اقوام متحدہ گستاخانہ فلم جیسے عمل کو جرم قرار دے صدر زرداری
میں پوچھتا ہوں ہمیں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا،جنرل اسمبلی سے خطاب
صدر آصف علی زرداری نے عالمی برادری سے خاموش تماشائی نہ بننے کی اپیل کرتے ہوئے اقوام متحدہ پر زوردیا ہے کہ وہ اسلام مخالف فلم جیسے عمل کو مجرمانہ فعل قرار دے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 67ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے عقیدے کیخلاف نفرت کو ابھارنے اور ہمارے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے کی بھرپور مذمت کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی برادری توہین آمیز فلم جیسے عمل پر خاموش تماشائی نہ بنے، ایسے فعل کو جرم قرار دے جس سے دنیا کا امن تباہ ہو اور آزادی اظہار کے غلط استعمال سے دنیا کی سلامتی کو خطرے میں پڑ جائے۔ اقوام متحدہ فوری طور پر اس خطرناک معاملے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی تلخیوں پر توجہ دے تاکہ قوموں میں شائستگی اور احترام کی فضا پیدا ہوسکے۔
انھوں نے کہا کہ میں یہاں پاکستان کے بارے میں سوالات کے جواب دینے نہیں آیا بلکہ اپنے عوام کی طرف سے کچھ سوال کرنے آیا ہوں۔ لاہور کی مون مارکیٹ میں 7دسمبر 2009ء کے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والی دو سال کی بچی، بم دھماکوں سے بار بار تباہ ہونے والے پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی کے درجنوں بازاروں کے تاجروں، دکانداروں اور سرمایہ کاروں کی طرف سے اور میں اپنے ان تین بچوں کی طرف سے جن کی ماں ''محترمہ بینظیر بھٹو'' کو دہشت گردوں نے قتل کردیا، یہ سوال کرتا ہوں کہ پاکستان کو مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں، سماجی اقدار تار تار ہوگئیں اور پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ہماری معیشت، ہماری زندگیاں اور زندہ رہنے کی اہلیت کو چیلنج کا سامنا ہے اور عالمی سطح پر بھی ہمیں بڑے چیلنج درپیش ہیں اور آج ہماری حالت ڈکٹیٹر شپس کی ایک پروڈکٹ جیسی ہے۔
پاکستان سے زیادہ کسی ملک اور کسی ملک کے لوگ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں اور شہری اموات کی وجہ سے اس جنگ کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ جولوگ ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ہم نے زیادہ کام نہیں کیا میں ان سے عاجزانہ درخواست کرتاہوں کہ وہ ہمارے شہیدوں اور ان کے لواحقین کی توہین نہ کریں۔ خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے صدرآصف علی زرداری نے کہا کہ ہمارے چین سے تعلقات مزید مستحکم ہورہے ہیں۔ ایک خودمختار، مستحکم اور محفوظ افغانستان ہی افغان عوام کے لیے بہتر ہے اور جو افغان عوام کے لیے بہتر ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ پاکستان میں 30لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور عالمی برادری ان کی باعزت واپسی کے لیے تعاون کرے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کا روشن مستقبل اسی وقت ممکن ہوگا جب امن عمل افغان قیادت میں ہو۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 67ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ میں اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کے عقیدے کیخلاف نفرت کو ابھارنے اور ہمارے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے کی بھرپور مذمت کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی برادری توہین آمیز فلم جیسے عمل پر خاموش تماشائی نہ بنے، ایسے فعل کو جرم قرار دے جس سے دنیا کا امن تباہ ہو اور آزادی اظہار کے غلط استعمال سے دنیا کی سلامتی کو خطرے میں پڑ جائے۔ اقوام متحدہ فوری طور پر اس خطرناک معاملے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی تلخیوں پر توجہ دے تاکہ قوموں میں شائستگی اور احترام کی فضا پیدا ہوسکے۔
انھوں نے کہا کہ میں یہاں پاکستان کے بارے میں سوالات کے جواب دینے نہیں آیا بلکہ اپنے عوام کی طرف سے کچھ سوال کرنے آیا ہوں۔ لاہور کی مون مارکیٹ میں 7دسمبر 2009ء کے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والی دو سال کی بچی، بم دھماکوں سے بار بار تباہ ہونے والے پشاور، کوئٹہ، لاہور اور کراچی کے درجنوں بازاروں کے تاجروں، دکانداروں اور سرمایہ کاروں کی طرف سے اور میں اپنے ان تین بچوں کی طرف سے جن کی ماں ''محترمہ بینظیر بھٹو'' کو دہشت گردوں نے قتل کردیا، یہ سوال کرتا ہوں کہ پاکستان کو مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ صدر زرداری نے کہا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے انسانی جانیں ضائع ہوئیں، سماجی اقدار تار تار ہوگئیں اور پاکستان کی معیشت تباہ ہوگئی۔ ہماری معیشت، ہماری زندگیاں اور زندہ رہنے کی اہلیت کو چیلنج کا سامنا ہے اور عالمی سطح پر بھی ہمیں بڑے چیلنج درپیش ہیں اور آج ہماری حالت ڈکٹیٹر شپس کی ایک پروڈکٹ جیسی ہے۔
پاکستان سے زیادہ کسی ملک اور کسی ملک کے لوگ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ ڈرون حملوں اور شہری اموات کی وجہ سے اس جنگ کی پیچیدگی میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ جولوگ ہم سے ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ہم نے زیادہ کام نہیں کیا میں ان سے عاجزانہ درخواست کرتاہوں کہ وہ ہمارے شہیدوں اور ان کے لواحقین کی توہین نہ کریں۔ خارجہ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے صدرآصف علی زرداری نے کہا کہ ہمارے چین سے تعلقات مزید مستحکم ہورہے ہیں۔ ایک خودمختار، مستحکم اور محفوظ افغانستان ہی افغان عوام کے لیے بہتر ہے اور جو افغان عوام کے لیے بہتر ہے وہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ پاکستان میں 30لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور عالمی برادری ان کی باعزت واپسی کے لیے تعاون کرے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کا روشن مستقبل اسی وقت ممکن ہوگا جب امن عمل افغان قیادت میں ہو۔