معیشت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ شرح سود برقرار رہنے کا امکان

سیاسی بے یقینی نے معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے، آئی ایم ایف کا چوتھا معاشی جائزہ بھی مکمل نہ ہوسکا۔


Business Reporter September 08, 2014
ملکی سیاسی عدم استحکام معاشی اصلاحات میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

معیشت کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز بڑھ گئے ہیں، ستمبر کے وسط میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی پر نظرثانی میں موجودہ شرح سود برقرار رکھنے کے امکانات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگست کے مہینے میں افراط زر 14ماہ کی کم ترین سطح پر آنے کے باوجود مانیٹری پالیسی میں نرمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کے سبب معیشت کو درپیش بیرونی چیلنجز میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے آئندہ دو ماہ کے لیے بنیادی شرح سود موجودہ سطح پر برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

الیگژیئر سیکیورٹیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ پاکستان میں افراط زر کی شرح میں کمی آئی ہے تاہم سیاسی بے یقینی کی وجہ سے بیرونی چیلنجزبڑھ گئے ہیں۔ اگست کے مہینے میں افراط زر (سی پی آئی) کی شرح 6.99فیصد رہی جبکہ رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ جولائی اگست کے دوران افراط زر کی شرح 7.43فیصد رہی افراط زر میں کمی کی وجوہات میں پھل سبزیوں کی قیمت میں استحکام اور بنیادی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان قرار دی گئی ہے۔

کے اے ایس بی سیکیورٹیز کا تجزیہ کہتا ہے کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے معاشی اصلاحات میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ان اصلاحات میں بجلی پر سبسڈی میں کمی اور ٹیرف میں اضافہ اور نج کاری کے منصوبے سرفہرست ہیں۔ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے آئی ایم ایف کا چوتھا معاشی جائزہ بھی مکمل نہ ہوسکا جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام سے قرض کی پانچویں قسط کے حصول میں بھی تاخیر ہوسکتی ہے۔

شیڈول کے مطابق یہ جائزہ ستمبر کے شروع میں مکمل ہونا تھا جس کی منظوری کے بعد پاکستان کو قرض کی پانچویں قسط ستمبر کے وسط تک موصول ہونا تھی تاہم اب اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی پر نظرثانی کے بعد ہی یہ قسط موصول ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے جنہیں زائل ہونے میں کافی وقت لگے گا۔

حکومت کی تمام توجہ سیاسی بحران کے حل پر مرکوز رہی، اس دوران روپے کی قدر میں بھی کمی واقع ہوئی اور ڈالر 102روپے سے تجاوز کرگیا۔ کنٹینرز کی کمی اور راستوں کی بندش کی وجہ سے ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ملک میں کاروبار کرنے والی غیرملکی کمپنیوں نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ مقامی تاجروں، چیمبر آف کامرس اور تجارتی انجمنوں کی جانب سے بھی سیاسی بحران کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں اور معیشت پر پڑنے و الے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں