بھٹو سے شریف اور عمران تک
پنجاب ایک ہی زمانے میں بھٹو کا شیدائی ہوتا ہے تو وہیں وہ شریف کو چاہنے لگتا ہے اور وقت کے اسی لمحے میں وہ عمران پر۔۔۔
لاہور:
پنجاب کے زندہ دلوں کا یہ سب کیا دھرا ہے۔ ستر میں انھوں نے بھٹو کو محبوب بنایا تو بیس برسوں بعد نواز شریف کو چاہا تو اب ان کی پسند عمران خان بھی قرار پاتے ہیں۔ بھٹو کو دل سے اتارا نہیں اور نہ نواز شریف کی چاہت کم کی ہے لیکن عمران کو لاکھوں کی تعداد میں ووٹ دے کر ایک جنگل میں تین شیر اتار دیے ہیں۔ پہلے بیس برس پنجابیوں کے دل پر صرف اور صرف بھٹو کا ہی راج رہا۔ نوے سے نواز کو دل میں بسایا تو بیس برسوں کے بعد عمران کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ اسلام آباد کے دھرنے پانچ دریائوں کی سرزمین والوں کے اس ووٹنگ انداز کے سبب ہوئے۔
سندھ اور خیبر پختونخوا کو دیکھیں تو انھوں نے وہ نہیں کیا جو پنجاب پچھلی نصف صدی سے کر رہا ہے، اندرون سندھ پر تو پیپلزپارٹی ہی جما بیٹھی ہے۔ انھیں نہ مذہبی پارٹیاں بھائیں اور نہ مسلم لیگ۔ سندھیوں کو نہ ایم کیو ایم کی سمجھ آئی اور نہ عمران خان کی اور نہ قوم پرستوں کی۔ شاید اس لیے ٹوپی اور اجرک اوڑھنے والے پرسکون ہیں۔ کراچی نے قیام پاکستان کے بعد پہلے مسلم لیگ پر اعتماد برقرار رکھا۔ لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح ان کی پسند رہے۔
اگلے بیس برسوں میں جماعت اسلامی اہل کراچی کے ووٹوں کی حق دار رہی۔ دو عشرے سے شہر قائد کی ایم کیو ایم پر نظر عنایت ہے، اب تحریک انصاف کراچی کے باسیوں کے دلوں پر دستک دینے کی کوشش کررہی ہے۔ جس طرح جماعت اور متحدہ کی محاذ آرائی تاریخ کا حصہ رہی ہے اسی طرح الطاف اور عمران کا ٹاکرا آیندہ انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ گویا سندھ کے دیہی علاقے ایک ہی پارٹی پر مسلسل اعتماد کرتے ہیں اور شہری سندھ ایک وقت میں ایک پارٹی کو آگے بڑھاتا ہے۔
پنجاب ایک ہی زمانے میں بھٹو کا شیدائی ہوتا ہے تو وہیں وہ شریف کو چاہنے لگتا ہے اور وقت کے اسی لمحے میں وہ عمران پر بھی اپنے اعتماد کا اظہار کرتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ 2014 کے اگست میں مارچ زندہ دلوں کی تھری ان ون ووٹنگ کے باعث ہے۔ یقین جانیں، لاہور سے نکلنے والے جلوس پنجابیوں کی اسی ملتی جلتی پسند کے سبب اسلام آباد کی جانب بڑھے۔ اب پانچ دریائوں کے باسیوں کی سمجھ میں بات آئی ہوگی کہ کیوں کہا گیا کہ یہ سب کچھ پنجاب کے لوگوں کا کیا دھرا ہے، اگر صوبہ ایک ہی وقت میں بھٹو، شریف اور عمران کا پرستار ہوگا تو یہی ہوگا۔
مرد کوہستانی یعنی خیبر پختونخوا کے لوگ بھی کراچی کے لوگوں کی طرح ایک وقت میں ایک پارٹی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ شہر قائد کی طرح کسی گروہ کو بیس، بیس برسوں کا وقت نہیں دیتے۔ ہر الیکشن میں نئی پسند وہاں کے سیاست دانوں کے لیے بہتر کارکردگی دکھانے کا مطالبہ ہوتی ہے۔ 2002 کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کتاب پڑھنے والوں نے اگلے انتخابات میں اے این پی کے فانوس سے روشنی پائی تو 13 کے چناؤ میں عمران کو اپنا لیڈر بنایا۔ خیبر کے پٹھانوں اور سندھ کے باسیوں کا یہ انداز ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک سیاسی ٹیم کو کھیلنے کا موقع دیتے ہیں۔ پختونوں کے دل میں اترنے اور دل سے اترنے والے لیڈر ایک انتخابی ٹرم کی مار ہوتے ہیں، اگر وہ ان کے معیار پر پورا نہ اتریں۔
