غزہ پر صہیونی جارحیت کی داستان فتح عظیم پہلا حصہ
غزہ پر ایک مرتبہ پھر 2008اور2012 کی طرح آگ اور میزائلوں کے زد سے گزر کر کامیابی کی منزلوں کو عبور کرگیا۔۔۔
غزہ پر ایک مرتبہ پھر 2008اور2012 کی طرح آگ اور میزائلوں کے زد سے گزر کر کامیابی کی منزلوں کو عبور کرگیا ہے،اسرائیل کے جنگی جہازایک بار پھرغزہ کی پٹی میں شہری اور فوجی مقاصدکونشانہ بناتے رہے اورمعصوم بچوں،بوڑھوں اور خواتین کے قتل عام کی نہ ختم ہونے والی داستان رقم کرتے رہے، ان پرامن شہریوں کواپنا ہدف بنایا جو کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے، یہ اسرائیل کی ایک دوسری تلاش اور کوشش تھی جس میں فلسطینی عوام کا صبرواستقامت کا امتحان لینا تھا، صہیونی اس گمان میں تھے کہ شاید عوام کے محکم ارادوںکو متزلزل کرسکیں گے اوران کے غرورکو خاک میں ملادیں گے۔
جس کے نتیجے میں وہ انھیں جھکنے اور بکنے پر سرتسلیم خم کرنے اوراسرائیلیوں کی ہربات ماننے پر مجبور کرسکیں گے مگر اس بار طاقت کا توازن یکطرفہ نہیںتھا اور اسلامی جہاد کی طرف سے قائم کردہ رعب اور دبدبے کے فارمولے کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کی ساری تدبیریں جو کہ شیطانی تھیں خاک میں ملتی رہیں،شمال اور جنوب میں کوئی فرق نہیں رہا جب کہ اسرائیل کا ہرعلاقہ جہاد اسلامی کے میزائلوں کے زدمیں آگیا لہذا جہاد کے میزائیل اب اسرائیل کے کسی بھی علاقے کواپنا نشانہ بنا سکتے تھے،،اب قدس مزید دور نہیں اور نہ تل ابیب اور اس کے شمال اور جنوب کے علاقے دور ہیں۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی آگ کے گولوں کا حملہ کوئی نئی بات نہیں اس نے اسرائیل کے سامنے سر خم کرنے سے انکارکیا،اسی طرح غاصب اسرائیل کو دوبارہ فلسطین کے زمین وآسمان کو ہڑپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،اب کی مرتبہ فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صہیونی حملوں کی قیمت نہیں چکائیں گے بلکہ فلسطینی مزاحمتی تحریک نے دشمن کو برابری کا جواب دیا،آگ کا جواب آگ میں دیا گیا، میزائل کا جواب میزائل اورحملوں کا جواب حملہ اب اسی اسلحے سے دیاگیا اور اسی طاقت سے اس کا مقابلہ کیاگیا۔ اب اس کی ہر تلاش اور حملے کے سامنے بند باندھاگیا ہے،اب اس کی سرزمین دشمن کے لیے مزید ترنوالہ نہیں بننے والی ہے،نہ اس کی مٹی اتنی نرم ہے ،نہ اس پر ظلم وبربریت کرنا تفریح ہوگی بلکہ اس کی سرزمین بہت بھاری ہے،اب دشمن دفاع اورمدافعت کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔
غزہ پر گزشتہ دس سالہ دور میں مسلط کی جانے والی یہ تیسری جنگ ہے اور ہربار اس کے جنگی جہازغزہ پٹی کی سرزمین پر میزائلوں کی بوچھاڑ کرتے رہے ہیں،یہاں کی عمارتوں اور رہائش گاہوں کو خاک میں ملاتے رہے،اسی طرح اس کے تمام راستے اور سڑکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ،اوراسی طرح اس علاقے میں بربادی اورتباہی پھیلادی مگرجب کچھ دنوں کے بعد جب دفاعی تدابیر کے تحت دشمن پرآگ کی بارش ہوئی تب مصر،امریکا اوردنیاچیخ اٹھتی ہے۔اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ فلسطینی دفاع کو ثالثی پیش کرنے کے لیے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔
