نیا پاکستان
دھرنوں کا سلسلہ اپنی قوت پر نہیں تھا بلکہ یہ آس تھی کہ ہم جب حالات کو بہت خراب کردیں گے اور اگر حالات اتنے۔۔۔۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ریاستوں کی اہم شاہرائوں پر دھرنے سے پاکستان کو بہت شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ پہلے ہی حالات مخدوش تھے، مسلسل آٹھ سال سے پورا ملک دہشت گردوں کے رحم و کرم پہ تھا۔ جنھوں نے حکومت کی رٹ ختم کردی تھی۔
انھوں نے ہر ادارے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ ریاست کے سب سے زیادہ منظم مضبوط ادارے جس کا تعلق وطن کی حفاظت سے ہے، انھیں بھی اپنی دہشت گردی میں لپیٹ لیا، بظاہر ایسا لگ رہا تھا، مگر جیسے ہی ہماری پاک افواج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منصب سنبھالا انھوں نے ملک کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ بدقسمتی سے کچھ سیاسی جماعتیں جودہشت گردوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں، دہشت گردوں کے خلاف کسی کریک ڈائون کی مخالف تھیں۔
انھوں نے مذاکرت کا فیصلہ کیا جو واقعات اور حالات کی روشنی میں غلط فیصلہ تھا۔ کیونکہ ہمیشہ مذاکرات ان لوگوں سے کیے جاسکتے ہیں جو آئین اور قانون کو تسلیم کرتے ہوں۔ ان مذاکرات نے مزید نقصان پہنچایا اور دنیا نے دیکھا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اور واقعی یہ آپریشن جس کا نام رسولؐ اﷲ کی تلوار عضب پر رکھا گیا، اس نے ان دشمنوں کو ختم کردیا اور ہماری ریاست، ہمارا آئین اور ہمارا نظریہ محفوظ رہا۔
آج اسلام آباد میں جو دھرنے مسلسل کئی روز سے جاری ہیں، جس میں ایک طرف علامہ طاہر القادری کے قدرداں اور دوسری طرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو عمران خان کے متوالے ہیں انھوں نے ریاست کے اہم اداروں کے گرد جمع ہوکے حکومت کی رٹ کو کمزور کردیا، یہ بھی فوجی آپریشن ضرب عضب کے مرہونِ منت ہے، ورنہ اتنے اطمینان سے دہشت گرد انھیں یہ موقع نہ دیتے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات سے کسی کو اختلاف نہیں حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے تمام ممبران کو بھی ان مطالبات سے اتفاق ہے، مگر ان کے انداز طرز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان دھرنوں کو پاکستان کے کسی اور مقام پر بھی کرکے احتجاج کیا جاسکتا ہے، جیسے مینار پاکستان جیسا مقام مگر عین اسلام آباد اور وہ بھی شاہراہ دستور جہاں پی ایم ہائوس بھی ہے، پی ٹی وی بھی ہے اور دیگر اہم وزارتیں، سفارتیں بھی، یہاں دھرنے کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کو مفلوج کردیا جائے تاکہ وزیراعظم نواز شریف اتنے دباؤ میں آجائیں کہ وہ استعفیٰ دے کر رخصت ہوجائیں۔
لیکن وزیراعظم کے استعفے سے مزید الجھائو پیدا ہوتا کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم کو ممبران پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے اور آئین کے مطابق پارلیمنٹ ہی انھیں برخاست کرسکتی ہے۔ اگر عمران خان ان کے استعفیٰ اور اپنے جائز مطالبات کے لیے پارلیمنٹ کا سہارا لیتے جہاں 30 کے قریب ان کے ممبران موجود ہیں اور نواز لیگ کے علاوہ وہ پی پی پی، ایم کیوایم، اے این پی جیسی جماعت کو اپنے ساتھ ملاتے تو یقیناً نتائج بہت بہتر ہوتے۔
