این آئی سی ایل کیسامین فہیم کوگرفتاروہراساں نہ کرنیکا حکم

اجازت کے بغیرگرفتارنہ کیاجائے،سندھ ہائیکورٹ،مدعا علیہان26جولائی کو طلب


ایکسپریس July 12, 2012
اجازت کے بغیرگرفتارنہ کیاجائے،سندھ ہائیکورٹ،مدعا علیہان26جولائی کو طلب۔ فوٹو/ایکسپریس

سندھ ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر تجارت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم کی درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو این آئی سی ایل اسکینڈل میں مخدوم امین فہیم کو گرفتار اور ہراساں کرنے سے روک دیا ہے، دو رکنی بینچ نے وفاقی وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو26 جولائی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ مخدوم امین فہیم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتار نہ کیا جائے۔

اس کے علاوہ ان کے اہل خانہ اور ملازمین کو بھی ہراساں نہ کیا جائے، امین فہیم کی جانب سے ان کے وکیل رشید رضوی نے موقف اختیار کیا کہ امین فہیم کو این آئی سی ایل کیس میں گرفتاری کا اندیشہ ہے اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ایف آئی اے حکام انکوائری کے نام پر ہراساں اور ذلیل کررہے ہیں اس لیے استدعا ہے کہ امین فہیم کے خلاف تحقیقات کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور ہراساں کرنے سے ایف آئی اے کو روکا جائے، اس کے علاوہ ان کے خلاف کوئی اور انکوائری یا الزام ہے تو اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور انکوائری کے نتائج سے آگاہ کیا جائے، رشید رضوی کے مطابق ایاز خان نیازی کی بحیثیت چیئرمین این آئی سی ایل تقرری کی ذمے داری ان کے موکل پر عائد نہیں ہوتی،

درخواست گزار کو4کروڑ15 لاکھ روپے کے بینک قرضے کا نادہندہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، درخواست گزار نے یونین بینک سے4کروڑ15لاکھ روپے کا قرض لیا تھا جو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ضم ہوگیا، بینک نے قرض کی ادائیگی کے لیے نوٹس جاری کیا، درخواست گزار نے اپنے منیجرعلی حسن ہنگورو کے ذریعے ڈیفنس میں واقع بنگلہ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا، محمد ظفر سلیم نامی شخص سے بنگلے کا سودا76ملین روپے میں طے ہوا، اس سلسلے میں4کروڑ15 لاکھ روپے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں جمع کرادیے گئے،

طے شدہ معاہدے کے مطابق مزید رقم بھی محمد ظفر سلیم کو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک میں ہی جمع کرانی تھی، بنگلے کے خریدار محمد ظفر سلیم ائیربلو حادثے میں جاں بحق ہوگئے، بعدازاں ان کی بیوہ نے بنگلے کا سودا منسوخ کردیا جس پر رقم واپس کردی گئی، عدالت نے مدعا علیہان کو26 جولائی کے لیے نوٹس جاری کردیے ہیں، درخواست میں وزارت داخلہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، ڈائریکٹر ایف آئی اے اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کرائم سیل کو فریق بنایا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں