خیالی پلاو فرسٹ ایئر فُول

’’معاف کر دے یار‘‘، راجو نے آگے بڑھ کر عبداللہ کو گلے سے لگا لیا۔ عبداللہ اب راجو کارونا محسوس کر سکتا تھا۔

مرغا نہ بننے پر راجو نے نوید کو تھپڑ مارتے ہوئے جانے کو کہا۔ جواب میں نوید نے کہا کہ کیا مجھے کوئی ڈیپارٹمنٹ چھوڑ آئے گا؟ جس کے جواب میں راجو نے کہا کیا تو اندھا ہے؟۔ جس پر نوید نے اپنی کالی عینک اُتارتے ہوئےکہا کہ جی میں دیکھ نہیں سکتا سَر۔ ۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
''اوئے راجو! وہ دیکھ سیکنڈ ائیر کے امجد کو۔۔۔فرسٹ ائیر والے فولنگ سے بچانے کے لیے اُس کا ہاتھ پکڑ کے لے کر جا رہا ہے''، راجو کے دوست نے راجو سے کہا۔

''سیکنڈ ائیر کا ہے تو پھر کیا ہوا، ہے تو ہم سے جونیئر ہی ناں''، راجو نے یہ کہتے ہوئے اشارے سے دونوں کو اپنی طرف بلایا۔

''اوئے تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر تواس کا ہاتھ پکڑ لے گا تو یہ فولنگ سے بچ جائے گا''، راجو غصّے میں بولا۔

''نہیں سَر۔۔۔میں نے تو۔۔۔۔وہ میں۔۔۔میں۔۔۔''

''اوئے کیا میں میں لگائی ہوئی ہے تو نے، چل نو دو گیارہ ہو یہاں سے، چل شاباش''، راجو کے لہجے میں حکم تھا۔

''وہ سر ۔۔۔کیا میں اسے بھی ساتھ لے جاؤں'' امجد نے بیچارگی سے کہا۔

''تو جاتا ہے کہ دکھاؤں ہاتھ''۔ راجوغصّے سے امجد کی طرف بڑھا اور امجد کو جانا ہی پڑا۔

'' ہاں اب تُو بتا، کیا نام ہے تیرا''، اب راجو اپنے شکار سے مخاطب تھا۔

''جی۔۔۔ نوید''، نوید بالکل سہما کھڑا تھا۔

''یہ امجد کیا لگتا ہے تیرا؟''

''چھوٹا بھائی ہے ''۔

''چھوٹا بھائی ہے اور تیرے سے ایک کلاس آگے ہے، کیا بات ہے۔ تو بھی لگتا ہے کہ ہماری طرح کا ہی ہے''

''نہیں ۔۔۔وہ تومیں''

''پہاڑے آتے ہیں؟'' راجو نے نوید کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

''جی آتے ہیں''۔

''چل پھر سات اعشاریہ سات نو (7.79) کا پہاڑہ سُنا، ایک سانس میں اور وہ بھی اُلٹا''۔

''یہ تو مجھے نہیں آتا''

'' اوئے سات کا پہاڑہ نہیں آتا تجھے، میٹرک میں کتنے نمبر تھے؟'' راجو کے لہجے میں ڈرامائی حیرت تھی۔

''فرسٹ ڈویژن تھی''۔

''اچھا میٹرک میں فرسٹ ڈویژن، اور پہاڑہ سات کا نہیں آتا موصوف کو''، راجو نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوستوں سے کہا جو صرف ہنس رہے تھے۔

''جی سات کا آتا ہے مگر سات اعشاریہ سات نو کا ایک سانس میں نہیں سنا سکتا، اور اُلٹا تو بالکل بھی نہیں'' ، نوید نے درستگی چاہی۔

''آگے سے زبان چلاتا ہے؟ کالی عینک لگا کر ہیرو سمجھتا ہے تُوخود کو؟'' راجو مفت کی بھڑاس نکال رہا تھا۔

''سوری جی۔۔۔''

