امپائر
حقیقت یہ ہے کہ ہر محبت کے پیچھے کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ کوئی محبت مفادات سے بلند بھی ہوا کرتی ہے۔....
لاہور:
وہ دھرنے تو مون سون کے بارشوں میں دھل گئے جو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر لگے تھے۔ اس احتجاج کی بچی کھچی کسر اس میڈیا نے پوری کردی جس کے باعث بہت سارے راز کھل گئے۔ اب جب واپس لوٹ آئیں گے تب ہم سوچیں گے کہ اس احتجاج کی وجہ سے لوگوں کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا اور ان میں تبدیلی کی امنگ توانا ہوئی یا وہ حقائق جان کر مایوس ہوئے اور انھیں ایک بار پھر یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ سیاست ایک اسٹیج ہے اور وہ سب اس کا حصہ تھے جو تقاریر کرتے ہیں۔
تالیاں بجاتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ اس احتجاج کے دوران کچھ لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ بھی گئے اور بہت سارے لوگ ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل بھی گئے۔ ان دھرنوں کے حوالے سے لوگ بہت ساری باتیں کرتے رہیں گے اور ان کے سینوں میں بہت ساری یادیں جلتی رہتی ہیں۔ کچھ باتیں ہم بھول بھی جائیںگے اور بہت ساری باتیں ہم کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔
ان باتوں میں بہت سارے الفاظ بھی ہونگے جو ہم ان دھرنوں کے دوران سنتے رہے۔ ان الفاظ میں ایک لفظ تھا ''امپائر'' اس لفظ کا استعمال تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اپنی اکثر تقاریر میں کرتے رہتے تھے ۔ جب وہ اپنے چاہنے والوں سے کہاں کرتا تھا کہ ''کل امپائر کی انگلی اٹھ جائے گی'' تب ان کے پرستار خوشی سے کھل اٹھتے تھے۔ ہر شخص جس پس منظر سے آتا ہے وہ اپنی مخصوص زبان استعمال کرتا ہے۔ عمران خان سیاست کی اسٹیج پر آنے سے قبل کھیل کے میدان سے وابستہ رہے۔
اس لیے وہ سیاست کو بھی ایک میچ کی مانند بیان کرتے اور اپنے سننے والوں سے کہتے کہ ''ہم یہ میچ جیت چکے ہیں'' یا ''میں فاسٹ بالر ہوں۔ میری گیند سے وہ آؤٹ ہوچکا ہے صرف امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہے'' یہ باتیں سن کر کسی کو کچھ یاد آجاتا اور کسی کو کچھ مگر میں اپنے پڑھنے والوں سے اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے عمران خان کی تقریر میں جب بھی ''امپائر'' لفظ سنا تب مجھے وہ انگریزی گیت یاد آگیا جو لکھا تو اسٹیو میک اور اناورلڈسین نے تھا مگر اس کو کولمبیا کی سنگر شکیرا نے گایا ہے۔
یہ گیت اہل سیاست کے لیے تو بھلے بے معنی ہو مگر وہ اہل دل جو محبت کے بغیر زندگی کو فضول سمجھتے ہیں ان کے دل کے تاروں کو چھیڑنے والا یہ گیت نہ معلوم ان کی کتنی یادوں کو اپنے سروں میںسمیٹے ان سے کہتا جاتا ہے کہ ''محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے'' یہ گیت جو محبت کے ہر عظیم گیت کے مانند ہمیں پھر سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور ہمیں کہہ رہا ہے کہ ''اگر تم کسی سے محبت کرتے ہو تو پھر یہ بات جان لو کہ وہ محبت غیرمشروط ہونی چاہیے'' شرائط تو شادی میں ہوتی ہیں۔ محبت کسی شرط کے بغیر کی جاتی ہے۔
یہ محبت ہی ہے جو انسان کو اس حال میں قبول کرتی ہے جس حال میں وہ ہو! محبت مطالبے نہیں کرتی۔ محبت فرمائش سے پاک ہوا کرتی ہے۔ محبت ایک ایسی دیوانگی ہے جو عقل کی بات سمجھنے سے تو کیا سننے سے بھی انکار کرتی ہے۔ مگر وہ انسان کو اس کے اس حال میں قبول کرتی ہے جیسا وہ ہے۔ کیوں کہ محبت ملازمت کے لیے لیا گیا کوئی انٹرویو نہیں ہوتا۔ محبت انسان سے صرف دل مانگتی ہے۔ جس طرح ایک پشتو لوک گیت میں نے کسی پہاڑی لڑکی کے دل کی یہ صدا الفاظ میں سمائی گئی ہے کہ:
''محبوب نے مجھ سے پوچھا ہے
تمہارے لیے پردیس سے کیا لاؤں؟
میں نے اسے لکھا ہے اپنے دل کا درد''