دھرنوں کا سلسلہ اپنی قوت پر نہیں تھا بلکہ یہ آس تھی کہ ہم جب حالات کو بہت خراب کردیں گے اور اگر حالات اتنے خراب ہوجاتے جہاں ریاست کا نظام مفلوج ہوجاتا، اداروں کی رٹ ختم ہوجاتی تو ممکن ہے کہ فوج مداخلت کرے ۔ حتیٰ الا مکان فوج نے مداخلت نہیں کی۔ وہ بھی پاکستان میں جمہوریت و آئین کی پاسداری چاہتی ہے، وہ بھی پاکستان کو ترقی پر دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست داں اس مملکت میں قومی خدمت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کرتے ہیں۔
گزشتہ دس سال کا ریکارڈ گواہ ہے، نہ بجلی، نہ گیس، نہ پانی، نہ اناج، نہ خورونوش کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا انتظام کیا بلکہ ہر شے مہنگی تر ہوگئی۔ اقربا پروری اور انا پرستی نے ملک کے معاشی حالات خراب کردیے۔ اب بھی ہم ایک ایسا معاشی نظام نہ لاسکے جس میں عام آدمی کو کوئی ریلیف ملتا۔ اس کے برعکس تمام پارلیمنٹ کے ممبران میں ماسوائے چند کے سب کی دولت میں، سب کے کاروبار میں، آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کاش پاکستان کے خفیہ اداروں کے ذمے یہ ہوتا کہ ان کے معاملات پر نگرانی رکھیں تو آج ان سے پوچھا جاسکتا تھا۔
پاکستان کے موجودہ حالات نے یہ ثابت کردیا کہ پوری قوم کو یکسوئی سے کچھ اہم فیصلہ کرنے ہوں گے تاکہ مملکت کو معاشی راہوں پر اس طرح ڈالا جائے کہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہو۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام ہے، اس نے وفاق کو بہت کمزورکیا، اس نے اداروں کو کمزور کیا۔ اس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ یہی پارلیمنٹ سیاسی جمہوری نظام کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام میں تبدیل کرے۔ عام انتخاب کے ذریعے صدر مملکت کا انتخاب ہو۔
قومی اسمبلی کو ختم کرکے سینیٹ کو اختیارات دیے جائیں اور پورے ملک میں صوبائی حکومتوں کے بجائے شہری حکومت بنائی جائے۔ انتخابی اصلاحات میں ناظم کے لیے شرائط ہوکہ اس نے پہلے سے کونسلر شپ لی ہو۔ اگر صوبائی اسمبلی ہو تو وہ صوبائی الیکشن لڑے، جس نے پہلے شہری حکومت کا انتخاب لڑا ہو اور کامیاب ہوا ہو، اسی طرح سینیٹ یا قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے شرط ہو کہ اس نے صوبائی الیکشن کامیابی سے لڑا ہو۔ اس طرح ہماراسیاسی سیٹ اپ بہت منظم ہوگا۔
کسی کاروباری شخص کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو، نہ ہی کسی ایسے شخص کو اجازت ہو جس کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کا پاسپورٹ ہو۔ اور نئی حکومت بہترین جج پر مشتمل ایک خصوصی عدالت بنائے جہاں صرف سیاسی لوگوں کے مقدمات پر فیصلہ ہو۔ اس طرح ہمارے اخراجات میں بہت کمی واقع ہوگی۔ قومی اسمبلی کے ختم کرنے سے اس کے اخراجات کو پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں آبادی کے تناسب سے سرکاری ٹرانسپورٹ چلائی جائے۔
اگر پاکستان میں صدارتی نظام قائم ہوجائے گا اور قانون بنایا جائے تو تنظیم سیاسی ہوں انھیں مذہب کے نام پر کوئی کام نہ کرنے دیا جائے۔ پورے ملک میں یہ واضح اعلان ہو کہ ہر مذہبِ فکر کے لوگوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہو، جسے نیا پاکستان کہا جا سکے۔ اس لیے موجودہ پارلیمنٹ کی مدت کو پانچ سال کے بجائے 3 سال کردیا جائے تاکہ دھرنا دینے والوں کے مطالبوں پر بھی توجہ ہوسکے۔ یہ کام موجودہ اسمبلی کو خود انجام دینا ہوگا۔