''کیا سوری جی اوئے۔۔۔تجھے سینئرز سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے کیا؟۔۔۔سوری سَر بول''

''سوری سَر''۔

''ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔ چل بتا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟''

''چار۔۔۔سَر''۔

''بائیس ہوتے ہیں''۔

''نہیں سَر چار ہی ہوتے ہیں''

''میں نے بولا ناں بائیس ہوتے ہیں، تو بائیس ہی ہوتے ہیں''۔

''جی سَر''

''اگلا سوال، ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں؟ یہ سوال بھی غلط ہوا تو سزا ملے گی''

''سَر۔۔۔(کچھ سوچ کر)۔۔۔گیارہ۔۔۔گیارہ ہوتے ہیں سَر''۔

''شاباش بیٹا۔۔۔(تالیاں مارتے ہوئے)۔۔۔میٹرک میں فرسٹ ڈویژن اور یہ پتا نہیں کہ ایک اور ایک دو ہوتے ہیں۔ باپ نے پیسے دیے تھے کیا پاس کروانے کو''۔
نوید نے غصّے سے مٹھیاں بھینچ لیں۔


''اچھا مُنّا غصّہ بھی کرتا ہے۔۔۔۔ابھی تو تیرا انٹرویو شروع ہوا ہے بچے۔۔۔تو ابھی سے گھبرا گیا ہے''۔

''میرے ابّو کے بارے میں کچھ نہیں کہنا''، نوید کے لہجے میں تلخی تھی۔

''اچھا تو تُو دھمکی لگا رہا ہے''۔ راجو نوید کی طرف بڑھا لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔

'' چھوڑ ناں راجو، لڑائی کرے گا تو پرنسپل کے پاس جانا پڑے گا''۔ راجو کے دوست نے اُسے پکڑتے ہوئے کہا۔

''ابے تُو اُس کی اکڑ تو دیکھ کیسے کھڑا ہے''۔

''چل چھوڑ ناں وہ ابھی تجھے جانتا نہیں ہے۔۔۔(نوید کو مخاطب کرتے ہوئے)۔۔۔چل اوئے سوری بول سَر کو''

''سوری سَر''۔

''بس نکل گئی ہوا غبارے سے''، راجو کے لہجے میں طنز تھا لیکن اُس کا غصّہ اُتر چکا تھا۔ ''تُو نے میرا دماغ گرم کردیا ہے۔۔۔ اب کوئی لطیفہ سنا مجھے، پسند نہیں آیا تو کنفرم مار کھائے گاتُو''۔
ٓ

''مجھے لطیفے نہیں آتے زیادہ۔۔۔سَر''۔

''اوئے تجھے لطیفے نہیں آتے؟ کیا کبھی موبائل use نہیں کیا تُونے، سارا دن یہی کچھ تو چلتا ہے موبائل میں''۔

''کبھی دیکھا بھی نہیں سَر''، نوید بیچارگی سے بولا۔

''تو نے کبھی موبائل نہیں دیکھا ؟۔۔۔تو جنگل میں رہتا ہے کیا؟'' راجو کے لہجے میں غصّہ اور حیرت دونوں کی آمیزش تھی۔

''جھوٹ بول رہا ہے یہ، میں نے خود اس کے بھائی کو موبائل استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے''، راجو کا دوست بولا۔

'' اچھا تو تُو اُلٹا ہم سے گیم کھیلنا چاہتا ہے، چل ایسے تو ایسے سہی۔۔۔اب سوال جواب کا سیشن ختم۔۔۔اب پریکٹیکل ہو گا۔۔۔چل ہمیں بندر کی طرح کُود کر دکھا''۔

''نہیں کُود سکتا۔۔۔سَر''

'' نہیں کُود سکتا سے مطلب؟ شرم آتی ہے تیرے کو؟۔۔۔چل شاباش شروع ہو جا ورنہ بہت پِٹے گا میرے ہاتھ سے''۔

''وہ میں نے کبھی بندر دیکھا نہیں ہے۔۔۔سَر''