تاکہ میزائلوں کے حملوں کو روک سکیں اورایک اورجنگ بندی پرآمادہ کرسکیں اور نئے شرائط منوائیں تاکہ اپنے ہموطنوں اورعوام کو جنگ بندی کی سوغات سے نواز دیں اوروہ (صہیونی) اپنی اپنی پناہگاہوں سے نکل کر ایک بار پھراپنی زندگی کا آغاز کریں اورروزمرہ کاموں میں لگ جائیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی جنگ بندی کے بعد غاصب اسرائیل ایک مرتبہ پھر جنگ بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گا اور غزہ پر ایک نئی جنگ نہ جانے کب مسلط کرے گا؟ شاید ہاں اور شاید نہیں، کیونکہ غاصب اسرائیل کی ہمیشہ سے تاریخ رہی ہے کہ معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی۔
غزہ پر یکطرفہ جنگ مسلط کی گئی ہے، اب جب یہ جنگ 51روز جاری رہی اور بالآخر مصر جو کہ امریکی تھپکیوں کے باعث امن معاہدے کا راگ الاپ رہا تھا اس امن معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ کیا مصر نے اس امن معاہدے میں فلسطینیوں کی حمایت اور داد رسی کی ہے کہ جن فلسطینیوں کے 2150بے گناہ لوگوں کو اسرائیلی گولہ بارود کا نشانہ بنایا گیا۔بہر حال اب کی مرتبہ ہونے والے امن معاہدے کی بات کچھ اور تھی کیونکہ اسلامی مزاحمت نے اپنی پانچ شرائط رکھ دیں تھیں جن میں غزہ کا اسرائیلی محاصرہ مکمل طور پر ختم کرنا، غزہ کے لیے آزاد آمد و رفت، راستوں کاکھولا جانا، رفح کراسنگ کو مستقل بنیادوں پر کھولنے جیسے مطالبات شامل تھے اور بالآخر غاصب اسرائیل کو ان پانچ شرائط کو قبول کرنا ہی پڑا جو کہ نہ صرف غزہ کے اٹھارہ لاکھ لوگوں کی فتح ہے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے ہر فلسطینی اور فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کی عالمی استعماری قوتوں کے مقابلے میں فتح عظیم ہے۔
یہ فلسطین کی تقدیر ہے کہ صہیونی دشمن کے خلاف اس کی جنگیں زیادہ تر رمضان مبارک میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اسرائیل کی معاندانہ کارروائیاں اب ایک بار پھر دسویں رمضان کی عرب اسرائیل جنگ کی اکتالیسویں سالگرہ کے موقعے پروقوع پذیر ہوئی تھیں،جس میں اسرائیل کے خلاف عربوں کو اجتماعی فتح ونصرت حاصل ہوئی تھی اوراسرائیل کو شرمناک اوردردناک شکست سے دوچارکیا گیا تھا تاکہ یہ فلسطینیوں کے لیے ایک خوشخبری ہوجوکہ فتح ونصرت تمہاری قدم چومنے کے لیے انتظار کررہی ہے اور جب بھی عرب ہو عجم رمضان کے مہینے میں جنگ کیں موجودہ یاقدیم زمانے میں کیوں نہ ہوں مگر خدانے انھیںفتح سے ہمکنار کیا ہے،اور انھیں دشمنوں پر غلبہ عطاکیا ہے اور اپنی نصرت سے ان کے سینے میں ٹھنڈک پہنچادی ہے،اوران پر عزت وکرامت کی بارشیں برسائیں۔
غزہ کے خلاف اسرائیل کی طرف سے لاگو شدیدترین اور بدترین پابندیاں جس کی وجہ سے انھیں زندگی کی تمام نعمتوں سے محروم اورسادہ زندگی کے تمام لوازمات سے بے بہرہ کردیا گیاان شرائط کی وجہ سے تین دہائیوں سے فلسطینی عوام رمضان کے مہینوں میں سخت حالات سے دوچاررہے ہیں جن میں کم سے کم بجلی کی عدم دستیابی اورتنخواہوں کی بندش،دوائیں،اشیائے خوردنوش اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے بابرکت ماہ رمضان میں غزہ کے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے ۔
صہیونی دشمن نے ٹھان لیا ہے کہ اس بابرکت مہینے کو فلسطینیوں کے لیے ناگوار بناکرچھوڑیں اورانھیں اپنے آداب معاشرت وزندگی سے لطف اندوزی ہونے سے روکا جائے ،اسی لیے جنگ ومیزائیل اور حملوں کے ذریعے غاصبانہ دشمنیوں پراترآئے اورغزہ کی پٹی پر وحشیانہ نظام ڈھائے 1948 میں القدس ،مقبوضہ علاقوں میں اورمغربی کنارے میں بسنے والے تمام فلسطینیوں کے خلاف پیچھا کرنے،تنگ کرنے،گرفتاراورقتل کرنے جیسے مظالم روارکھے گئے مگردرحقیقت وہ اس مہینے سے خوف زدہ ہیں ،وہ مسلمانوں کے عزم وارادے،صبروشکیبائی اور بلاؤں میں استقامت اور جہادوشہادت کے لیے سبقت لینے کے جذبے سے پریشان ہیں۔
جس روزسے ا سرائیل نے غزہ پر یکطرفہ جنگ مسلط کی اور اسلامی جہاد کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تو اسرائیلی سڑکوں پر سکون واطمینان اورسلامتی نامی کوئی چیزنہ رہی اور نہ ہی اعتمادواستحکام باقی رہا،اورنہ ہی امن وسکون کا کوئی احساس، تمام اسرائیلیوں کے دلوں میں بغیر کسی تفریق کے خوف اوردہشت سوار رہی ۔اس مرتبہ کی جنگ میں صرف غزہ کے بے گناہ معصوم لوگ ہی اسرائیلی سفاکیت کا نشانہ نہیں بنیں گے بلکہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی جہاد کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ صہیونیوں کو بھی سکون سے نہیں رہنے دیں گے، البتہ اسلامی جہاد نے صہیونیوں کی عوامی بستیوں پر کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کیا لیکن پھر بھی صہیونی دن رات پناہ گاہوں کی طرف پناہ لینے کے لیے تیاریوں میں لگے رہتے تھے ۔
تاکہ امن اورپناہ نصیب ہو اورراکٹوں کے حملوں سے چھٹکارامل سکے، یااس کے امکانات سے بچنے کے لیے کہ کہیں فلسطینی مجاہد کہیں چھپ کرفائرنگ لائین،پارکرکے نہ گھس جائیں،اسرائیلیوں کی طرف سے چھاؤنیوں اورشہروں میں اچانک چیکنگ کرنا،اور ایسے اقدامات مشاہدے میں آئے ہیں کہ گویا خوف اوردہشت ان کے دلوں میں بس گئی تھی، یہاں تک کہ ہر چیزسے وحشت زدہ نظر آتے تھے۔صہیونی سائرن کی آواز سنتے ہی محفوظ پناہ گاہوں میں جو انھوں نے زیر زمین بنکرز کی صورت میں بنا رکھی ہیں کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور تہہ خانوں میں پناہ لیتے تھے، جب کہ دوسری جانب غزہ کے بہادر اور شجاع دلیر عوام غاصب اسرائیل کی سفاکیت کا سینہ تان کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کر رہے تھے۔اس مرتبہ غاصب اسرائیل میں کام کرنے والے سرکاری اور نجی ملازمین چھٹیاں لے کر ملک سے فرار کا راستہ اختیار کرتے رہے جب کہ اسلامی مزاحمت نے اسرائیلی ائیر پورٹ کو بھی اپنا نشانہ بنایا اور پھر پروازوں کا شیڈول منسوخ کرنا پڑا جس کے باعث اب اسرائیلیوں میں خوف انتہائی درجہ تک پہنچ چکا تھا۔
یہ پھیلنے والی دھاک اوردہشت ہے،دلوں میں گھرکرجانے والے خوف ہیں اورنامعلوم قسمت اور تقدیریںہیں جس کا انتظارصہیونی نظام کررہا ہے، اسی نے جنگ کی ابتداء کی اور جرائم کے ارتکاب میں پہل کی، جب کہ اسے معلوم ہے کہ اس کا اندرونی محاذ منتشر ہے اوراس کے ارادے کمزور ہیں اورعوام اور فوج کا مورال بہت پست ہے جب کہ مقاومت اور دفاع فلسطین والوں کے پاس اچانک سرپرائز دینے،سردھڑبازی لگانے اورمدمقابل سے مڈبھیڑہونے اور دورہ کرنے کے لیے بہت کچھ ہے جوآنے والا وقت اورزمانے اس پر سے پردہ ہٹائیں گے۔