عراق و شام کی صورت حال اور عرب ممالک
عرب ممالک نے عراق اور شام میں برسرپیکار داعش جنگجوؤں کے خلاف ’’ضروری اقدامات‘‘ کرنے پر اتفاق کرلیاہے...
عرب ممالک نے عراق اور شام میں برسرپیکار داعش جنگجوؤں کے خلاف ''ضروری اقدامات'' کرنے پر اتفاق کرلیاہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل العرابی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ داعش کے جنگجوؤں کے خلاف ضروری اقدامات کیے جائیں۔
انھوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے فوجی اور سیاسی اقدامات کیے جائیں۔ ادھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی جنگی طیاروں نے شمالی عراق میں ملک کے دوسرے بڑے ڈیم کے قریب بمباری کی جس میں داعش کے 25 جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکریٹری جان کْربی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کی طرف سے حدیثہ ڈیم کو لاحق خطرات کے پیش نظر کیے گئے اور ان کا مقصد دہشت گردوں کو انتباہی پیغام دینا ہے۔ امریکا کی جانب سے اس علاقے میں یہ پہلا فضائی حملہ ہے۔ ادھر ایک اور افسوسناک واقعہ ہوا ہے ۔اطلاعات کے مطابق شمالی عراقی شہر کرکوک میں عراقی فضائیہ نے ایک اسپتال کو نشانہ بنایا جس میں زیرعلاج بچوں سمیت7 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ادھر شام میں بشارالاسد کی حامی سرکاری فوج کے مخالفین کے زیر قبضہ علاقوں میں حملوں میں 106افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ عراق اور شام کی صورت حال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اسے حل کرنا علاقائی ممالک کے بس سے باہر ہو چکا ہے' اگر ان کے بس میں ہوتا تو حالات اتنے خراب ہی نہ ہوتے۔ اب عرب لیگ نے داعش کے خلاف ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق تو کر لیا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا' حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کی غفلت اور مصلحت اندیشی کے باعث اس سارے خطے کے حالات انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ شام اور عراق میں جو حکومتںقائم ہیں' ان کی رٹ موجود نہیں ہے' عراق عملاً تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور وہاں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔
شام کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ عراق اور شام میں کہیں امریکی فضائیہ بمباری کر رہی ہے تو کہیں سرکاری فوجیں اور کہیں داعش کے جنگجو۔ اس صورت حال نے مشرقی وسطیٰ کے پورے خطے کو عدم استحکام سے دو چار کر رکھا ہے کیونکہ ان ممالک میں ہونے والے واقعات دیگر ممالک پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔یہ عرب ملک بھی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔لیبیا میں قذافی کی موت کے بعدحالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں۔شمالی افریقہ کا یہ خوشحال ملک اب عبرت کی مثال بن چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دی جا رہی ہے۔
عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت اقدامات کر رہی ہیں جس کے باعث مشرق وسطیٰ میں تقسیم بڑھ رہی ہے۔امریکا 'برطانیہ اور فرانس کے اپنے مفادات ہیں۔وہ انھیں سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔اسی طرح روس اور چین اپنے مفادات کے تحت اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ان کے اس رویے نے پوری دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ عراق و شام میں قیام امن کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر پالیسی تشکیل دیں۔ اس طریقے سے ہی یہاں امن قائم ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے فوجی اور سیاسی اقدامات کیے جائیں۔ ادھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکی جنگی طیاروں نے شمالی عراق میں ملک کے دوسرے بڑے ڈیم کے قریب بمباری کی جس میں داعش کے 25 جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکریٹری جان کْربی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کی طرف سے حدیثہ ڈیم کو لاحق خطرات کے پیش نظر کیے گئے اور ان کا مقصد دہشت گردوں کو انتباہی پیغام دینا ہے۔ امریکا کی جانب سے اس علاقے میں یہ پہلا فضائی حملہ ہے۔ ادھر ایک اور افسوسناک واقعہ ہوا ہے ۔اطلاعات کے مطابق شمالی عراقی شہر کرکوک میں عراقی فضائیہ نے ایک اسپتال کو نشانہ بنایا جس میں زیرعلاج بچوں سمیت7 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ادھر شام میں بشارالاسد کی حامی سرکاری فوج کے مخالفین کے زیر قبضہ علاقوں میں حملوں میں 106افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ عراق اور شام کی صورت حال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اسے حل کرنا علاقائی ممالک کے بس سے باہر ہو چکا ہے' اگر ان کے بس میں ہوتا تو حالات اتنے خراب ہی نہ ہوتے۔ اب عرب لیگ نے داعش کے خلاف ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق تو کر لیا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا' حقیقت یہ ہے کہ عرب ممالک کی غفلت اور مصلحت اندیشی کے باعث اس سارے خطے کے حالات انتہائی بگڑ چکے ہیں۔ شام اور عراق میں جو حکومتںقائم ہیں' ان کی رٹ موجود نہیں ہے' عراق عملاً تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور وہاں آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں۔
شام کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہے۔ عراق اور شام میں کہیں امریکی فضائیہ بمباری کر رہی ہے تو کہیں سرکاری فوجیں اور کہیں داعش کے جنگجو۔ اس صورت حال نے مشرقی وسطیٰ کے پورے خطے کو عدم استحکام سے دو چار کر رکھا ہے کیونکہ ان ممالک میں ہونے والے واقعات دیگر ممالک پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔یمن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔یہ عرب ملک بھی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔لیبیا میں قذافی کی موت کے بعدحالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں۔شمالی افریقہ کا یہ خوشحال ملک اب عبرت کی مثال بن چکا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایک منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دی جا رہی ہے۔
عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت اقدامات کر رہی ہیں جس کے باعث مشرق وسطیٰ میں تقسیم بڑھ رہی ہے۔امریکا 'برطانیہ اور فرانس کے اپنے مفادات ہیں۔وہ انھیں سامنے رکھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔اسی طرح روس اور چین اپنے مفادات کے تحت اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ان کے اس رویے نے پوری دنیا کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ عراق و شام میں قیام امن کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر پالیسی تشکیل دیں۔ اس طریقے سے ہی یہاں امن قائم ہو سکتا ہے۔