محبت کرنے والے درد والے دل کا تقاضا کرتے ہیں۔وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو شکیرا اس گیت میں کہتی ہے کہ آؤ ہم ایک دوسرے میں سما جائیں! وہ سمانا صرف جسم کا نہیں بلکہ جسم کا بالکل بھی نہیں۔ کیوں کہ انسان کے جسم ایک دوسرے میں کس طرح سما سکتے ہیں۔ انسان ایک دوسرے کی آغوش میں تو آسکتے ہیں مگر ایک دوسرے سے اس طرح نہیںمل پاتے جس طرح سمندر کی دو لہریں ایک دوسرے سے مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ ایسا ملنا تو صرف روح کا ہوا کرتا ہے۔ صرف روحانی طور پر انسان ایک دوسرے میں جذب ہوجاتے ہیں۔ شکیرا کے الفاظ ایک دوسرے کی روح میں سمانے کی صدا والے ہیں۔
شکیرا کا یہ گیت محبت کا ترانہ ہے۔ ایک ایسی محبت کا جو جسم سے گذر کر کی جاتی ہے۔ جس میں جسم کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔بلکہ جسم روح تک رسائی کا سہارا بن جاتا ہے۔ اس محبت میں انسان اس تصوف کی کیفیت کو بھی محسوس کرتا ہے جو ہمیں ''ہمہ اوست'' میں ملتی ہے۔ جو کہتی ہے کہ ''جڑ جاؤ اور ایک ہوجاؤ'' مگر محبت کی یہ صدائیں ان لوگوں کو کس طرح سمجھ میں آئیں گی جو لوگ سیاست کرتے ہیں۔ سیاست تو جھوٹ کا میلہ ہوتا ہے۔ جس میں ہر شخص اکیلا ہوتا ہے۔ مگر محبت کرنے والے تو ہجوم میں بھی تنہا ہوا کرتے ہیں۔ وہ کیمرا کی آنکھ میں بھلے بہت دکھائی دیں مگر وہ اصل میں اکیلے ہوتے ہیں۔
میں علامہ طاہر القادری کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور میری شدید خواہش ہے کہ عمران خاں اس بات کی حقیقت کو سمجھ لیں کہ ان کے جلسے میں آنے والے وہ لوگ جو اس کے سیاسی ترانوں پر جھومتے تھے جو بہت ساری مشکلات کو عبور کرکے اس کے پاس پہنچتے تھے وہ اصل میں اس کی جدید انقلابی باتیں سن کر اس سے محبت کرنے لگے تھے۔ وہ بھیڑ سیاسی مفاد سے بلند تھی۔ اس بھیڑ میں محبت کی موسیقی تھی۔ اس لیے وہ جھومتے اور ناچتے تھے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور بہت تلخ حقیقت ہے کہ سیاستدان کو بغیر مفاد والی محبت سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ ہر محبت کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد دیکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر محبت کے پیچھے کوئی مفاد نہیں ہوتا۔ کوئی محبت مفادات سے بلند بھی ہوا کرتی ہے۔ صرف اس محبت کی آنکھیں رات میں ستاروں کو پیار کے اقرار کی طرح چمکتا ہوا دیکھتی ہیں۔ کسی شخص کو اگر ستاروں سے سجی ہوئی ایک رات بھی مل جائے تو یہ بہت بڑی بات ہوا کرتی ہے۔ مگر عمران خان کو تو صرف ایسی راتیں نہیں ملی جو ستاروں سے بھری ہوئی تھیں اسے تو ایسے دن بھی ملے جو بارش میں بھیگے ہوئے تھے۔ کیا وہ دن کافی نہیں تھے؟
عوام کی معصوم محبت بہت بڑی بات ہوا کرتی ہے۔ عمران خان کو خوش ہونا چاہیے۔ اسے اس بات کا افسوس کیوں ہو کہ اس نے اپنے دھرنے سے وزیر اعظم کا استعفی حاصل نہیں کیا۔ اگر عمران خان کو اقتدار نہیں ملا تو کیا ہوا؟ اسے لوگوں کی محبت تو مل گئی۔ مگر اس بات کی اہمیت کا اندازہ صرف وہ لوگ لگا سکتے ہیں جو عوام سے عشق کرتے ہیں۔ اگر عمران کو عوام سے عشق ہے تو محبت کے بہت سارے دن اور بہت ساری راتیں حاصل ہوچکیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ کچھ ہوا کرتا ہے؟
عمران خان کو اس باتکا احساس ہونا چاہیے کہ اگر اقتدار نہیں تو عوامی الفت کا امپائر ہر دن اس کے حق میں اپنی انگلی اٹھاتا رہا۔ اسے بتاتا رہا کہ وہ جیت گیا ہے۔ یہ جیت ہی اصل جیت ہوتی ہے۔ مگر یہ حقیقت سیاست کی آنکھوں سے نہیں دیکھی جاسکتی۔ اس کے لیے محبت بھری دید درکار ہے۔ اس کے لیے شکیرا کے گیت کے وہ بول درکار ہیں جو کسی کو بلاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ''I will follow you down wherever you goیعنی: میں تمہارا پیچھا کروںگی تم جہاں بھی جاؤ گے!
یہی تو محبت ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ محبت سیاست کی سمجھ سے بالاتر ہے۔