پنجابی پچاس برسوں میں کیا کرتے رہے ہیں؟ نوجوانوں کی خاطر ذرا تفصیل سے جانتے ہیں۔ 70 کے انتخابات نے ہیر اور سوہنی کے دیس میں بھٹو کی لہر کو ہرا دیا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد اقتدار کا پھل ''قائد عوام'' کی جھولی میں گرا۔ پانچ سال تک حکومت کی اور اپوزیشن کو بظاہر بکھیر کر رکھ دیا۔ انتخابات کا اعلان ہوا تو قومی اتحاد تشکیل پایا۔ نو ستارے بھٹو مخالف ضرور تھے لیکن وہ نہ ایک پارٹی تھے اور نہ ایک قائد پر متفق۔ ضیا کے مارشل لاء کے بعد سب بکھر گئے۔ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی جانشین بن کر سامنے آئیں تو پنجابیوں کو پوجا کے لیے ایک دیوی مل گئی۔ اپریل 86 میں شاندار استقبال تاریخ کا حصہ ہے۔
پنجابی یہاں تک تو ٹھیک تھے کہ وہ پندرہ سال سے مسلسل بھٹو خاندان کے پرستار تھے، ایسے میں نواز شریف میدان سیاست میں آئے۔ پنجابیوں نے ایک دل میں دو محبوب بسائے۔ قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو کو ووٹ دے کر وفاق میں لائے تو صوبے میں انھوں نے نواز شریف پر اعتماد کیا۔ پنجابیوں کی بیک وقت دو لیڈروں سے محبت نے صدی کے آخری عشرے میں محاذ آرائی کو جنم دیا۔ پنجاب کے باسیوں کے دلوں پر قبضے کے لیے دونوں جوان، خوش حال اور خوب صورت شخصیات میدان میں تھیں۔ ایسے میں دھرنے بھی ہوئے اور تحریک بھی چلی۔ عدم اعتماد کے مرحلے بھی دیکھے گئے اور ٹرین مارچ کے مناظر بھی تاریخ کے سامنے آئے۔
صدی ختم ہوئی تو پنجاب بھٹو اور شریف میں بٹا ہوا تھا۔ عمران نے 96 میں تحریک انصاف بنائی۔ اگلے سال کے انتخاب تک بابا بلھے شاہ کی سر زمین پر وہ سیاسی محبوب برسر پیکار تھے۔ مشرف کا زمانہ آیا تو پنجاب سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ تیسرے محبوب کی چاہت کا طلب گار محسوس ہوا۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ طے نہ کرسکا کہ عمران پنجابیوں کے دلوں پر دستک دے چکے ہیں یا نہیں۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا تو سن گیارہ کے سرد موسم نے ثابت کیا کہ گرم جوش لاہوریوں نے اپنے دل میں تیسرا محبوب بسا لیا ہے۔
مینار پاکستان کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کے کئی جلسوں نے شریفوں کو محتاط کردیا۔ انھیں محسوس ہوا کہ اگر وہ لاہوریوں کے دل سے اترگئے تو پنجابیوں کے دل میں بسا رہنا مشکل ہوگا۔ حکومت کے بقایا ڈیڑھ سال میں انھوں نے کوششوں کو تیز کردیا۔ وقت گزرا تو سن تیرہ کے انتخابات آگئے۔ ووٹوں کی تعداد نے ثابت کردیا کہ پنجابی اب اپنے دل میں تیسرا محبوب بساچکے ہیں۔ انھیں عوامی انداز والے بھٹو سے بھی عشق ہے تو دھیمے سروں والا شریف بھی ان کو پسند ہے تو دبنگ عمران بھی اب رانجھے اور مہینوال کی داستانیں سننے والوں کو بھانے لگا ہے۔ واہ میرے زندہ دل اور کھانے پینے والے پنجابیو! آئو تمہیں تمہاری زبان میں سمجھائیں کہ تم کیا کر بیٹھے ہو۔
مٹھائی دو طریقوں سے خریدی جاتی ہے۔ ایک جیسی لے لی جائے یا دو تین مختلف یا یوں کہیے رنگ برنگی، سندھ اور خیبر پختونخوا کے ووٹر ایک وقت میں ایک ہی قسم کی مٹھائی لاتے ہیں۔ لڈو، قلاقند یا برفی، پنجابیوں کی جلد گھل مل جانے والی طبیعت نے انھیں مکس مٹھائی کا ڈبا لینے پر آمادہ کیا ہے۔ پسند اپنی اپنی تو ٹھیک لیکن جب ایک ڈبے میں لڈو یا قلاقند اور برفی قریب قریب رکھے ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا اٹھایا جائے اور کیا چھوڑا جائے۔
یوں کشمکش کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ یہی صورت حال بھٹو، شریف اور عمران کو بیک وقت پسند کرنے سے ہوئی۔ پہلے لاہور سے اسلام آباد تک پہنچنا اور پھر کئی ہفتوں تک کا دھرنا پنجابیوں کی زندہ دل طبیعت کا کیا دھرا ہے کہ وہ لمحہ بہ لمحہ پسند کرکے پہنچے ہیں بھٹو سے شریف اور عمران تک۔