’مقدس‘ جمہوریت
عوام کو ووٹ کا حق دینا اور اس کے بعد حکومتوں کا قیام اور حکمرانوں کا ریاستی اداروں پر براجمان ہونا کوئی۔۔۔۔
لبرل جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا سب سے ''ترقی یافتہ'' طریقہ کار ہے۔ اس میں عوام کو پانچ برس کے بعد ووٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ عوام اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ حکومت کو وجود میں لانے میں ان کا اہم کردار بھی شامل رہتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسا التباس ہے کہ جس کے احساس تلے عوام پانچ برس حکمرانوں کے ظلم و تشدد، وحشت و بربریت اور جبر و استحصال کو برداشت کرتے چلے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ محض ایک التباس کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
عوام کو ووٹ کا حق دینا اور اس کے بعد حکومتوں کا قیام اور حکمرانوں کا ریاستی اداروں پر براجمان ہونا کوئی سائنسی سچائی نہیں ہے، بلکہ یہ مقتدر طبقات کی اپنے طبقاتی غلبے کو برقرار رکھنے کی آئیڈیالوجی ہے جس کے حصار میں عوام مسلسل مقید رہتے ہیں۔ پانچ برس کے بعد پھر انتخابات کے عمل کو دہرایا جاتا ہے ، حکمران عوام سے وعدے کرتے ہیں، انھیں دوبارہ یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کے خادم ہیں، اصل طاقت ان کے ووٹ میں ہے۔ اس طرح عوام دوبارہ ''جمہوریت کی تقدیس'' کے التباس تلے حکمرانوں کی غلامی کو قبول کرتے رہتے ہیں۔
سرمایہ داری نظام کی ساخت پر غور کرنے سے کئی حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ طبقاتی سماج میں لوگوں کے پاس دو، تین یا چار لوگوں میں سے ہی کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ انتخاب صرف وہی شخص لڑ سکتا ہے جو صاحب ثروت ہو، جس کے پاس سرمائے کا ذخیرہ ہو۔ پسے ہوئے استحصال زدہ طبقات کی پارلیمان میں کوئی نمایندگی نہیں ہوتی۔
پارلیمان ان کے لیے ایک ایسا ادارہ ہوتی ہے کہ جس کا ان کے حقوق و مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اراکین پارلیمان ہمہ وقت اس قسم کی تقاریر کرتے رہتے ہیں کہ ''جمہوریت ایک بہترین نظام ہے۔'' تاہم جن معاشروں میں جمہوریت کو غیر فطری طریقے سے عوام پر مسلط کر دیا جاتا ہے وہاں حقیقت میں یہ ایسے 'انتقام' کی شکل اختیار کرلیتی ہے جو عوام سے مسلسل لیا جاتا ہے۔
مغرب میں جدید جمہوری معاشروں کا آغاز صنعتی انقلاب کے ساتھ ہوا۔ الٰہیات کے خلاف تعقل کی بالادستی قائم ہوئی۔ یورپ، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں انقلابات برپا ہوئے۔ ظلم و جبر کا ماخذ جاگیرداری نظام کا انہدام عمل میں آیا۔ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ صنعتی ارتقا سے سماج کی بنیاد یعنی معیشت اور بالائی اشکال یعنی تعقل پسندی، ثقافت، سیاسی و مذہبی آئیڈیالوجی میں ہم آہنگی دکھائی دینے لگی۔ پیداواری قوتوں اور پیداواری رشتوں کی تبدیلی سے احساسات، جذبات اور تعقل کی ساخت بھی تبدیل ہو رہی تھی۔ لہٰذا مغربی معاشروں میں جمہوریت کی تشکیل غیر فطری نہیں تھی۔
عظیم جرمن فلسفیوں کانٹ، ہیگل شیلنگ اور فختے وغیرہ کو فرانسیسی انقلاب کی اولاد کہا جاتا ہے۔ انقلاب سے ریاست کا وجود جس طریقے سے نمودار ہورہا تھا، علمیات، اخلاقیات اور جمالیات کے معیارات جدلیاتی طرزفکر کے تحت متشکل ہورہے تھے۔ علمیات و اخلاقیات کی تشکیل و ارتقا کا عمل صرف اور صرف فرانسیسی انقلاب سے جنم لینے والی نئی قوتوں سے تطابق پیدا کرنے کا عمل تھا۔ پیداواری قوتوں اور رشتوں میں تضاد کا تقاضا تھا کہ علمی و فکری، اخلاقی، ثقافتی اور سماجی عمل کو تعقل کا تابع کردیا جاتا۔
ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان جدلیاتی تعلق کو دکھانے کا مقصد اگرچہ ریاست کی مطلق العنانیت کو ثابت کرنا تھا، جو کہ تعقلی اصولوں کے تابع ہے، مگر یہ عمل کئی حوالوں سے یکطرفہ ہرگز نہیں تھا۔ تعقلی ریاست ایسا مقدس ادارہ نہیں تھا جو عوام سے منقطع ہو، بلکہ ریاست کے وجود میں عوام خود کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی تکمیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ریاست اور سول سوسائٹی کے درمیان ایک جدلیاتی رشتہ موجود رہتا ہے۔ ریاست کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ انصاف، مساوات، آزادی اور انفرادیت جیسے آفاقی تصورات کو لوگوں کے لیے قابل حصول بنائے۔
مغربی ریاستیں عوام کے ساتھ اپنے تمام تر تعقل پسندانہ تعلق کے باجود انصاف، مساوات، انفرادیت اور آزادی جیسے تصورات کو حقیقی معنوں میں محسوس کرنے میں ناکام رہیں۔ ان میں برپا ہونے والی تمام جنگوں نے ان کے معاشی اور تعقلی نظام میں شامل ان تضادات کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ جن کو مغربی جمہوریت کے علمبردار دیکھنے میں ناکام رہے تھے۔ تاہم ان تمام تر خامیوں کے باوجود مغربی جمہورتیں مغربی سماجوں کے باطنی تضادات کے نتیجے میں ازخود وجود پذیر ہوئی تھیں۔ انھیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے کہیں باہر سے مسلط نہیں کیا جاتا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اپنے عوام کے حقوق اور ترجیحات سے جڑی ہوئی ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمان کی کارروائی بی بی سی پارلیمان پر دیکھنے سے عیاں ہوتا ہے کہ وہاں کس طرح ہمہ وقت لوگوں کے مسائل پر بات ہوتی ہے۔ صحت، تعلیم، روزگار، مہنگائی، رہائش ، ٹیکس اور امیگریشن جیسے اہم معاملات وہاں ہر وقت زیر بحث رہتے ہیں۔ سبھی سیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات اور تحفظات سے عوام کو آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ ہر جماعت کی پالیسی سازی سے عوام کے لیے بہتر پالیسی رکھنے والی جماعت کا انتخاب کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
تیسری دنیا کے ''جمہوریت پسند'' نکتہ یہ اٹھاتے ہیں کہ برطانیہ میں کوئی بھی پارلیمان کے وجود کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ حقیقت میں یہ بات ادھوری ہے۔ مکمل بات یہ ہے کہ کوئی رکن پارلیمان بھی عوام کے بارے میں 'خانہ دوش' اور 'غلیظ' جیسے حقارت آمیز الفاظ استعمال نہیں کرسکتا، نہ ہی حقوق مانگنے والوں کو 'دہشت گرد اور بلوائی' کہہ کر مخاطب کرسکتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایسی انگنت تحریکیں برپا ہوچکی ہیں جن میں لوگوں نے سڑکوں پر آکر اپنے حقوق حاصل کیے تھے۔
1950 کے بعد فرانسیسی فلسفی مثل فوکو کے خیالات کی تقلید میں سیاہ فام، نسائیت اور جنسی امتیاز سے متعلق کئی تحریکیں برپا ہوئیں جن کے فیصلے بھی سڑکوں پر ہوتے رہے ہیں۔ کسی خاص گروہ کے بارے میں اراکینِ پارلیمان کراہت انگیز بیانات جاری نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے بارے میں انتہائی معمولی نوعیت کے بیانات دینے پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے عام کمیونٹی رہنما، سماجی کارکن، اراکینِ پارلیمان پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہاں عوام اور اراکین پارلیمان میں کوئی ایسی وسیع خلیج حائل نہیں ہے کہ جس سے نفرت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔
پارلیمان اگر 'مقدس' یا مقتدر ہے تو محض اس لیے کہ اس میں اور عوام کے درمیان خلیج کو کم کرنا اراکین پارلیمان کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ اراکین پارلیمان کو عوام کا ووٹ ہی پارلیمان میں بھیجتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ووٹ دینے کے بعد عوام غیر مقدس اور اراکین پارلیمان کو مقدس ٹھہرا دیا جائے۔ شہریوں کے حقوق پر ہمہ وقت سنجیدہ مباحث اٹھانا اراکین پارلیمان کا فرض ہوتا ہے۔ حقوق مانگنے والوں پر گولیاں برسا کر انھیں موت کے گھاٹ اتارنا اور بعد ازاں مقدمات کے اندراج کے لیے آواز اٹھانے پر ان پر دوبارہ تشدد کرنا کسی ایسی پارلیمان کا وتیرہ نہیں ہوسکتا جو خود کو عوام کی نمایندہ سمجھتی ہو۔
تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو پارلیمان ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنے وجود کے لیے عوام کے ووٹ کا محتاج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمان کی تقدیس کا تصور براہ راست عوام سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان سمیت وہ تمام ممالک جو کالونیل ازم اور نیوکالونیل ازم کی یلغار کا شکار رہے ہیں، ان میںمقتدر طبقات کی محض اشکال تبدیل ہوتی ہیں۔ ان کی سوچ ، جذبات و احساسات کی ساختوں میں ابھی تک آمریت پیوست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرتے ہیں۔ ان کو پارلیمان اس وقت یاد آتی ہے جب ان کو محسوس ہو کہ ان کے طبقاتی غلبے کو خطرہ ہے۔
تب یہ عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ ابھی تک رہائش، افلاس، بے روزگاری، انصاف اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی جیسے انتہائی اہم اور بنیادی مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ پارلیمان پر براجمان ہونے والے طبقات ہمہ وقت طبقاتی غلبے کو برقرار رکھنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں۔ جمہوریت کو خطرہ لوگوں کے بنیادی حقوق کو خطرہ نہیں بلکہ غالب طبقات کے اقتدار کو ہے۔
سماج کے مقہور و مجبور اوراستحصال زدہ طبقات کی بنیادی وسائل سے محرومی کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ان کے شعور میں طبقاتی امتیاز و تفریق کا قضیہ کھل نہ جائے ۔ اور وہ استحصالیوں و جابروں کے شکنجے سے خود کو آزاد کرانے کے لیے ایک منظم و مربوط جدوجہد کا آغاز نہیںکرتے۔ اس احساس کے تحت کہ انھیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ مغرب میں یہ عمل بہت عرصے سے جاری ہے، جب کہ پاکستان میں مسلسل مزاحمت وقت کی ضرورت ہے۔