بھاری مینڈیٹ

1947 سے لے کر آج تک ہم پر رائج و مسلط ’’جمہوری، آمریتی خم‘‘ کے نظام نے پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے ۔۔۔


رضوان گورایا September 09, 2014

آج کل ایوان اقتدار میں، گلی کوچوں و بازاروں میں چار الفاظ انتہائی برق رفتاری سے زیر گردش ہیں۔ آئین، جمہوریت ، مینڈیٹ اور نیا پاکستان! سوچا چونکہ ہر کوئی ان لفظوں کے مفہوم کا متراجم بنا بیٹھا ہے میں بھی اپنی ''عام سی رائے'' کا اظہار کر ڈالوں آخر بھائی میں بھی ایک مسلمان و پاکستانی ہوں۔ آج ہماری پیاری سرزمین جس کا نام ہی پاکی و پاکیزگی کا مجموعہ ہے کو چاروں طرف سے مسائل نے گھیر لیا ہے۔

1947 سے لے کر آج تک ہم پر رائج و مسلط ''جمہوری، آمریتی خم'' کے نظام نے پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سے نکلنا بے حد دشوار و مشکل لگتا ہے۔ اس قومی جرم و غفلت کی بنیادی وجہ ذہنی پسماندگی اور بالائی طبقوں کی کرپشن و ذاتی مفادات ہیں۔ آج اقوام عالم شاہراہ سائنس میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے جہاں زماں، مکاں کے پرانے تصورات کو یکسر بدل دیا گیا ہے۔ اور ہم شاہراہ دستور پر ''دھرنیاں'' مار کر ''نیا پاکستان''، ''انقلاب'' نیا آئین و دستور اور کل عوامی مینڈیٹ کا بھرپور اظہار و دعویٰ کر رہے ہیں اس حقیقت کے برعکس کہ ان عوامی دھرنوں میں مجموعی عوامی عدم دلچسپی اور اہل دانش کی لاتعلقی ہے ۔

آزادی و انقلاب، روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، امن وامان، مستحکم و مضبوط معیشت، یکساں تعلیمی نظام، عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق، اور پانی و بجلی ہم سب کو چاہیے یہ ہمارا قومی و آئینی حق ہے جس کی ضمانت آئین و قانون نے دے رکھی ہے مگر! اور یہ حکومت کا بنیادی فرض ہے جس کا ''مینڈیٹ'' عوام الناس نے تمام حکومتوں کو دیا ہے۔ وہ الگ بات و بحث ہے کہ اس مینڈیٹ میں دھاندلی، غنڈہ گردی، جعلسازی و فریب اور ذاتی مفادات کا لازم جزو عنصر کارفرما ہے؟

ایک طرف پارلیمنٹ سے باہر بیٹھا طبقہ آزادی و انقلاب کا راگ الاپ رہا ہے جس میں جدید فن و فرمائشی پروگرام بھی شامل ہیں ۔ مثلاً بچوں کے کھلونوں سے لے کر بال و بلا اور بستر وغیرہ وغیرہ کی ڈیمانڈ اور نیا پاکستان کے قیام سے ایک نئی شادی کی خاندانی لاحاصل و محدود منصوبہ بندی! تو دوسری جانب پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے لیڈران وطن یا ڈالر پرست قانون وآئین، حسن جمہوریت، آمریت کے منفی اثرات، اخلاقیات، مذہبی و ثقافتی اقدار اور بھاری مینڈیٹ کے حسین خواب دکھا رہے ہیں۔

دھاندلی زدہ الیکشن اور بھاری مینڈیٹ کے حامل بھاری لیڈران زندہ قوم اپنی اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے آج تک جس ''حقیقی دھاندلی'' کا سامنا پاکستان کو اپنے قیام سے لے کر آج تک ہو رہا ہے اس پر نہ اندر نہ باہر بیٹھے لیڈران قوم سے بات کرتے ہیں! جس کو دیکھو آج بھاری بھرکم مینڈیٹ کی بات کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر آج تک یہ بھاری جسم و مینڈیٹ رکھنے والے نام نہاد لیڈران وطن عوام الناس کو ''معاشی آزادی'' نہ دے سکے۔

الیکشن کی دھاندلیوں سے سب واقف ہیں لیکن اصل دھاندلی تو ہم زندہ قوم کے ساتھ ہو رہی ہے جس پر کوئی بھی بات و ذکر تک نہیں کرتا۔ روٹی، کپڑا و مکان کے نام پر آج ہم سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔ پانی و بجلی کے نمایشی منصوبوں کی آڑ میں ہم پر لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط ہے۔ امن کے نام کے پیچھے دہشت گردی کا بازار گرم ہے۔

بنیادی حقوق، صحت و تعلیم جس کا اس ملک کا قانون و آئین ضامن ہے ہمیں میسر نہیں۔ بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ انتھک جدوجہد و قرض لے کر نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہیں اور روزگار نہ ملنے پر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ڈگریاں جلا دیتے ہیں کچھ جرائم کی طرف راغب مجبوری کے تحت ہوکر پھر تھانوں میں اپنے خلاف ڈگریاں کٹاتے اور پابند سلاسل ہوجاتے ہیں۔ انصاف کا دورانیہ اس قدر طویل ہے کہ عدالتوں میں جا جا کر اکثر لوگ قبرستان کے مستقل مہمان بن جاتے ہیں ۔

آج ہمارے ملک کا یہ عالم ہے نہ بیمار کو دوا ملتی ہے نہ پینے کو صاف پانی! اور ہمارے قبلہ محترم لیڈرز آئین و دستور، جمہوریت اور بھاری مینڈیٹ کا راگ الاپتے ہیں ۔ ان حضرات گرامی کو عوام الناس کا وہ ''عوامی مینڈیٹ'' آخر کیوں نظر نہیں آتا جنھوں نے اپنی آواز کے طور پر ان تمام کو اپنا نمایندہ بناکر اسمبلیوں میں بھیجا تاکہ یہ تمام عوام کو روزگار، تعلیم و صحت، پانی و بجلی اور مکمل ''حقیقی معاشی آزادی''دیں؟ کیا یہ ہمارے عوام کے عوامی مینڈیٹ کے ساتھ ظلم و جبر یا زبردست دھاندلی نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے خوابوں کی بے حرمتی نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں ہمارے جذبات نہیں؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک عوام کے معاشی حقوق کو کسی نے بحال نہیں کیا اب تک! آج تک اس قوم کی معاشی آزادی کو سامراج اور ہمارے ان نام نہاد جمہوری، آمریتی لیڈران گرامی نے ضبط کیا ہوا ہے! آج ہم زندہ قوم کو اپنی معاشی آزادی کے حصول کے لیے قربانی دینی پڑے گی اور اپنے ''مقدس عوام مینڈیٹ'' کی لاج رکھنی ہوگی ہمیں اپنے وطن عزیز کو نیا بنانے کی ضرورت نہیں ماضی میں بھی ایک جگر کا ٹکڑا ہم سے الگ ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کیسے اس ایک سوچ کے حامل نظام جو اپنے مفادات کا ضامن ہے اس ''جمہوری، آمریتی خم'' کے بھنور کو توڑنا پڑے گا اور حقیقی معاشی آزادی کی تحریک کو دوبارہ زندہ کیونکہ ہم تو زندہ قوم کے دعویدار ہیں !علامہ اقبال نے خوب فرمایا:

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے' نہ من تیرا نہ تن

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں