سیاسی اصلاح کی ضرورت

چوہدری اعتزاز، جاوید ہاشمی اور بعض دیگر کی زبانی میاں نواز شریف نے جو کچھ سنا وہ کوئی نیا نہیں تھا....

وزیر اعظم نواز شریف کے طویل اقتدار اور سیاسی زندگی میں شاید پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انھیں اپنے قریب ہی بیٹھے ہوئے سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن کی تقریر میں بعض تلخ حقائق اور پی ٹی آئی کے صدر اور اپنے ایک سابق انتہائی قریب رہنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کی جائز شکایات روبرو اور بھرے ایوان میں سننا پڑیں اور بعض ریمارکس پر تالیاں بھی بجائیں اور اپنے ان مخالفین کی طرف سے اپنی حمایت میں کی جانے والی تقاریر خوش دلی سے سنیں اور یہ بھی سنا کہ وہ مجبوری میں نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے استعفیٰ کے حامی نہیں اور جمہوریت کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔

چوہدری اعتزاز، جاوید ہاشمی اور بعض دیگر کی زبانی میاں نواز شریف نے جو کچھ سنا وہ کوئی نیا نہیں تھا اور یہ سب کچھ ٹی وی چینلز پر نشر اور اخبارات میں شایع ہوتا رہا ہے ممکن ہے کہ میاں صاحب کو مصروفیت کے باعث اخبارات پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے کا وقت نہ ملتا ہو۔ ماضی کا ہر حکمران صرف پی ٹی وی ہی دیکھنا پسند کرتا تھا کیونکہ پی ٹی وی سرکاری چینل ہے جس پر حکمرانوں کے خلاف کبھی کوئی خبر نشر نہیں ہوتی اور وہ حکمرانوں کو صرف اچھا ہی اچھا دکھانے کی سرکاری پالیسی پر عمل کرتا ہے۔

نجی چینل آنے سے قبل ملک کے عوام صرف پی ٹی وی دیکھنے پر مجبور ہوتے تھے اور اپنے ملک کی حقیقی خبریں اور اپوزیشن کی سرگرمیاں انھیں صرف بی بی سی کے ذریعے سننے کو ملتی تھیں ۔

پاکستان ہی نہیں دنیا میں پارلیمنٹ ہی واحد ادارہ ہے جہاں حکمرانوں اور اپوزیشن کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقعہ ملتا ہے اور بدقسمتی سے پارلیمنٹ میں ہمیشہ خاموش رہ کر تالیاں بجانے والوں کی اکثریت اور سچ بولنے والوں کی اقلیت رہی ہے اور اپوزیشن کے بولنے والے ارکان کا کام ہی حکومت کی مخالفت کرنا اور الزامات لگانا ہوتا ہے اس لیے تنقید اور اپنی مرضی کے خلاف خبریں اور تقریریں حکمران اکثر سننا پسند نہیں کرتے اس لیے وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آنا پسند نہیں کرتے۔

سال میں ایک بار پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس صدر مملکت کا خطاب سننے کے لیے ہوتا ہے جس میں صدر مملکت حکومت کی فراہم کردہ تقریر پڑھتے ہیں جس میں حکومتی سالانہ کارکردگی کا ہی ذکر ہوتا ہے اور 58(2)(b) کے اختیار سے محروم صدر صرف حکومتی لکھے پر ہی اکتفا کرتے ہیں پھر بھی انھیں اپوزیشن ارکان کی ہنگامہ آرائی اور شور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اصولی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے اور صدر مملکت کا خطاب خاموشی سے سن کر بعد میں اس پر رائے زنی ہونی چاہیے مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا اور پارلیمنٹ میں صدر کا خطاب اتنا مشکل بنادیا گیا کہ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف ایک بار ہی پارلیمنٹ میں خطاب کرپائے اور اس کے بعد انھوں نے پارلیمنٹ سے خطاب گوارا نہیں کیا حالانکہ ہر سال پارلیمنٹ سے صدر کا خطاب آئینی ضرورت ہوتا ہے مگر اپوزیشن مضبوط سے مضبوط صدر کا بھی پارلیمنٹ سے خطاب ناممکن بنا دیتی ہے۔


سینیٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف ایک سال تک سینیٹ میں نہیں آئے کیونکہ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور حکومتی حلیف اقلیت میں اور اپوزیشن اکثریت میں ہے ایک سال تک سینیٹ سے غیر حاضر رہنے پر وزیر اعظم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مجبور ہوکر سینیٹ نے اپنے ایک فیصلے میں وزیر اعظم کو وہاں آنے کا پابند بھی کیا مگر اس کے باوجود وزیر اعظم وہاں نہ آئے۔ جب وزیر اعظم ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نہ آئیں تو وزیروں کو کیا پڑی کہ وہ پارلیمنٹ آنا گوارا کریں۔

وزیر اعظم نواز شریف کے تینوں ادوار میں ان کی کچن کابینہ بڑی مشہور اور بااختیار رہی ہے اور چوہدری اعتزاز احسن نے اس سلسلے میں بھی وزیر اعظم کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے کچن کابینہ کے وزیروں کو بھی بادشاہ قرار دیا ہے جو اپنے بیانات کے ذریعے حالات کو اس مقام پر پہنچا دینے کے ذمے دار ہیں۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس قدر شریف ہیں کہ وہ حالات خراب کرنے والے وزیروں اور ارکان کو بھی نہیں روکتے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دو رہنماؤں کی قیادت میں ان کی جماعتیں پہلے اسلام آباد میں اور پھر ریڈ زون میں داخل ہوگئیں جن کے پاس کنٹینروں کو ہٹانے والی کرینیں، کیلوں والے ڈنڈے، شامیانے، ٹینٹ و بانس، کٹر، پلاس اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ یہ ٹرینڈ افراد جن میں تقریباً دو ہزار کو وزیر داخلہ نے ٹرینڈ دہشت گرد قرار دیا ہے ہزاروں میں شامل ہوکر پارلیمنٹ پر حملہ آور ہوئے گیٹ توڑ کر وہاں احاطے میں ٹینٹ لگادیے۔ سپریم کورٹ بلڈنگ کی گرل کپڑے ٹانگنے کے لیے استعمال ہوئی۔ پی ٹی وی پر قبضہ کرلیا۔

سیکریٹریٹ اور اسلام آباد کی شاہراہوں پر قبضہ کرلیا اور حکومت ہر جگہ اس لیے پسپا ہوتی رہی کہ اپوزیشن نے حکومت کوکہا تھا کہ دھرنے والوں کو ریڈزون آنے دیا جائے۔ اپوزیشن نے دھرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ جمہوری حق دلادیا اور حکومتی رٹ ہر جگہ متاثر اور حکومت دنیا میں بدنام ہوئی مگر پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں وزیر اعظم کی حمایت کرتے ہوئے انھیں ڈٹے رہنے کا مشورہ دیتی رہیں اور دو رہنما بضد رہے کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ لے کر ہی جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں موجود مختلف پارٹیوں کے رہنماؤں نے حمایت کے ساتھ وزیر اعظم اور حکومت کی غلطیوں کو بھی خوب رگڑا اور وزیر اعظم مسکراتے رہے۔

ایسا وقت حکمرانوں پر کم ہی آتا ہے اور وہ ہوتے ہوئے بھی مخالفین کو حکومتی طاقت نہ دکھا سکے اور سب کچھ لاقانونیت برداشت کرگئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سب اپنی سیاسی اصلاح اور غلطیوں کی تلافی کریں۔ بعض رہنماؤں کے دوغلے پن نے بھی حالات کو اس ڈگر تک پہنچادیا ہے جہاں حکمرانی بے بس ہوگئی ،حکمرانوں کے ساتھ سب ہی کو اپنی سیاسی اصلاح کا موقع ملا ہے وگرنہ ایسے دھرنے معمول بن جائیں گے۔
Load Next Story