انھوں نے ہر ادارے کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ ریاست کے سب سے زیادہ منظم مضبوط ادارے جس کا تعلق وطن کی حفاظت سے ہے، انھیں بھی اپنی دہشت گردی میں لپیٹ لیا، بظاہر ایسا لگ رہا تھا، مگر جیسے ہی ہماری پاک افواج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منصب سنبھالا انھوں نے ملک کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ بدقسمتی سے کچھ سیاسی جماعتیں جودہشت گردوں کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں، دہشت گردوں کے خلاف کسی کریک ڈائون کی مخالف تھیں۔
انھوں نے مذاکرت کا فیصلہ کیا جو واقعات اور حالات کی روشنی میں غلط فیصلہ تھا۔ کیونکہ ہمیشہ مذاکرات ان لوگوں سے کیے جاسکتے ہیں جو آئین اور قانون کو تسلیم کرتے ہوں۔ ان مذاکرات نے مزید نقصان پہنچایا اور دنیا نے دیکھا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے گا۔ اور واقعی یہ آپریشن جس کا نام رسولؐ اﷲ کی تلوار عضب پر رکھا گیا، اس نے ان دشمنوں کو ختم کردیا اور ہماری ریاست، ہمارا آئین اور ہمارا نظریہ محفوظ رہا۔
آج اسلام آباد میں جو دھرنے مسلسل کئی روز سے جاری ہیں، جس میں ایک طرف علامہ طاہر القادری کے قدرداں اور دوسری طرف نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو عمران خان کے متوالے ہیں انھوں نے ریاست کے اہم اداروں کے گرد جمع ہوکے حکومت کی رٹ کو کمزور کردیا، یہ بھی فوجی آپریشن ضرب عضب کے مرہونِ منت ہے، ورنہ اتنے اطمینان سے دہشت گرد انھیں یہ موقع نہ دیتے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے مطالبات سے کسی کو اختلاف نہیں حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے تمام ممبران کو بھی ان مطالبات سے اتفاق ہے، مگر ان کے انداز طرز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان دھرنوں کو پاکستان کے کسی اور مقام پر بھی کرکے احتجاج کیا جاسکتا ہے، جیسے مینار پاکستان جیسا مقام مگر عین اسلام آباد اور وہ بھی شاہراہ دستور جہاں پی ایم ہائوس بھی ہے، پی ٹی وی بھی ہے اور دیگر اہم وزارتیں، سفارتیں بھی، یہاں دھرنے کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست کو مفلوج کردیا جائے تاکہ وزیراعظم نواز شریف اتنے دباؤ میں آجائیں کہ وہ استعفیٰ دے کر رخصت ہوجائیں۔
لیکن وزیراعظم کے استعفے سے مزید الجھائو پیدا ہوتا کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم کو ممبران پارلیمنٹ نے منتخب کیا ہے اور آئین کے مطابق پارلیمنٹ ہی انھیں برخاست کرسکتی ہے۔ اگر عمران خان ان کے استعفیٰ اور اپنے جائز مطالبات کے لیے پارلیمنٹ کا سہارا لیتے جہاں 30 کے قریب ان کے ممبران موجود ہیں اور نواز لیگ کے علاوہ وہ پی پی پی، ایم کیوایم، اے این پی جیسی جماعت کو اپنے ساتھ ملاتے تو یقیناً نتائج بہت بہتر ہوتے۔
