


جب 31 اگست کو کور کمانڈرز کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا تو حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں، ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہو گئے اور زبان میں لکنت آ گئی۔ ہمارے وزیر اعظم نے چیف آف آرمی اسٹاف سے ایک طویل ملاقات کی۔ اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اس طویل ملاقات میں فوج نے حکومت کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ جمہوریت کے ساتھ ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ چیف صاحب نے جمہوریت کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکومت کو غالباً یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ ڈی چوک میں مظاہرین کی ہلاکتوں کو برداشت نہیں کرے گی۔

''باغی'' کے اس الزام کے بعد کہ عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل ہے آئی ایس پی آر کو یہ وضاحت کرنی پڑی کہ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے، وہ کسی سیاست دان کی حمایت نہیں کر سکتا۔ اس ملاقات اور آئی ایس پی آر کی آئینی وضاحت کے بعد حکومت کی نہ صرف جان میں جان آئی ہے بلکہ ایک بار وہ پھر ''عوام کے تعفن'' کو مقدس ایوانوں، مقدس محلوں کے سامنے سے نکال کر دور پھینکنے کی تیاری کر رہی ہے اور اس جمہوری کام میں 11 یا 12 اتحادی اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔

ان میں بعض اتحادی وہ ہیں جو قدم قدم پر اس جمہوریت کی غلاظتوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اسی جمہوریت کی غلاظت کے ساتھ کھڑے ہو کر ہر قیمت پر اسے بچانے کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں۔ اب عوام دوست طاقتوں کو احتیاط کے دائرے سے نکل کر عوام کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا کیونکہ ایک ہی وقت میں دو کشتیوں پر پیر رکھ کر سفر نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر مڈل کلاس کی پارٹیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے تحفظات کو پس پشت ڈال کر یہ فیصلہ کریں کہ کیا 20 کروڑ عوام کو اس ظالمانہ جمہوریت کے حوالے ہی رہنے دینا ہے یا انھیں اس بادشاہانہ جمہوریت سے نجات دلانا ہے؟

ہم نے اپنے پچھلے کئی کالموں میں اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ عمران خان اور قادری انقلابی نہیں وہ اصلاحی ہیں اور وہ ہمارے 67 سالہ سیاسی عرف جمہوریت کے نظام میں جن اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ اس قدر موثر، بامعنی اور دور رس نتائج کی حامل ہیں کہ ان اصلاحات سے انقلاب تو نہیں آئے گا لیکن 67 سال سے عوام کے سروں پر مسلط اس ظالمانہ استحصالی نظام میں دراڑیں ضرور ڈال دے گا اور آگے کی سمت پیش رفت کے لیے یہ دراڑیں کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔

ہماری مڈل کلاس کی پارٹیوں کی جمہوریت کی حمایت کی دو بڑی وجوہات نظر آتی ہیں ایک یہ کہ وہ جمہوریت کے جن ثمرات سے جھولیاں بھر رہے ہیں یہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا، دوسرے یہ خدشات ہیں کہ اگر عمران خان اور قادری اپنی جدوجہد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کم از کم عمران ان کے سیاسی مفادات کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ خدشات بظاہر درست نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر مڈل کلاس کی پارلیمانی پارٹیاں موجودہ تحریک کا ساتھ دیتی ہیں تو عمران خان ان کا نقصان نہیں کر سکتا بلکہ ملک کی 90 فیصد خاموش اکثریت ان کی حامی بن سکتی ہے۔

عمران خان اور قادری کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کو واپس لے کر اپنے مطالبات میں زرعی اصلاحات اور فوج کے ذریعے لٹیروں کے احتساب کا مطالبہ شامل کریں، اس وقت حکومت جس قدر دبائو میں ہے اس کے پس منظر میں وہ ان مطالبات کو ماننے پر مجبور ہو جائے گی اور اس کے پاس یہ بہانہ نہیں رہے گا کہ یہ مطالبات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہیں۔ ان مطالبات کو منوانے کے بعد ان غلطیوں اور کمزوریوں کو دور کر کے ان تمام طاقتوں کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے جو اس فراڈ جمہوریت کے خلاف ہیں، اس کے بعد جو تحریک اٹھے گی اسے جمہوریت کے دیوتا نہیں روک سکیں گے۔
Load Next Story