''اوئے کیا چیز ہے یہ، یہ توہمیں پاگل کر دے گا''، راجو نے اپنا سَر پکڑتے ہوئے کہا۔

'' سَر میں۔۔۔''

''بکواس بند کر اپنی۔۔۔ لگتا ہے کہ تجھے اپنے ہاتھ دکھانے ہی پڑیں گے''۔ راجو نوید سے زِچ ہو چکا تھا۔

''نہیں سَر میں تو۔۔۔''

''تُو اب کان پکڑلے فوراََ سے پہلے۔۔۔ورنہ بہت پڑیں گی تجھے اور کوئی چھڑانے بھی نہیں آئے گا''، راجو ایک بار پھر نوید کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
نوید نے راجو کا حکم مانتے ہوئے فوراََ اپنے کان پکڑ لیے۔ شاید وہ راجو کی دھمکی سے ڈر گیا تھا۔

''اوئے اس طرح نہیں، مُرغا بن مُرغا''، راجو نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

''جی وہ کیسے بنتے ہیں ، مجھے نہیں پتا''

'' اوئے تجھے مُرغا بننا نہیں آتا۔۔۔باہر کے ملک سے پڑھ کر آیا ہے کیا ؟''، راجو دھاڑتے ہوئے ہوئے نوید کی طرف لپکا لیکن نوید اپنی جگہ پر ہی کھڑا رہا۔

'' اوئے میں اسے چھوڑوں گا نہیں''، یہ کہہ کر راجو نے ایک زنّاٹے دار تھپڑ نوید کے منہ پر رسید کیا۔ اور نوید ایسے گھبرایا جیسے کوئی زلزلہ آگیا ہو۔

''اوئے راجو چھوڑناں یار۔۔۔پاگل ہو گیا ہے تو۔۔۔تو جانتا نہیں ہے کیا پرنسپل کو؟''، راجو کے ایک دوست نے اُسے پکڑ لیا اور دوسرا دوست نوید کی طرف بڑھا ۔

''تجھے مار کھانے کا زیادہ شوق ہے۔۔۔ابے تیرا دلیہ بنا دے گا یہ'' ، راجو کے دوست نے راجو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

'' اسے دفعہ کر دو یہاں سے۔۔۔مر جائے گا میرے ہاتھ سے''، راجو نے غصّے اور بیزاری سے نوید کو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا۔ لیکن نوید کا شاید جانے کا اردہ نہیں تھا اس لیے وہ اپنی جگہ پر ہی کھڑا رہا۔

''اب جا ناں یار۔۔۔تیرا دوبارہ پٹنے کا ارادہ ہے کیا؟''، راجو کا دوست بولا جو شاید پرنسپل کے ڈر سے لڑائی بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔

''سَر کیا مجھے کوئی روم نمبر فورٹی وَن میں چھوڑ آئے گا ۔۔۔میری کلاس ہے وہاں پر''۔

''اوئے یار کیا چیز ہے یہ۔۔۔اب اس نواب صاحب کو ہم اس کے روم تک چھوڑکر آئیں''، راجو دووبارہ کھڑا ہو گیا ۔ '' تیری ٹانگیں نہیں ہیں ۔۔۔لنگڑا ہے تُو یا دِکھتا نہیں ہے تیرے کو''۔

سَر دِکھتا نہیں ہے۔۔۔(اپنی کالی عینک اُتارتے ہوئے)۔۔۔میں نہیں دیکھ سکتا سَر''۔

نوید کے آنسوؤں اور آواز کے درد نے راجو اور اُس کے دوستوں کا کلیجہ چیر دیا تھا ، نوید دیکھ نہیں سکتا تھا ورنہ وہ بھی اُن کی آنکھوں سے گرتے ندامت کے آنسو دیکھ لیتا۔

''معاف کر دے یار''، راجو نے آگے بڑھ کر نوید کو گلے سے لگا لیا۔ ''تُو تو ہم سے بھی سینئر نکلا یار''، پتھر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا، نوید اب راجو کارونا محسوس کر سکتا تھا۔
Load Next Story