دھرنوں کا سلسلہ اپنی قوت پر نہیں تھا بلکہ یہ آس تھی کہ ہم جب حالات کو بہت خراب کردیں گے اور اگر حالات اتنے خراب ہوجاتے جہاں ریاست کا نظام مفلوج ہوجاتا، اداروں کی رٹ ختم ہوجاتی تو ممکن ہے کہ فوج مداخلت کرے ۔ حتیٰ الا مکان فوج نے مداخلت نہیں کی۔ وہ بھی پاکستان میں جمہوریت و آئین کی پاسداری چاہتی ہے، وہ بھی پاکستان کو ترقی پر دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست داں اس مملکت میں قومی خدمت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کرتے ہیں۔
گزشتہ دس سال کا ریکارڈ گواہ ہے، نہ بجلی، نہ گیس، نہ پانی، نہ اناج، نہ خورونوش کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا انتظام کیا بلکہ ہر شے مہنگی تر ہوگئی۔ اقربا پروری اور انا پرستی نے ملک کے معاشی حالات خراب کردیے۔ اب بھی ہم ایک ایسا معاشی نظام نہ لاسکے جس میں عام آدمی کو کوئی ریلیف ملتا۔ اس کے برعکس تمام پارلیمنٹ کے ممبران میں ماسوائے چند کے سب کی دولت میں، سب کے کاروبار میں، آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ کاش پاکستان کے خفیہ اداروں کے ذمے یہ ہوتا کہ ان کے معاملات پر نگرانی رکھیں تو آج ان سے پوچھا جاسکتا تھا۔
پاکستان کے موجودہ حالات نے یہ ثابت کردیا کہ پوری قوم کو یکسوئی سے کچھ اہم فیصلہ کرنے ہوں گے تاکہ مملکت کو معاشی راہوں پر اس طرح ڈالا جائے کہ مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہو۔ ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام ہے، اس نے وفاق کو بہت کمزورکیا، اس نے اداروں کو کمزور کیا۔ اس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ یہی پارلیمنٹ سیاسی جمہوری نظام کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام میں تبدیل کرے۔ عام انتخاب کے ذریعے صدر مملکت کا انتخاب ہو۔
قومی اسمبلی کو ختم کرکے سینیٹ کو اختیارات دیے جائیں اور پورے ملک میں صوبائی حکومتوں کے بجائے شہری حکومت بنائی جائے۔ انتخابی اصلاحات میں ناظم کے لیے شرائط ہوکہ اس نے پہلے سے کونسلر شپ لی ہو۔ اگر صوبائی اسمبلی ہو تو وہ صوبائی الیکشن لڑے، جس نے پہلے شہری حکومت کا انتخاب لڑا ہو اور کامیاب ہوا ہو، اسی طرح سینیٹ یا قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے شرط ہو کہ اس نے صوبائی الیکشن کامیابی سے لڑا ہو۔ اس طرح ہماراسیاسی سیٹ اپ بہت منظم ہوگا۔
کسی کاروباری شخص کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو، نہ ہی کسی ایسے شخص کو اجازت ہو جس کے پاس پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کا پاسپورٹ ہو۔ اور نئی حکومت بہترین جج پر مشتمل ایک خصوصی عدالت بنائے جہاں صرف سیاسی لوگوں کے مقدمات پر فیصلہ ہو۔ اس طرح ہمارے اخراجات میں بہت کمی واقع ہوگی۔ قومی اسمبلی کے ختم کرنے سے اس کے اخراجات کو پاکستان کے بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں آبادی کے تناسب سے سرکاری ٹرانسپورٹ چلائی جائے۔
اگر پاکستان میں صدارتی نظام قائم ہوجائے گا اور قانون بنایا جائے تو تنظیم سیاسی ہوں انھیں مذہب کے نام پر کوئی کام نہ کرنے دیا جائے۔ پورے ملک میں یہ واضح اعلان ہو کہ ہر مذہبِ فکر کے لوگوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہو، جسے نیا پاکستان کہا جا سکے۔ اس لیے موجودہ پارلیمنٹ کی مدت کو پانچ سال کے بجائے 3 سال کردیا جائے تاکہ دھرنا دینے والوں کے مطالبوں پر بھی توجہ ہوسکے۔ یہ کام موجودہ اسمبلی کو خود انجام دینا ہوگا۔